تجیندر بگّا، جگنیش میوانی اور اعظم خان…
اعظم شہاب
تجیندر بگا، جگنیش میوانی اور اعظم خان یہ تینوں سیاستدان ہیں اور ان کے پیچھے پولیس پڑی ہوئی ہے۔ ایک صرف بی جے پی کا لیڈر ہے، وہ نہ رکن اسمبلی اور نہ ہی رکن پارلیمان۔ دوسرا پہلی بار رکن اسمبلی بنا اور کانگریس میں شامل ہوگیا۔ تیسرا 9 بار رکن اسمبلی بنے اور ایک بار رکن پارلیمان بھی۔ ان تینوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فی الحال ملک میں کیسی اندھیر نگری اور چوپٹ راج چل رہا ہے۔ تجیندر بگا کسی کو گالی دیتا ہے تو کسی پر ہاتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اس سے قبل وہ پرشانت بھوشن کو چانٹا مار چکا ہے اور اروند کیجریوال کے خلاف اہانت آمیز بیانات دیتا رہتا ہے۔ دہلی پولیس چونکہ کیجریوال کے بجائے امت شاہ کے طابع ہے اس لیے وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی تھی، لیکن اب ان کے پاس پنجاب پولیس آگئی ہے اس لیے انہوں نے تجیندر پال سنگھ بگا کو دہلی میں اس کی جنک پوری رہائش گاہ سے اشتعال انگیز بیانات دینے، مذہبی دشمنی کو فروغ دینے وغیرہ کے الزام میں گرفتار کروالیا، حالانکہ خود اروند کیجریوال بھی وزیر اعظم مودی کے خلاف کئی اہانت آمیز بیانات دے چکے ہیں، لیکن وہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں دوسروں کے لیے نہیں کرتے۔
پنجاب پولیس نے بگا کو 5 نوٹسز بھیجے تھے مگر جب اس نے گھاس نہیں ڈالی تو پچاس پولیس والوں کو بھیج کر اسے اٹھالیا۔ ایسا کرنے سے قبل اسے کورٹ سے وارنٹ لینا چاہیے تھا مگر اس کا بھی تکلف نہیں کیا گیا۔ مقامی پولیس کو اطلاع دے کر گرفتاری کے بعد مقامی جج کے سامنے حاضر کرکے حراست میں لینا چاہیے تھا مگر اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ دہلی پولیس نے اس کا فائدہ اٹھایا اور بگا کے والد کی جانب سے اغواء کی شکایت لے کر عدالت پہنچی۔ وہاں سے اسے برآمد کرنے کا حکمنامہ لکھوایا اور ہریانہ کے اندر پولیس والوں سمیت بگاّ کو واپس لاکر عدالت میں حاضر کر دیا۔ اسی کے ساتھ پولیس والے گرفتاری سے مکر گئے۔ اب پنجاب پولیس پر اغواء کا اور تجیندر کے والد کو زدو کوب کرنے کا مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ اس طرح پولیس والے خود اپنے آقاوں کے اشارے پر ایک دوسرے کی ٹوپی اچھال رہے ہیں اور بی جے پی وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر مظاہرے کر رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی والے کیجریوال کی جانب سے آئین کی پامالی پر احتجاج تو کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان کے وزیر اعلیٰ بسوا سرما نے جگنیش میوانی کو گرفتار کرنے سے قبل عدالت سے وارنٹ لینا تو دور نوٹس تک نہیں دیا تھا۔ کیا جگنیش میوانی کی گرفتاری سیاسی اغواء نہیں تھا؟ جگنیش کو عدالت نے ضمانت دی تو اس کو ایک نقلی مقدمہ میں پھر سے حراست میں لے لیا گیا۔ دوسری بار ضمانت دیتے ہوئے آسام کی ایک عدالت نے ریاستی پولیس پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ایک خاتون کانسٹبل پر حملے کے ’’جعلی‘‘ کیس میں انہیں ماخوذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یعنی کہیں جعلی مقدمہ بنانا اور کہیں اغواء کے لیے ماخوذ ہوجانا یہ موجودہ پولیس کی مٹی پلید ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ جج صاحب نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کردہ ہماری جمہوریت کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کرنا ناقابل قیاس ہے لیکن تجیندر بگا معاملے میں وہ قیاس حقیقت بن گیا۔
فی الحال جگنیش کے ساتھ 12 لوگوں کو 2017 میں بغیر اجازت آزادی مارچ کی ریلی نکالنے کے قصور میں مہسانہ کی عدالت نے تین ماہ کی سزا سنائی اور ایک ہزار جرمانہ لگایا ہے۔ لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں رکن پارلیمان اعظم خان کی ضمانت پر 137 دنوں سے عدالت نے اپنا فیصلہ مؤخر کر رکھا ہے جو تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا اور جسٹس راؤ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اب فیصلہ محفوظ نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ 137 دن ہوچکے ہیں اور ابھی تک کوئی آرڈر پاس نہیں ہوا۔ انہیں 86 مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔ صرف ایک کیس باقی ہے۔ یہ انصاف کے ساتھ مذاق ہے۔ ابھی ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔ ضرورت پڑی تو ہم کچھ اور کہیں گے۔‘‘اعظم خاں 26 فروری 2020 سے اتر پردیش کی سیتا پور جیل میں بند ہیں اس کے باوجود وہ الیکشن جیت گئے۔ وزیر اعظم نے برلن میں کشمیر کے حوالے سے کہا کہ ایک ملک میں دو آئین کو ایک کرنے میں سترّ سال لگے لیکن یہاں تو اب بھی کئی قوانین رائج ہیں۔ تجیندر بگا کے لیے کوئی اور جگنیش میوانی کے لیے الگ اور اعظم خان کے لیے تو کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ کیا یہی یکساں سول کوڈ ہے جس کی بات بار بار کی جاتی ہے۔
جواب دیں