جنہیں میرکارواں بنناہے وہ گردکارواں بن گئے! افسوس

یہی وجہ ہے کہ دنیاکے غیرجانبدارمورخین،سیاستداں،حکمراں،مفکرین آج تک،اسلامی دورحکومت کی بے پناہ انسانی اقدارکی بناء پرآج تک یادکئے ہوئے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ؂
وہ معززتھے دنیامیں مسلمان ہوکر
تم خارہوئے تارک قرآں ہوکر
آج کی دنیا کسی بھی دورسے اپنے آپ کومہذب اورترقی یافتہ کہلاتی ہے۔جوسائنس اورٹیکنالوجی میں اوّل اوّل ہیں۔وہ اپنے آپ کوسُپرپاورکہتے ہیں۔یہی سُپرپاوراخلاقیات اورانسانی اقدارمیں انتہائی گرے ہوئے اورپسماندہ ہیں۔ان ہی کے ہاتھوں پہلی جنگ عظیم اوردوسری جنگ عظیم ہوئیں۔جس سے دنیامیں انتہائی تباہ کاری اوربربادی ہوئیں۔بے پناہ انسانی ہلاکتیں ہوئیں۔بے شمارافراد زخمی ہوئے۔اس کے بعد سے آج تک ان سُپرپاورممالک نے نت نئے عزائم اورپروگرام مرتب کئے۔ترقی پذیراورغیرترقی پذیرممالک کے قدرتی وسائل کوہتھیایا۔افغانستان،عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔جہاں انسانی جان ومال کی تباہیاں جاری ہیں۔آج ایسے وقتوں میں جہاں طاقتورممالک ،کمزوراورچھوٹے ممالک کااستحصال کررہے ہیں۔پوری دنیامیں اخلاقیات کی دھجیاں اُڑرہی ہیں۔بے کاری،مہنگائی،مذہب،زبان کے نام پرانسانی زندگی دشوارہوچکی ہیں۔انسان،انسان کاغلام بناجارہاہے۔انسانی کے مذہبی وسماجی آزادی پرپہرے لگائے جارہے ہیں۔انسانیت تباہ کن دورسے گزررہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان کی آزادی برقراررہے۔انسانی اقدارکابول بالاہوں۔عدل وانصاف،مساوات کی حکمرانی ہو،یہ کام مذہب اسلام سے بڑھکر کون کرسکتاہے؟مذہب اسلام آیاہی تمام انسانوں کی رشدوہدایت کیلئے،وہ انسانوں کی آزادی کاضامن ہے۔اس سے بڑھ کرکسی کے دامن میں انسانی اقدارہے ہی نہیں۔بھلائی کی تلقین کرنابُرائی سے روکناہرمسلمان کافرض منصبی ہے۔وہ خیراُمت ہے۔پوری دنیامیں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ۶۰؍کروڑ سے زیادہ ہے۔یہ اُمت مسلمہ کابڑابیش قیمت اثاثہ وسرمایہ ہے۔اس آبادی کااہم پہلویہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کا۶۰؍فیصدطبقہ نوجوانوں پرمشتمل ہے۔مسلم نوجوانوں کاوجودصرف اُمت مسلمہ ہی کیلئے نہیں،انسانی اخلاق سے گرتی پوری دنیاکی آبادی کے انسانوں کیلئے خیرکاباعث بن سکتاہے۔؂
ذرانم ہوتویہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی
پوری دنیامیں ۷۰؍کروڑ مسلم نوجوانوں کی حیثیت غیرتراشے ہیروں کی مانندہے۔جسے معیاری طریقہ سے تراشنے کی ضرورت ہے۔۷۰؍کروڑ مسلم نوجوانوں کے پاس وہ بیش بہاسرمایہ ہے جس کی بدولت وہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیاکے انسانوں کے دُکھ کامداوابن سکتاہے۔جس کی ایک دنیاکوجستجووتلاش ہے۔۷۰؍کروڑ مسلم نوجوانوں کے ہاتھ میں توحیدکاپرچم ہے۔قرآن کاجھنڈاہے۔رسالت کی شان ہے۔قرآن وسُنت نبیﷺ پرایمان اس کے دلوں میں کوٹ کوٹ کربھراہے۔یہ نوجوان انشاء اللہ ایک ایسے انقلاب کی بنیادرکھ سکتے ہیں جوپوری انسانیت اورآخرت کوسُدھارسکتاہے۔نوجوانوں کی عمران کی سوچ وفکروعمل اوروں کے مقابلہ زیادہ تیزاورمضبوط ہوتے ہیں۔دنیامیں بڑھتی تخریب کوتعمیراورمنفی سوچ کومثبت سوچ میں تبدیل کرنے کیلئے،جوتوانائی نوجوانوں میں ہے وہ کسی اورمیں نہیں۔ان کی اہمیت وافادیت سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔؂
عقابی روح جب بیدارہوتی ہے جوانوں میں
نظرآتی ہے ان کومنزل آسمانوں میں
مسلمانوں کے تمام عقائد،عبادات کانظام اوراخلاقی تصورمحفوظ ہیں۔اس لئے مسلمانوں کے عمل کانقص دورکرنادشوارنہیں،مسلم نوجوانوں میں جوبُرائیاں،خرابیاں پائی جاتی ہیں جن پرانگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔جس پربڑے پیمانے پراسلام کے تعلق سے غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں۔مسلم نوجوانوں میں بُرائیوں،خرابیوں کودورکرناناممکن نہیں۔مسلم نوجوانوں کی بے عملی،بدعملی ماحول کے جبّرکانتیجہ ہیں۔مسلم نوجوانوں کوبے عمل قراردیاجاسکتاہے۔ضروروہ ناقص العمل ہیں مگرناقص العقیدہ نہیں۔جن کے عقائدناقص وخراب ہوتے ہیں انہیں بدلنامشکل ہوتاہے۔انہیں راہ راست پرلانے میں بڑی مشقت اورایک وقت درکارہوتاہے۔لیکن جن کے عقائددرست ہوتے ہیں انہیں راہ راست پرلانے میں وقت نہیں لگتا۔تاریخ اسلام مسلم نوجوانوں کے معیاری تابناک کردارسے بھری پڑی ہے۔انہوں نے مذہب اسلام کی تبلیغ واشاعت میں انتہائی جان کنی،پرخطرماحول میں جان ومال کی پرواہ نہ کرکے معاشرے میں عدل وانصاف،مساوات اورحق وصداقت کوقائم رکھنے میں اللہ کے احکامات بجالائیں۔
قرآن کریم میں ایک واقعہ کابیان ہے۔’’(پھردیکھوکہ) موسیؑ کواس کی قوم میں سے چندنوجوانوں کے سواکسی نے نہ مانا۔فرعون کے ڈرسے اورخوداپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈرسے(جنہیں خوف تھاکہ) فرعون ان کوعذاب میں مبتلاکردے گا۔اورواقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتاتھااوروہ ان لوگوں میں سے تھاجوکسی حدپررُکتے نہیں ہیں۔‘‘(یونس۸۳)
حقیقت حال یہ ہے کہ ہرزمانہ میں پُرخطرحالات کامقابلہ سن رسیدہ لوگوں کونصیب نہیں۔جوبات قرآن شریف میں نوجوانوں اورموسیؑ کے تعلق سے آئی ہے۔ٹھیک یہی بات مکّہ شریف کی آبادی میں اس وقت پیش آئی۔جب ہمارے پیارے نبیﷺ اسلام کی دعوت دینے کیلئے اُٹھے۔آپؐ کاساتھ دینے کیلئے جوآگے بڑھے،ان میں زیادہ ترچندباہمت نوجوان ہی تھے۔ساری قوم کی شدیدمخالفت کے باوجودصداقت
اسلامی کی حمایت کررہے تھے۔جبرواستبداد،بے پناہ ظلم وستم،وحشیانہ شیطانی ماحول میں آغوش محمدؐ میں سمٹ آئے تھے۔پرچم اسلام کومضبوطی سے تھاماتھا۔علی ابن طالبؓ،جعفرطیارؓ،زبیرؓ،سعدؓ بن ابی وقاص،منصب بن عمیرؓ،عبداللہ بن مسعودؓ،جیسے لوگ قبول اسلام کے وقت ۲۰؍سال سے کم عمرکے تھے۔
آج جب پوری دنیامیں معیاری کردارکاشدیدزوال ہے،شدیدمادہ پرستی،اونچ نیچ،انسانیت کی تذلیل اورحقوق انسانی کی پامالی کاایک شدیدبحران ہے۔افسوس ناک پہلوہے کہ مسلم دنیابھی زیادہ ہی اس طرف رواں دواں ہیں۔ان کوخیراُمت کہاگیاہے۔ایسے میں مسلم نوجوانوں،مسلمانوں ہی کیلئے نہیں پوری دنیاکے لوگوں کیلئے میدان عمل میں اُترناہے۔داعی حق بنیں جس کیلئے ضروری ہے کہ گھرسے چراغ جلایاجائے۔؂
خودی کوکربلنداتناکہ ہرتدبیرسے پہلے 
خُدابندے سے خودپوچھے بتاتیری رضاکیاہے
جب ہم اپنے خودکے اعمال کوقرآن وسنتوں میں ڈھال دیں گے،توانشاء اللہ چراغ سے چراغ دورتک روشن ہوتے جائیں گے۔
شاعراسلام علامہ اقبال کے یہ اشعارہمارے لئے لائحہ عمل ہیں۔؂
محبت مُجھے ان جوانوں سے ہے 
ستاروں میں جوڈالے ہیں کمند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت تری پنہاں ہے ترے خون وجگرمیں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظرمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتارہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا
۔۔۔۔۔۔
زندہ رہناہے تومیرکارواں بن کے رہو
زمین کی پستیوں میں آسماں بن کے رہو

«
»

مذہب کے سیاسی استعمال پر روک کیوں ضروری؟

عبدالمتین خاںؒ : چند نقوش و تأثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے