تحریر: جاوید اختر بھارتی
ملک کی عوام کو جہاں بہت ساری سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے وہیں بجلی، پانی، سڑک، روٹی، کپڑا، مکان یہ بنیادی سہولیات ہیں اور بنیادی ضروریات ہیں بجلی سے مراد روشنی ہے اور پیدائش سے لے کر موت تک پانی کی ضرورت ہے غسل، کپڑے کی دھلائی، مکان کی تعمیر، کھانا پکانے سے لے کر کھانا کھانے تک پانی کی ضرورت ہے زندگی کا آغاز کر نے کے لئے راستے کی ضرورت ہے، منزل کی تلاش کے لئے بھی راستے کی ضرورت ہے ودھایک کو گاؤں سے اسمبلی ہاؤس جانے کے لئے اور ایم پی کو بھی گاؤں سے پارلیمنٹ ہاؤس جانے کے لئے راستے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد زندگی کا سفر طے کرنے کے لئے طاقت و صحت کی ضرورت ہے اور صحت کے لئے روٹی کی ضرورت ہے اور روٹی بنانے کے مکان کی ضرورت ہے اور مکان کی تعمیر کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے اور پیسہ کمانے کے لئے روزگار کی ضرورت ہے اور روزگار کے لئے ماحول کا سازگار و خوشگوار ہونا ضروری ہے اور یہ ساری ذمہ داری حکومت کی ہے یعنی عوام کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری حکومت کی ہے عوام کو نمائندوں سے کافی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور اسی امیدوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے عوام ووٹ دیتی ہے لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب ایک نمائندہ عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد خود اپنے لئے عالیشان عمارتیں بنواتا ہے، چلنے کے لئے مہنگی کاریں خریدتا ہے، عوام سے دوری اختیار کرلیتا ہے پھر عوام کا خود اپنے نمائندوں سے ملنا مشکل ہوجاتا ہے، بات کرنا دشوار کن ہوجاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کا مسلہ جوں کا توں رہ جاتاہے اج بھی بیشمار ایسے علاقے ہیں جہاں بجلی نہیں، پانی کی بہتر سہولیات نہیں، چلنے کے لئے سڑک نہیں، علاج کے لئے ڈھنگ کا ہاسپیٹل نہیں ، ہاسپیٹل ہے تو ڈاکٹر نہیں، ڈاکٹر ہیں تو دوا نہیں، بیڈ نہیں عوام آج بھی دردر کی ٹھوکریں کھاتی ہے ان کا پرسان حال کوئی نہیں، ان کے مسائل حل کرانے والا کوئی نہیں، ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں اسی وجہ سے عوام کا بہت بڑا طبقہ احساس کمتری کا شکار ہوتا جارہا ہے جبکہ حکومت سے لے کر انتظامیہ تک وزراء سے لے کر افسران تک سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو احساس برتری کے مقام تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کریں مگر یہ تب ہوگا جب نمائندوں کو یہ احساس ہوگا کہ ہمیں عوام نے ووٹ دیا ہے تو یہ ہمارے اوپر ایسا احساس ہے کہ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اتارا جاسکتا ہے لیکن افسوس صد افسوس احساس مرتا جارہا ہے مفاد عامہ سے کہیں زیادہ ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول میں لوگ قطار باندھے نظر آتے ہیں اسی لئے ہر سال یومِ خواتین منایا جاتا ہے، آزادی نسواں کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے اس کے باوجود بھی اینٹ بھٹوں پر آج بھی عورتیں کام کرتی ہوئی گالیاں سنتی ہوئی اور لعن و طعن کا شکار ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں ،، ہر سال یوم مزدور منایا جاتا ہے لمبے چوڑے خطاب ہوتے ہیں اور تالیاں بجتی ہیں اور اسی تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں مزدوروں کے سارے خیال گم ہوجاتے ہیں سارے خواب چکناچور ہوجاتے ہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کا مستقبل آج بھی ہوٹلوں پر، ڈھابوں پر، سرمایہ داروں کی دہلیز پر تباہ ہوتا ہوا اور تاریکیوں میں ڈوبتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے اور جو کچھ کسر رہ گئی تو کورونا جیسی جان لیوا بیماری اور لاک ڈاؤن نے پوری کردی،، غریبوں، بے سہاروں، کمزوروں اور مزدوروں کی کمر ٹوٹ گئی لا تعداد ایسے خاندان اور کنبے ہیں جو دن بھر خون پسینہ بہاتے ہیں تو شام کو اجرت ملتی ہے تو اس سے گھر کے چولہے میں آگ جلتی ہے اور ہانڈی چڑھتی ہے آج وہ بیکاری و بیروزگاری کی حالت میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں آج کی صورت حال ایسی ہے کہ بیماری کی حالت میں آکسیجن کی تلاش میں انگنت لوگوں نے موت کو گلے لگا لیا جبکہ آج تو ضرورت اس بات کی تھی کہ ملک کے سارے ایم پی، ایم ایل اے اپنے فنڈ کی رقم اپنے اپنے اضلاع کے ڈی ایم کے راحت و امدادی فنڈ میں دیدیتے تاکہ اسپتالوں میں علاج کا مکمل انتظام ہوجاتا اور کسی کو کہیں دوسری جگہ علاج کے لئے نہیں جانا پڑتا، آکسیجن کے لئے در در کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑتا لیکن یہ المیہ ہی کہا جائے گا کہ آج کے پر درد و غمگین ماحول میں بھی ایسا نہیں ہوسکا بس ساری توجہ دی جاتی ہے دکانوں پر کہ دکان نہیں کھلنا چاہئے وہ بھی چھوٹی چھوٹی دکانیں آئے دن خونچہ خوانچہ، ٹھیلا اور سبزی فروشوں پر قہر ٹوٹتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج غریب، مزدور، اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے، اپنے اور بچوں کے پیٹ کی بھوک کا واسطہ دیتے ہوئے،اپنی غریبی کی دہائی دیتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں زبان سے یہی کہہ رہے ہیں کہ آخر لاک ڈاؤن اور کورونا سے کب نجات ملے گی اور چین سے دو وقت کی روٹی کب میسر ہوگی کاش کوئی ہمارے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے ہمارے سوالوں کا اطمینان بخش جواب دیتا تو ہم بھی اپنے بوڑھے ماں باپ اور بچوں کو تسلی بخش جواب دیتے –
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں