وہ گرج اور وہ چمک اور وہ دہاڑنا جو کانگریس کی حکومت میں تھا وہ جلوہ اب دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مودی کی قربت حاصل کرنے کا اس سے بہتر طریقہ جمعےۃ علماء ہند (الف) کے لئے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا گؤ کشی صرف گجرات میں ہورہی ہے، ویسٹ یوپی کے ہندی اردو اخبارات کا نظارہ کیجئے، شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب اس کے حوالے سے کوئی نمایاں خبر نہ ہو جس کے تحت ہندو تنظیمیں احتجاج کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور دوسری جانب پولیس گؤ کشی کرنے والوں کے خلاف دوڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ جمعےۃ علماء ہند الف نے اس مہم کے لئے گجرات کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ کیا جمعےۃ علماء ہند ان میٹ فیکٹریوں کے خلاف بھی تحریک چلائے گی جو اس کاروبار کے تحت اربوں روپیہ سالانہ کماتے ہیں اور جن کے مالکان ننانوے فیصد ہندو حضرات ہیں۔ بہرحال خاموش رہنے سے یہ بہتر ہے کہ موجودہ حکومت کی قربت حاصل کی جائے۔
28 اگست کے اردو ہندی اخبارات میں نمایاں طور پر ایک خبر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کے حوالے سے شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے دارالعلوم کی مسجد رشید میں منعقد اصلاحی اجلاس میں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کے طلبہ اسلامی شعار کے مطابق زندگی گزاریں، حضرت مہتمم صاحب کی شخصیت قابل احترام ہے اور دارالعلوم کو نصیحت کرنے اور اس پر تنقید کرنے کی جرأت بھی نہیں ہوتی مگر سوال یہ ہے کہ اسلامی شعار کے کیا معنی ہیں؟ موجودہ وقت میں اس کے معنی صرف تقریر اور تحریر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ موجودہ وقت میں دارالعلوم دیوبند شیخ الاسلام کے نام سے ایک لائبریری تعمیر کر رہا ہے، جس کی تعمیر تیسری منزل تک پہنچ چکی ہے، اس عمارت کی زد میں اس وقت مسلم آبادی کے تقریباً دو سو مکان ہیں جن کے اندر فی الوقت مزدوروں کے ذریعہ بے پردگی ہورہی ہے، بہو بیٹیاں صحنوں اور چھتوں پر جانے پر مجبور ہوگئی ہیں، اس کے باوجود دارالعلوم کی انتظامیہ گھنی آبادی کے اندر اس عمارت کی تعمیر کئے جارہا ہے۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے محلہ خانقاہ میں واقع مکان کے برابر میں دارالعلوم نے چند مکانات خرید رکھے ہیں، ان مکانات میں گزشتہ دس سالوں سے غلام ذہنیت کے ملازم اپنے آقاؤں کے حکم سے بکریوں کو پال رہے ہیں جن کا تعفن علامہ کے گھر میں بھی پہنچتا ہے، ساتھ ہی ساتھ ان ویران پڑے ہوئے مکانوں میں سانپ، بچھو، چوہے اور چچھوندروں کی بھرمار ہے اور یہ رینگتے ہوئے آبادی والے مکانوں میں داخل ہورہے ہیں، کئی بار اس سلسلہ میں تحریری طور پر مہتمم صاحب کو آگاہ کیا جاچکا ہے، اس کے باوجود اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔ حضرت مہتمم صاحب سے درخواست ہے کہ وہ ان بنیادی چیزوں کی جانب توجہ دیں اور اس کے بعد تقریر و تحریر میں طلبہ کو شعائر اسلام سے روشناس کرائیں، شاید پھر ان ہدایات کا بہتر اثر ہوگا۔
جواب دیں