عبدالعزیز
ہندستان میں جمہوریت کو آمریت میں تبدیل کرنے کی کوشش میں دن بدن تیزی آرہی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کا یقینا جمہوریت پر یقین نہیں ہے مگر دستوری جمہوریت کی وجہ سے آر ایس ایس کے آمرانہ ماحول میں پلی بڑھی اس کی سیاسی تنظیم بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) جمہوریت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس وقت بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار کی کرسی پر فائز ہے۔ اس سے پہلے بھی اٹل بہاری واجپئی کی سربراہی میں بی جے پی کو اقتدار ملا تھا لیکن بی جے پی کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں تھی۔ دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے تعاون اور مدد سے اقتدار حاصل ہوا تھا۔ اُس وقت نظرثانی کی آڑ میں دستور بدلنے کیلئے بی جے پی نے اپنے ہمدردوں کے ذریعے کوشش شروع کی تھی لیکن یہ کوشش بار آور ثابت نہیں ہوئی۔ ایک تو نظر ثانی شدہ دستور مرتب نہیں ہوسکا۔ دوسرے یہ کہ لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں اتنی بڑی اکثریت نہیں تھی کہ وہ اپنی من مانی سے کوئی قانون کا مسودہ منظور کراسکے۔ 2014ء میں بھاری اکثریت سے مودی کی حکومت عالم وجود میں آئی۔ 2014ء سے 2019ء تک ملک میں مختلف عنوانات سے ہنگامہ برپا رہا۔ عدم تحمل اور عدم برداشت کی لہر بھی ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتی رہی۔ ماب لِنچنگ کا سلسلہ بھی دادری سے شروع ہوا جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں شدت کے ساتھ زیادہ رونما ہورہا ہے۔
2014ء سے2019ء تک بی جے پی کی ہنگامہ پروری اور شورش کے باوجود ملک بھر میں خاموشی طاری رہی۔ 2019ء میں جب سے مودی-شاہ کو دوبارہ اقتدار ملا کئی قوانین لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظور کئے گئے۔ ’تین طلاق، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور اس کی دو حصوں میں تقسیم‘ پر آوازیں ضرور اٹھیں لیکن جب سے امیت شاہ نے ’این آر سی‘ کو ملک بھر میں لاگو کرنے کا بار بار اعلان کیا اور لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں آناً فاناً سارے ضابطوں اور دستوری اصولوں کو توڑتے ہوئے ’سی اے بی‘ کو پاس کرایا۔ اس کے بعد نہ صرف پرزور آواز اٹھنے لگی بلکہ احتجاجی اور عوامی مظاہروں کا سلسلہ ملک بھر میں جاری ہوگیا۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی ہر ایک کی اجتماعیت اور اتحاد کا مظاہرہ بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں کے مظاہرے پر لاٹھی چارج اور گولی کا استعمال جس دن ہوا اسی دن سے یونیورسٹیوں کے طلبہ مظلوم طلبہ کیلئے یکجہتی مظاہرہ کے ساتھ ساتھ کالے قانون کے خلاف مظاہرے بھی ہونے لگے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سیکڑوں طلبہ مظاہرے میں شدید طور پر زخمی ہوئے اور ایک کی آنکھ بھی چلی گئی۔ بہتوں کو زخمی حالت میں اسپتال میں علاج کیلئے بھرتی کرنا پڑا۔ 25-30 طلبہ کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ جس پولس اسٹیشن میں طلبہ کو حراست میں لیا گیا تھا اس پولس اسٹیشن کا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے طالبعلموں نے طلبہ پر ظلم و جبر اور گرفتاری کے خلاف گھیراؤ کیا اور کئی گھنٹے تک گھیراؤ جاری رہا۔ بالآخر طلبہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور جامعہ ملیہ کے سارے طالبعلموں کو پولس کو رہا کرنا پڑا۔ اس کی سربراہی کئی سماجی کارکن کر رہے تھے، جس میں حقوق انسانی کے علمبردار مسٹر ہرش مندر بھی شامل تھے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین سے آر ایس ایس کی طلبہ یونین ’اے بی وی پی‘ (اکھل بھارتیہ وِدیارتھی پریشد) سے ہمیشہ لڑائی اور کشمکش رہتی ہے۔ 2014ء سے اس لڑائی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ 2019ء میں مزید شدت پیدا ہوگئی۔ گزشتہ روز اس یونیورسٹی کے طلبہ اور ٹیچروں پر نقاب پوش بھگوا غنڈے کے حملے میں 6 ٹیچروں سمیت 28 طالب علم شدید زخمی ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیو میں یونیورسٹی کی طلبہ یونین کی آئشا گھوش کو لہولہان حالت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تشددکو یونیورسٹی میں فیس میں اضافہ کو لے کر رسہ کشی کا نتیجہ بتایا جارہا ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں یونیورسٹی میں طالبعلموں کی طرف سے احتجاج ہوتا رہا۔ گزشتہ روز ’اے بی وی پی‘ کے 200 لڑکوں نے نقاب لگاکر لاٹھی ڈنڈے کے ساتھ اپنے مخالف طلبہ اور ٹیچروں پر اچانک حملہ کر دیا۔ بہت سے ٹیچروں کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کی یکجہتی بھگوا طالب علموں اور ان کے آقاؤں کو پسند نہیں آئی۔ جے این یو کے ایک طالب علم نے ٹیلیگراف کے نامہ نگار کو ساڑھے پانچ بجے شام کو بتایا کہ ”پولس اور اے بی وی پی کے ممبران ہم لوگوں کو رگید رگید کر مار رہے تھے اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ براہ کرم آپ لوگ کچھ کیجئے“۔
جے این یو میں معاشیات کے پروفیسر وکاس راول نے ساڑھے دس بجے رات کوانگریزی روزنامہ ’دی ٹیلی گراف‘ کے نامہ نگار کو بتایا کہ ”غنڈے اور بدمعاش یونیورسٹی کے ہوسٹل میں لوگوں کی پٹائی کر رہے ہیں۔ ہم تمام ٹیچرز گیٹ کے قریب ٹھہرے ہوئے ہیں کہ کچھ ایکشن لیا جائے۔ غنڈے، بدمعاش یونیورسٹی میں ہجوم کی شکل میں داخل ہوئے ہیں اور چیخ چلا رہے ہیں کہ ’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘۔ سڑک کی تمام لائٹس بجھا دی گئیں۔ پولس تماشائی بنی ہوئی ہے“۔ ہجوم نے سیاسی کارکن یوگیندر یادو کو بھی دھمکی دی۔ ایک شخص نے یوگیندر یادو سے پوچھا کہ ”تم ہندو ہو‘ اور دوسرے نے نعرہ لگایا کہ ’بھارت ماتا کی جے ہو‘۔ ایک تھپڑ مارا اور ان کا پیچھا کیا“۔ یوگیندر یادو نے کہاکہ میں ٹیچروں سے ملاقات کیلئے آیا تھا جنھوں نے مجھے بتایا کہ ان کو بھی زدوکوب کیا گیا اور مجھے بھی غنڈوں نے دھکا دے کر زمین پر گرادیا اور پولس کھڑی کی کھڑی رہی۔ بہت اسٹوڈنٹس کیمپس کے باہر کھڑے تھے، وہ عام شہری تھے، کچھ عورتیں تھیں جو سنگھ پریوار کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں ان پر بھی غنڈوں نے ’جے شری رام‘ کہہ کر حملہ کردیا۔ سی پی آئی کے لیڈران ڈی راجہ اور اننی راجہ اے بی وی پی کے کارکنوں کے گھیرے میں تھے۔ غنڈے ان سے کہہ رہے تھے کہ ’تم لوگ اربن نکسل ہو، واپس جاؤ‘۔ پولس 20میٹر کی دوری سے نظارہ کر رہی تھی۔ ڈی راجہ نے بتایا کہ ”میں بچوں کی حفاظت کیلئے یہاں آیا تھا جس میں میری لڑکی اپراجیتا راجہ بھی شامل ہے‘۔
کہا جاتا ہے کہ ہنگامے اور تشدد کی شروعات اس وقت سے ہوئی جب بہت سے لڑکے اپنا نام رجسٹر نہیں کرا رہے تھے تو احتجاج کرنے والے طالب علموں پر اے بی وی پی کے ممبران نے حملہ کر دیا۔ اس طرح کے کئی جارحانہ اور مجرمانہ واقعات آج کے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ کانگریسی لیڈر ششی تھرو نے جے این یو کے واقعات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ”لگتا نہیں ہے کہ یہ 2020ء کا ہندستان ہے بلکہ 1930ء کے ہٹلری کی جرمنی ہے۔ یہ ناقابل یقین ہے۔ 1930ء کی دہائی میں نازیوں کا یہی حربہ تھا مگر آج یہ ہندستان میں ہورہا ہے۔ اس سے جمہوریت کی دنیا میں ہمارا امیج کیا رہ گیا ہے؟“ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کہاکہ ’یہ بہیمانہ اور سفاکانہ حملہ حیرت میں ڈال دینے والا ہے۔ ہمارے ملک کو فسطائی طاقتیں کنٹرول کر رہی ہیں اور ہمارے بہادر اسٹوڈنٹس کی آواز سے حکومت ڈر گئی ہے۔ جے این یو کا آج کا واقعہ اسی کی عکاسی کرتا ہے‘۔ سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے کہاکہ ’یہ منصوبہ بند حملہ تھا۔ ہندوتو کے ایجنڈوں کے خلاف جس طرح جے این یو کے طلبہ نے مقابلہ کیا ہے اس سے فسطائی طاقتیں ڈر گئی ہیں‘۔ کانگریس کے سینئر لیڈر منیش تیواری نے بھی اس حملے کا نازی حملے سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ خالص اور بغیر ملاوٹ کے فسطائیت ہے جو سرکاری مدد سے انتہا پسندی پر آمادہ ہے‘۔
مرکزی حکومت اور دہلی پولس کی ملی بھگت سے طلبہ کی بھگوا تنظیم ’اے بی وی پی‘ پورے طور پر دہشت گردی پر آمادہ ہوگئی ہے۔ یہ آمادگی ظاہر کرتی ہے کہ ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ دلائل نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ عوام یا خواص کو قائل کرنے سے قاصر ہیں۔ جب کوئی پارٹی یا حکومت کے پاس دلیل نہیں ہوتی تو وہ تشدد اور بربریت کا سہارا لیتی ہے۔ ملک کی موجودہ حکومت اور ان کے چھوٹے بڑے کارندے سب کے اس وقت تشدد کے راستے پر گامزن ہیں۔ اتر پردیش کے یوگی جس طرح کی ظلم و بربریت کو اپنی ریاست میں روا رکھے ہوئے ہیں وہ بھی نازی جرمنی کی یاد دلاتی ہے۔ پورے اترپردیش کو جیل خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم اور ستم کے پہاڑ روز توڑے جارہے ہیں۔ نوجوان اپنے گھروں سے باہر ہیں۔ گھروں میں گھس کر سنگھ پریوار کے دہشت گرد اور زعفرانی پولس لوگوں کے ساتھ جبر و ظلم سے کام لے رہے ہیں۔ بے قصور لوگوں کی گرفتاری ہورہی ہے۔ جو دنیا میں نہیں ہے ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا جارہا ہے۔ ایسے لوگ جو صاحب فراش ہیں، چل پھر نہیں سکتے انھیں بھی پولس گرفتار کرنے کیلئے پولس ان کے گھر جاتی ہے۔ ایسی مثال جو یوگی کے پردیش میں روا ہے دنیا بھر میں نظر نہیں آتی۔ دہلی میں کم و بیش یہی ہورہا ہے۔ پہلے جامعہ ملیہ کے طالب علموں پر ہر قسم کا تشدد پولس اور بھگوا غنڈوں کی طرف سے کیا گیا۔ کل جو کچھ ہوا اس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ملک کے باشندوں کو خاص طور پر انصاف پسندوں کو اب ملک کی فکر کرنی ضروری ہے۔ علامہ اقبال نے 80/90 سال پہلے آج کے ہندستان کو اپنے تصور کی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور کہا تھا ؎’وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے …… تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘ نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو …… تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘۔
آج ہندستان کی جو تباہی وبربادی دیکھنے کو مل رہی ہے اس کے بیچ میں یا اس ما حول میں کسی طرح بھی جمہوریت باقی نہیں رہ سکتی۔ اپوزیشن پارٹیوں کا جو رد عمل آیا ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جو ہوا ہے یا ہورہا ہے اس کا ایک ہی مقصد اور مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کے کالے مقصد اور کالے قانون کے خلاف ملک بھر میں جو مظاہرے ہورہے ہیں اس کو تشدد اور بربریت کے ذریعے روک دیا جائے۔ جو لوگ بھی مظاہرے کر رہے ہیں وہ پرامن طریقے سے کر رہے ہیں لیکن بی جے پی کے زیر نگرانی ریاستوں میں جو مظاہرے ہورہے ہیں اور جو مظاہرے غیر بی جے پی اسٹیٹ میں ہورہے ہیں اس میں فرق یہ ہے کہ پولس اور سنگھ پریوار کے تعاون سے اسے نہ صرف پرتشدد بنانے کی کوشش ہورہی ہے بلکہ مظاہرین کی حوصلہ شکنی کیلئے ان پر جبر و ظلم ہورہا ہے۔ ان کی گرفتاری ہورہی ہے۔ ان کے گھر بار کو بھی تباہ کیا جارہا ہے۔ پولس کی گولی سے نوجوانوں اور طالب علموں کو موت کے گھاٹ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب ایسے پرتشدد ماحول میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے مظاہرہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
آج بھی بڑے پیمانے پر دہلی میں مظاگگہرے ہورہے ہیں۔ پولس اور بھگوا طلبہ تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ ضرورت ہے کہ حوصلے اور ہمت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں اور ٹیچروں پر جو حملہ ہوا ہے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوتے رہیں گے۔ کلکتے میں کئی یونیورسٹیوں کے طلبہ صبح ہی سے مظاہرے کر رہے ہیں۔ اب حکومت جو تشدد برپا کرنا چاہتی ہے وہ بے نقاب ہوگئی ہے اور وہ اپنے کالے کرتوت کو چھپانے اور کالے قانون کو باقی رکھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، لیکن جو لوگ بھی اس کی حمایت کر رہے تھے اب اس کے ساتھ نہیں ہے۔ بی جے پی تنہا پڑگئی ہے لیکن ابھی بھی نشے میں چور ہے۔ اقتدار کا نشہ آسانی سے اترتا نہیں ہے۔ اب لڑائی تیز ہورہی ہے اور ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکومت کو کون سمجھائے کہ اس سے پوری دنیا میں ملک کا امیج برباد ہورہا ہے۔ معیشت اور ماحول دونوں کا برا حال ہے۔ باہری دنیا کے لوگ اس طرح کے ہندستان کو جھانکنے کی بھی کوشش نہیں کریں گے۔ اس سے کوئی اپنے سرمائے کو بھی ہندستان میں لگانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ آج جو بے کاری اور مہنگائی ہے وہ آسمان کو چھو رہی ہے۔ پھر بھی حکمراں کے کان کھڑے نہیں ہورہے ہیں۔ کان اور آنکھ سب بند ہیں۔ صمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَایَرْجِعُوْنَ کا منظر ہے۔(یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے)، یعنی حق بات سننے کیلئے بہرے، حق گوئی کیلئے گونگے اور حق بینی کیلئے اندھے ہوگئے ہیں۔ ان گونگوں، بہروں اور اندھوں کی ساری اچھی صلاحیتیں لگتا ہے سلب ہوگئی ہیں جو ملک کیلئے ایک المیہ ہے۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
06جنوری2020(فکروخبر)
جواب دیں