جگنو کو دن میں پرکھنے کی ضد کریں

ریجنل کانگریس پارٹی کی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد انہوں نے پارٹی میں جو نئی روح پھونکی وہ اس ضمنی الیکشن میں بے حد کام آرہی ہے وہ بی پی ایل اور اے پی ایل زمرے کے راشن کارڈ ہولڈرس کو فرنویس حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اناج اور گیس تیل سے محروم عام آدمیوں کو اس حکومت کے رویہ کا احساس دلانے میں انہوں نے جس طرح پریہ دت اور ملند دیوراکے ہمراہ خود کو اس مہم میں جھونک کر حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔اتنا ہی نہیں پارلیمانی الیکشن سے قبل ممبئی کے سابق پولس کمشنر سمیت شمالی ہند کے بیشتر قائدین کی بی جے پی میں شمولیت کی ریس میں پارٹی کے ایک بڑے گروپ نے دیوار کی بلی کا جو کردار ادا کیا تھا۔ان تمام قائدین کو سنجئے نروپم نے دوبارہ پارٹی کے حق میں سرگرم کر لیا ہے۔کرپا شنکر سنگھ ‘کرشن ہیگڑے آج جس طرح پریہ دت کے کاندھے سے کاندھا ملاکر رانے کی کامیابی کے لیے سرگرم عمل ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنگ لڑنے سے پہلے اپنی صفوں کو مضبوط کرنا ہی جنگ میں کامیابی کی بنیادی حکمت عملی رہتی ہے۔
تحویل اراضی بل پارلیمنٹ میں منظور ہونے کے با وجود بی جے پی صفوں میں اپنی پارٹی کے تئیں جو بد دلی و پز مژدگی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے پریتم منڈے ‘ ورون گاندھی اور پونم مہاجن سمیت بی جے پی کے سترہ اراکین پا رلیمنٹ کی غیر حاضری پر وزیر اعظم مودی نے ان سب کی جم کر کلاس لی۔ ہو سکتا ہے مذکورہ خبرکم لوگوں کی نظر سے گذری ہو ۔ اس خبر کی طرح باندرہ کی رکن پارلیمنٹ پونم مہاجن بھی الیکشن کے نتیجہ کے بعد سے اس حلقہ کے عام ووٹرس ان کے درشن سے محروم ہونے کی وجہ اچھے دنوں کی آس امید میں مبتلا ووٹرس حضرات کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہو اور وہ اپنے ایم پی سے ان جھانسوں کی عمل آوری کے متمنی ہوں۔ باندرہ میں ایک طرف ماتوشری تو دوسری جانب کو ڑا کرکٹ کے ڈھیر پر بسی مسلم دلیت ووٹرس کی بستی کے ووٹوں کی تقسیم کے نتیجہ میں اس علاقے کی پسماندگی میں مبتلا ووٹرس کی آہوں کے اثر نے شاید ان کے رکن اسمبلی کی ناگہانی موت کے سبب نے انہیں اس ضمنی انتخاب کا موقعہ فراہم کیا ہو۔ پارلیمنٹ و اسمبلی الیکشن میں میں قسمت نے ان کے ساتھ جو مذاق کیا تھا اس کے ازالہ کی صورت میں اپنے ووٹوں کے بل پر گن گن کر بدلہ لینے کا وقت خود چل کر آنا ان ووٹرس کی نظر میں یہ قدرت کا عطا کردہ موقع ہو۔ اس الیکشن میں شیو سینا نے اپنے سابق رکن اسمبلی کی بیوہ ترپتی ساونت کو ٹکٹ دے کر عام ووٹرس کی ہم دردیاں حاصل کرنے کی کوشش ضرور کی ۔ ترپتی ساونت کی بیوگی کی وجہ سے ان کے تئیں عام ووٹرس کی ہمدردیاں ضرور ہیں ۔مگر ان کے شوہر نے پا نچ سال تک ان کے علاقہ کی ترقی کو جس بے حسی سے نظر انداز کیا تھا اس غصہ کی شدت کی وجہ سے وہ دوبارہ اس بل میں ہاتھ ڈالنا مناسب نہیں سمجھتے جس بل سے وہ اس سے پہلے ڈسے گئے تھے۔
ریزرویشن سے محروم مراٹھوں اور مسلمانوں کو جس انداز سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہونا پڑا تھا اس ڈکٹیٹرانہ فیصلہ کرنے والوں کو اب شکست کا مزہ چکھانے کی الٹی گنتی باندرہ سے شروع ہوئی ہے۔ نارارئن رانے نے اپنے طویل سیاسی تجربات و شعور کے ذریعہ پوری ریاست میں گھوم کرپھر مراٹھا سماج کی پسماندگی کا جائزہ لیا اس نیتا کو اس کے صلہ میں جس سازش کے تحت شکست سے دو چار کیا گیا تھا ۔ باندرہ کے ووٹرس کو قدرت نے موقعہ دیا ہے کہ اس نیتا کی آواز اسمبلی میں بلند کروانے کے مراٹھا ریزرویشن کے اس کو لمبس کی کشتی کو انہیں پار کروانا ہے۔
نارائن رانے کے مخالفین کا شاید وہ نکتہ ذہن میں آیا نہ ہو کہ شیو سینا بی جے پی دور حکومت میں رانے نے ہی اس بل کو تیار کیا تھا ۔ وہ اس حکومت کے مضبوط قائد تھے۔ کانگریس دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد اس نے بھی کمال ہو شیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بل کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا تھا۔ کا نگریس آج بھی اس بل کی شدت سے کھل کر مخالفت کر رہی ہے اس سلسلہ میں صدر پردیش کانگریس کمیٹی اشوک چوہان نے اورنگ آباد میں اس بل کی مخالفت کا کھلا اعلان کیا ہے ۔ کانگریس گؤ کشی کی سخت مخالف رہنے کے ساتھ ساتھ وہ بیل ‘ بچھڑوں کے ذبیحہ کی مخالف نہیں ۔ اس مسئلہ کی وجہ سے صرف مسلمان ‘ کرسچین ‘ دلت ‘ ادیباسی و دیگر طبقات متاثر نہیں ہورہے ہیں اس کی وجہ سے کا شتکار ‘ فا رما سٹیکل کمپنیاں ‘ شکر کی صنعت و چمڑے کی صنعت پر جو اثرات مرتب ہورہے ہیں اس پر آر ایس ایس کی نظر نہ جانا باعث حیرت ہے۔ بقر عید کے موقعہ پر تحفظ مویشیان ایکٹ Animal Husbandary Act کے نام سے دائیں بازو کی تنظیمیں جس طرح سر گرم رہتی ہیں سابق میں اقلیتی بہبود کے وزیر کی حیثیت سے عارف نسیم خان ہر سال اس مسئلہ پر اپنے عہدہ و اختیارات کے استعمال کے ذریعہ اس مسئلہ کی یکسوئی میں سر گرم رہتے آئے ہیں۔ اس الیکشن میں موصوف اپنے جاں نثار رفقاء کے ہمراہ نارائن رانے کی کامیابی کے لیے جس انداز میں کام کررہے ہیں وہ یقیناًرائیگاں نہیں جا ئیگا۔ 
شیو سینا بی جے پی میں برتری کی جنگ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کے دوران بڑا دلچسپ معرکہ ثابت رہا۔اس اختلافات کے سبب ہی سابق وزیر افزائش مویشیان عبدالستار نے مرہٹواڑہ کے واحد مسلم رکن اسمبلی کی اپنی روایت کو جس طرح برقرار رکھا وہ ان کے اپنے حلقۂ انتخاب میں ان کی کامیاب حکمت عملی کی اسے فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔سلوڑ کے میونسپل الیکشن میں ایم آئی ایم کے کچھ پرجوش حضرات نے انہیں ملحدقرار دینے کا جس قسم کا مظاہرہ کیا تھا۔عبدالستار نے اس مہم کے اصل ذمہ دار کے بزرگ کے استعمال کے ذریعہ مجلس اتحادالمسلمین کی جو ہوا نکالی نیز مجلس کے رکن اسمبلی سید احمد پاشاہ قادری کے پرجوش پروگرام کے بعدبھی سلوڑ بلدیہ کا جو نتیجہ برآمد ہوا وہ عبدالستارکے مخالفین کے ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ روایتی مسلم غلبہ کا ڈر اور خوف بتلاکر ہندو ووٹرس کو متحد کرنا شیو سینا کا پرانا فارمولہ اورنگ آباد و بائیکلہ میں کس طرح اس پر پلٹ گیا اس کی تفصیل میں جانے سے قطع نظر شیو سینا بی جے پی نے ایم آئی ایم کا جس طرح ہوا کھڑا کیا ہے۔اس کا تجزیہ کرنے پر یہ سمجھ میں آئے گا کہ تلنگانہ اسمبلی کی 119اسمبلی سیٹوں میں اس کے اراکین اسمبلی کی تعداد صرف 7ہے۔جبکہ ریاست میں بر سر اقتدار ٹی آر ایس کے اراکین کی تعداد 73‘کانگریس18‘ٹی ڈی پی12‘بی جے پی5‘وائی ایس آر کانگریس 2‘سی پی آئی و سی پی ایم کا ایک ایک رکن ہے۔ 
آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی کے آخری دور میں مجلس کے قائدین سے ان کے اختلاف کے بعد ہی کانگریس مخالفت کا ان کے نئے دور کا آغاز ہوا جب کہ اس کے اکلوتے فرد واحد مرد مجاہد رکن پارلیمنٹ شروع سے ہی یو پی اے حکومت کے کٹر حامی تھے۔کچھ سال قبل عالمی اردو صحافت کی جیدشخصیت زاہد علی خاں کی کانگریس کے رکن راجیہ سبھا کی حیثیت سے نامزدگی کی مجلس نے مخالفت کرتے ہوئے فیصلہ تبدیل نہ کرنے پر کانگریس کو اس کا خمیازہ بھگتنے کی دھونس پر کچھ سال بعد اس پر عمل آوری سے اس کے دباؤ کی سیاست کا اندازہ ہوتا ہے۔ باندرہ میں زائد از چوراسی ہزار مسلم ووٹرس کے تنہا حقدار ہونے کے مضحکہ خیز دعوے کے پس منظر میں ان ووٹوں کے بل پر کامیابی کا دعویٰ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی وہ تفسیر ثابت ہو تب عبداللہ کون ہے یہ مسلم ووٹرس کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ 

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے