کب تک لٹتے رہیں گے مذہبی منافرت کے ہاتھوں؟

منافرت پر مبنی سیاست کے دوران ہندوستان کی سخت گیر ہندو تنطیم وشو ہندو پریشدکی پریکرما سے ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پھر خطرہ لاحق ہوچلا ہے جبکہ یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں ہے کہ رام مندر کی تحریک اگرچہ مذہب کے نام پر شروع کی کئی تھی لیکن اس کا محور ہمیشہ سیاست رہی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے سوال کو اجاگر کرنے کیلئے ایک بار پھر ایودھیاکے طواف کا اعلان کیا ہے۔اتر پردیش کی ریاستی حکومت نے وشو ہندوپریشد کے اس پرگرام پر پابندی عائد کر دی ہے اور نقص امن کے اندیشے کے تحت پریشد کے رہنماؤں کو احتیاطی حراست میں لینے کا حکم دیا جبکہ پریشد کے بڑے بڑے رہنما روپوش ہو گئے تاہم انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پابندی کے باوجود اتوار سے اپنی اعلان شدہ تقریباً تین سو کلو میٹر لمبی پریکرما ایودھیا سے شروع کریں گے۔
تھوڑی دیر کیلئے بھول جاتے ہیں بنیادی مسائل:
بری مسجد-رام جنم بھومی معاملہ جسے ذرائع ابلاغ نے بڑی صفائی سے ’تنازع‘ قرار دے دیا۔بعد میں ترتیب الٹ کر ’رام جنم بھومی -بابری مسجد تنازع ‘حتی کہ نوبت یہ آگئی کہ ’متنازع ڈھانچہ‘ کے بعد محض’رام جنم بھومی‘ بتایا جانے لگا۔ مبصرین کے نزدیک برسوں سے چوٹ کھائی ہوئی مسلمانوں کی نئی نسل ماضی کے کھنڈروں سے نکل کراب مستقبل میں اپنی نئی منزلیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ انہیں بی جے پی سے لے کر کانگریس اور ملائم و لالو تک ہر طرح کے سراب اور رکاوٹیں پیش آئیں گی۔ لیکن مستقبل کی عمارت کیلئے ماضی کے کھنڈرات اور بابری مسجد کا ملبہ انہیں جماعتوں اور تنظیموں کیلئے چھیڑ کر آگے بڑھ جانا ہی وقت کا تقاضہ ہے۔گذشتہ30 برس سے ملک میں جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں‘ رام مندر کی تعمیر کا معاملہ کسی نہ کسی شکل میں سامنے آ جاتا ہے۔
گمشدہ وجود کی تلاش میں سر گرداں عناصر:
بابری مسجد کے انہدام کے بعد اگرچہ اس تنازع میں لو گوں کی وہ دلچسپی باقی نہ رہی جو مسجدشہیدہونے سے قبل تھی لیکن آج بھی یہ تنازع کچھ دنوں کے کیلئے ماحول گرم کر دیتا ہے۔ملک کے بدلتے ہوئے اقتصادی ، سماجی اور سیاسی پس منظر میں اپنے گمشدہ وجود کی تلاش میں سر گرداں کچھ سخت گیر عناصر چند لمحوں کیلئے ہندوستان کی سیاست میں اپنی افادیت محسوس کرلیتے ہیں۔انہیں بھی اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ مسجد کے انہدام کے ساتھ ان کی بھی سیاسی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ایسا اس لئے نہیں ہے کہ ملک میں مذہب اور نفرت کی سیاست اور نظریات کمزور پڑ گئے ہیں بلکہ عدم رواداری اور نفرت کے نظریات اب زیادہ موثر ، وسیع اور جدید طرز اختیار کر رہے ہیں اور اس نئے رجحان میں وشو ہندو پریشد جیسی پرانے طرز کی تنظیمیں نہ صرف اپنی معنویت کھو چکی ہیں بلکہ بوجھ بن چکی ہیں۔
مسئلہ ہے ’ریاست بمقابلہ لاقانونیت‘
ایودھیا کی بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ الہ آ باد ہائی کورٹ کر چکی ہے۔ عدالت نے اس دلیل کو تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کی زمین ہی بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے جبکہ آراضی معاملہ کا فیصلہ رام جنم بھومی کے حق میں کیا ہے۔اس کے خلاف دونوں ہی فریقوں نے سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے۔ معاملے کی سماعت شروع ہونی ہے۔ بابری مسجد-رام جنم بھومی کا تنازع ریاست کی رٹ اور اقتدار اعلیٰ اور لاقانونیت کے درمیان تھا۔ اس تنازع میں حکومت کو یہ طے کرنا تھا کہ وہ ریاست کے اقتدار اعلیٰ کا تحفظ کس طرح کرتی ہے لیکن موقع کی نزاکت کو سمجھے بغیربعض مسلم تنظیوں نے اس تنازع میں کود کر اس مسئلے کو ریاست بمقابلہ لاقانونیت سے ایک ہندومسلم مسئلہ بنا دیاجبکہ 1949 میں بابری مسجد کے منبر کے مقام پر مورتی رکھے جانے سے لے کر مسجد کے انہدام تک کسی بھی مرحلے پر یہ تنازع ایک مذہبی تنازع نہیں تھا۔
آزادی کے بعد سب سے گہرا زخم:
ہندوستان کی کئی ریاستوں میں ہزاروں مسلمان اس تحریک کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس تحریک نے مسلمانوں کو آزادہندوستان کی تا ریخ میں سب سے گہرا زخم دیا ہے۔برسوں سے چوٹ کھائی ہوئی مسلمانوں کی نئی نسل ماضی کے کھنڈروں سے نکل کراب مستقبل میں اپنی نئی منزلیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ انہیں بی جے پی سے لے کر کانگریس اور ملائم و لالو تک ہر طرح کے سراب اور رکاوٹیں پیش آئیں گی۔ مبصرین کے بقول مستقبل کی عمارت کیلئے ماضی کے کھنڈرات اور بابری مسجد کا ملبہ انہیں جماعتوں اور تنظیموں کیلئے چھوڑ کر آگے بڑھ جانا ہی وقت کا تقاضہ ہے۔
تمام مذاہب کیلئے ایک بڑا چیلنج:
یوں توفرقے اور فرقہ واریت دنیا کے تقریباً تمام ہی مذاہب کیلئے ایک معمہ اور جھگڑے فساد کا سبب رہی ہے جبکہ حوالہ جات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔تقریباً تمام ہی مذاہب میں فرقے اور ذیلی فرقے موجود ہیں ۔یہ سب ایک تاریخی مظہر ہیں اور تمام ہی تواریخ میں ان کا وجود نظر آتا ہے ۔فرقے اور فرقہ واریت کم و بیش دنیا کے تمام مذاہب کیلئے ایک بڑا چیلنج رہی ہے۔ ان پر نہ صرف دانشوروں نے بحث و تمحیص کی ہے بلکہ یہ جھگڑے فساد کی و جہ بھی بنتے آئے ہیں ۔چنانچہ اسے اگر ایک تاریخی حقیقت بھی تسلیم کر لیا جائے تو کیا اس مسئلہ کو امن و آشتی کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے؟ یا پھر صدیوں تک انہی مسائل پراسی طرح باہمی جھگڑتے ہوتے رہیں گے؟
مذہب یا کمیونٹی کی گئی ہے مذمت:
تاریخی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو مذہب یا کمیونٹی کی جانب سے فرقوں کی مذمت ہی کی گئی ہے اور ان کے وجود کو منفی معنوں میں لیا گیا ہے تاہم ، دور جدید کے بعد کی دنیا نے ایک متبادل طرز فکر اختیار کیا ہے اور بجائے اسکے کہ کسی خاص دور سے متعلق ایک معین نقطہ نظرکو اختیار کیاجائے، ان کی کثیرالطرفہ زاویوں سے تشریح کی جارہی ہے۔دور جدید کی دنیا میں بنیادی عقائد کی مختلف اور متبادل تشریح ، مذاہب کے ارکان، اقدار، مذہبی رسومات، ثقافت اور تاریخ کو کسی مذہب کی کمزوری نہیں بلکہ اس کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ مذاہب کی مختلف تشریح کرنے والوں سے نفرت نہیں کی جاتی بلکہ انھیں سراہا جاتا ہے ایک دوسرے سے رواداری برتنے اور ایک دوسرے کی تقریبات میں حصہ لینے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے۔اگر لفظ فرقہ، کو انحراف یا آزاد خیالی سے مراد لیا جائے تو پھرانسانی رویوں کا انداز بالکل مختلف ہوگا۔ تاریخ میں اسکی بہت سی مثالیں ملتی ہیں اور یہ بھی مختلف گروہوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھگڑوں کی ایک وجہ رہی ہے ۔
آخرکیا ہے حتمی سچ؟
اس رویہ کے نتیجے میں ایک فرقہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہی ’حتمی سچ ‘ ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف اسی کا حامی وناصر ہے ، اور صرف انہی کے فرقے کے لوگ جنت میں جائیں گے جبکہ باقی کا مقدر دوزخ ہے ۔عموماً صرف اپنے فرقے کے لوگوں کو ہم مذہب ’ بھائی ‘ جبکہ دوسروں کو’دشمن‘ سمجھا جاتا ہے ۔اس قسم کا رویہ رکھنے والے دوسروں کی توضیح و تشریح کو’ انحراف ‘ یا ‘ آزادخیالی ‘یعنی سچے عقیدے سے انحراف تصور کرتے ہیں۔اس طرز فکر کو فرقہ بندی یا فرقہ پرستی سے تعبیرکیا جاسکتا ہے ۔ اس طرز فکر کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ باقی سب سے الگ ہیں‘یعنی جیت یا ہارکی ذہنی کیفیت
’ متبادل ‘ عقائد یا خیالات کی تلاش:
دوسرا رویہ وہ ہے جس میں دیگر فرقوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ’ متبادل ‘ عقائد یا خیالات ہیں’ بشرطیکہ وہ انتہاپسند یا عسکریت پسند نہ ہوں ، اور تباہی کے راستے پر گامزن نہ ہوں‘ یہ رویہ’ دوسروں ‘ کی جانب مثبت طرز فکر کا حامل ہے ۔مسلم معاشرہ میں’ فرقہ ‘ کا لفظ مستعمل ہے جس کے لغوی معنی ’ شاخ ‘ کے ہیں۔ یہ ایک طاقتور استعارہ ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق ایک قوی الجثہ درخت سے ہے ۔ایک تنومند درخت جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے‘ اس سے کئی کئی شاخیں پھوٹتی ہیں۔ اسی طرح ایک عظیم مذہب یا روایت کے بھی کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ اگر کسی روایت کی تعبیرصدیوں تک ایک ہی مفہوم میں کی جائے تووہ ایک کمزور روایت ہوگی۔ ایسی صورت میں اسے درخت کی خوبی قرار نہیں دیا جاسکتا ‘ یہ ایک متنازع سوچ ہوگی ۔
اگر دنیا کے ’بڑے‘ مذاہب کے پس منظر میں اس استعارہ کا جائزہ لیا جائے تویہ مزید خوبصورت نظر آئے گا۔ ان مذاہب میں بھی تقسیم عمل میں آئی اور ان کے بہت سے مفاہیم پیش کئے گئے جبکہ ان میں سے ہر ایک اپنے لحاظ سے قابل قدر ہے۔ بہت سے مسلم مفکروں اورصوفیائے کرام نے بھی مسلم معاشروں میں ہم آہنگی اوریکجہتی اورتنوع وگوناگونی کے معاملات پر دانشورانہ انداز میں غوروفکرکیا ہے۔ رومی نے اس مسئلہ پرمختلف زاویوں سے روشنی ڈالی ہے۔ اپنی مثنوی میں انہوں نے ایک ہاتھی اور نابینا انسان کا استعارہ استعمال کیا ہے جس کے ذریعہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسانی تجربات داخلی نوعیت کے ہوتے ہیں ‘ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کے تجربات اور ان کی تشریحات کا احترام کیا جائے۔اسی کیفیت کو ٹی وی پرسرکاری اشتہارکے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن نہ جانے کیوں قریب 25یا تیس برس سے یہ سلسلہ موقوف ہے۔
فرقوں کی تقسیم یافرقہ واریت؟
خوش قسمتی سے دنیا بھر کے دانشور فرقوں کی تقسیم‘ فرقہ واریت نہیں‘ اسے مثبت انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ بہت سے دانشوروں کی کوشش ہے کہ نہ صرف مختلف کمیونٹیوں کے اندربلکہ دیگر کمیونٹیوں کے درمیان حائل خلیج کو نہ صرف پاٹا جائے بلکہ تہذیبوں کے درمیان فاصلوں کو بھی مٹایا جائے نیز تواریخ اور روایت کاتجزیہ کرکے ایسی بامعنی افہام و تفہیم کو فروغ دیا جائے جس سے نہ صرف ایک مذہب کے مختلف فرقوں کے مابین بلکہ دیگر مذاہب کے ساتھ بھی مفاہمت پیدا ہو ۔ عصرحاضر کے ایک معروف مسلم دانشورڈاکٹر فرہاد دفتری ’امہ‘ کوتشریح و توضیح کی کمیونٹیاں یا کمیونٹیز آف انٹرپریٹیشنز‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کمیونٹیاں ایک ہی عقیدے کی مختلف انداز میں تشریح کرتی ہیں جس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے چند تاریخی ، سیاسی ، معاشی اور ثقافتی نوعیت کی ہیں۔
اپنے وسائل کوکریں مل جل کر استعمال :
کسی نہ کسی سبب کی بنا پر ہر کمیونٹی کا تشریح کا اپنا انداز ہے۔ اس کا تعلق اس کے پس منظر سے ہے جبکہ سب کا ایمان ایک ہے۔ چنانچہ اس تنوع اور رنگارنگی کو ایک خوبی سمجھنے کی بجائے ہم چند سیاسی ، معاشی ، نسلی اور مقامی و علاقائی وجوہات کی بنا پر اس تنوع کو خرابی سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔معاشرہ اس رویہ کے نتائج سے بھی آگاہ ہے ۔ تکثیریت کا نظریہ پھل پھول رہا ہے جس کے نتیجے میں فرقوں یا مذاہب کے درمیان تنازعات کو روکا جاسکتاہے لیکن اس کیلئے جہالت کے دروازوں کو بند کرنا ہوگا ۔فرقوں اور مذاہب کے درمیان ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں لاکھوں انسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اگر اسی طرح ایک ہی مذہب یا مختلف مذاہب کی تشریح و تفہیم کے مسئلہ پر جھگڑے ہوتے رہے تو یہ بات افسوسناک ہوگی ۔ مختلف فرقہ کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کررہنا چاہئے‘ اختلاف سے بالا تر ہوکراپنے مسائل حل کریں ، اپنے وسائل کو مل جل کر استعمال کریں اور اپنے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کریں۔
تعاون سے ہوتا ہے امید کا چراغ روشن:
آج دیکھا یہ جارہا ہے کہ مختلف فرقوں کے درمیان اورجغرافیائی سرحدوں کے پار مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے عقائد کو رکاوٹ بنائے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تو امید کا چراغ روشن ہو جاتا ہے۔مختصر یہ کہ فرقے مسلم معاشروں کی 14 سو سالہ تاریخ کا ناگزیر حصہ رہے ہیں۔فرد کو مثبت رویہ اپنانا ہوگا جس کے نتیجے میں یکجہتی پیدا ہوسکتی ہے جبکہ اسلامی عقائد کی مختلف تشریحات کے ذریعہ انسانی اقدار کی راہ دکھاتی ہیں۔تاہم جس چیز کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے فرقہ پرستی کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم میں علیحدگی ، خودنمائی اور دوسروں کے خلاف جن کے عقائد مختلف ہیں جس سے تشدد کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔

 

 

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے