جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تب بھی ایسی تشہیر کی گئی تھی کہ ایک دو روز میں روس یوکرین کو نپٹا دے گا لیکن ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے اور صورتحال ویسی ہی بنی ہوئی ہے ۔ جنگ میں شدت کم ہو گئی ہے کیونکہ روس کو بھی احساس ہو […]
جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تب بھی ایسی تشہیر کی گئی تھی کہ ایک دو روز میں روس یوکرین کو نپٹا دے گا لیکن ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے اور صورتحال ویسی ہی بنی ہوئی ہے ۔ جنگ میں شدت کم ہو گئی ہے کیونکہ روس کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ جس ملک کو وہ صرف ایک ملک سمجھ رہا تھا دراصل وہ ممالک کا ایک اتحاد ہے یعنی مغربی ممالک کا اتحاد۔
وہ جنگ تو ایسی ہی چل رہی ہے لیکن جنگ اب ایک اور خطہ میں بھی شروع ہو گئی ہے ۔مشرقی وسطیٰ میں اس وقت جنگ زورو پر ہے۔ حماس نے پہل کرتے ہوئے اسرائیل پر راکٹ حملوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلیوں کو یرغمال بھی بنایا جس کے جواب میں اسی دن یعنی 7 اکتوبر کو ہی اسرائیل نے حماس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور حماس کے زیر اثر غزہ پر پہلے تابڑ توڑ ہوائی حملے کئے اور اس کے بعد زمینی حملے کئے۔
بے گناہ لوگوں اور معصوم بچوں کی جب جانیں جانے لگیں تو اسرائیل پر جنگ بندی کا دباؤ بننا شروع ہوا لیکن اس کے اتحادی ممالک نے جنگ بندی پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی حملوں کو اسرائیل کے دفاع کا حق قرار دیا۔ جیسے یوکرین پر روسی حملوں کے بعد مغربی ممالک کے سربراہوں نے زیلنسکی سے مل کر اس کا ساتھ دینے کا یقین دلایا تھا ٹھیک اسی طرح حماس کے حملوں کے بعد مغربی ممالک کے سربراہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملنے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار شروع کر دیا ۔ ان ممالک نے نہ صرف اسرائیل سے یکجہتی کا اظہار کیا بلکہ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کی بھی مخالفت کی۔
اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی میں ویسے تو کئی مغربی ممالک کے سربراہ اسرائیل پہنچے لیکن امریکی صدر جو بائڈن کے اظہار یکجہتی کے الگ معنی ہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ امریکہ کے صدر ہیں لیکن ایسے وقت میں جب اگلے سال امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں اور جو بائیدن کے ووٹرس زیادہ وہ لوگ ہیں جو اسرائیل کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر ملک کو اس بات کا احساس ہے کہ دنیا کے بڑے کاروباریوں میں اسرائیل کا سکہ چلتا ہے اس لئے اپنی معیشت کو پٹری پر رکھنے کے لئے اسرائیل سے کوئی بگاڑنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس میں وہ مسلم ممالک بھی شامل ہیں جو فلسطینیوں کی حمایت اپنی عوام کے جزبات کی وجہ سے کرتے ہیں۔
بہرحال مشرقی وسطی کی یہ جنگ روس یوکرین جنگ کی طرح طویل تو ہونا مشکل ہے کیونکہ اسرائیل کی نظر میں ایک جانب سیاسی مقاصد ہیں اور دوسری جانب وہ کسی بھی صورت میں اپنے اقتصادی معاملات خراب نہیں ہونے دے گا۔ بظاہر یہ جنگ روس، چین اور ایران اتحاد اور مغربی ممالک کے اتحاد کے درمیان ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کون پہلے جھکتا ہے۔ اس جنگ میں یہ تو یقینی نظر آ رہا ہے کہ امریکہ کی بر سر اقتدا جماعت ڈیمو کریٹس اور ان کے صدر جو بائیدن کے دن خراب ہو گئے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں یہ بات واضح نظر آ رہی ہے کہ اس جنگ کا خمیازہ جو بائیدن اور ان کی پارٹی کو آئندہ انتخابات میں جھیلنا پڑ سکتا ہے۔ کوئی سروے وغیرہ تو نہیں ہے لیکن یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں جاری جنگ کے نقصانات بائڈن کو جھیلنے پڑ سکتے ہیں۔ امریکہ میں جس پیمانے پر فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں اس ے یہ اندازہ تو نظر آ رہا ہے کہ ڈیموکریٹس کے لئے آنے والے دن اچھے نہیں ہیں۔ آگے کیا ہوتا ہے اور سیاسی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن آ ج کی تاریخ میں جو بائیڈن کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی‘۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں