یہاں آزادی کے بعد ہزاروں مسلم کش فسادات ہوتے ہیں جن میں بے شمار مسلمانوں کو موت کے گھات اتار دیا جاتا ہے مگر قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ایک فیصد مقدمات میں بھی فسادیوں کو سزانہیں ہوئی۔جس ملک میں جانوروں کے شکار پر انسانوں کو سزائیں ملتی ہیں وہاں مسلمانوں کے قتل پر پولس والوں کو پروموشن ملتا ہے۔ کہیں بھی کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو بغیر کسی تفتیش کے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ، پندرہ پندرہ سال انھیں جیل میں رکھا جاتا ہے اور پھر کورٹ انھیں بری کردیتا ہے۔ جب سنگھی دہشت گرد آتنک پھیلاتے ہیں تب بھی مسلمان ہی گرفت میں آتے ہیں اور انھیں کو مظالم کا شکار بننا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کو مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں ملتا ہے مگر مذہب کی بنیاد پر انھیں اس سے محروم ضرور کردیا جاتا ہے ۔ جہاں سرکاری جاب سے مسلمان محرو م رکھے جاتے ہیں اور ان کی تعداد محض آٹے میں نمک برابر ہو ۔ جہاں صدیوں پرانی مسجدوں اور مقبروں کو منہدم کردیا جاتا ہو مگر پولس اسٹیشنوں میں مندر بنائے جاتے ہوں، اور سرکاری دفاتر میں مورتیاں رکھی جاتی ہوں، ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ملک عملی طور پر ایک ہندو راشٹر نہیں ہے؟ اسے سنگھ پریوار کیا ہندو راشٹر بنائے گا، اسے تو پہلے ہی سے سیکولر کانگریس نے ہندو راشٹربنا رکھا ہے۔ البتہ قانونی طور پر ایسا ہونا باقی ہے۔ اب آرایس ایس اور نریندر مودی کو صرف یہ کرنا ہے کہ اسے قانونی طور پر ہندو راشٹر قرار دیناہے اور ان کے سامنے مسلمان کوئی چیلنج نہیں ہیں ۔ انھیں معلوم ہے کہ مسلمان کی اس ملک میں کوئی اوقات نہیں ہے اور نہ ہی وہ کوئی سیاسی قوت ہیں۔ انھیں اگر خطرہ ہے تو خود اس ملک کے سیکولر ہندووں سے ہے۔
ہندی، ہندو، ہندواستھان
بھارت عہد قدیم سے ہی اپنے خمیر میں سیکولرزم کی سو ندھی مٹی کی مہک رکھتا ہے۔ یہاں سبھی مذاہب اور نظریات کا استقبال کھلے دل اور سبھی ثقافتوں کا خیر مقدم کھلی بانہوں کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے مگرآزادی کے بعد کانگریس کی سرکاروں نے جو پالیسیاں اپنائیں ان سے ہندتو کو فروغ ملا اور اسی کے نتیجے میں بی جے پی اور شیو سینا جیسی پارٹیوں کا ظہور بھی ہوا۔ آزاد بھارت کی تاریخ پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اگر بابری مسجد کا تالاکھولنے کی اجازت کانگریس کی سرکار نے نہ دی ہوتی تو اس ملک کی سیاسی تاریخ کچھ اور ہوتی اور ہندتو کا اژدہا اتنا طاقت ور نہ ہوا ہوتا۔ آج کانگریس کو اسی اژدہے نے نگل لیا ہے جس کی پیدائش اور طاقت کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے۔ سنگھ پریوار کا بنیادی ایجنڈا ہے بھارت کو ایک مکمل ہندوراشٹر بنانا اور اس کام کے لئے اس نے بی جے پی کو آگے کر رکھا ہے۔ بی جے پی نے بھی کبھی اس ایجنڈے کو چھپاکر نہیں رکھا بلکہ کھلم کھلا اظہار کیا۔ ’’ہندی، ہندو، ہندواستھان‘‘ اس کا پرانا نعرہ ہے۔ اس نے ان لیڈروں کو ہمیشہ آگے بڑھایا جو مسلم کش فسادات میں ملزم رہے تھے۔ اب آج اگر گوا کے منتری پانڈورنگ دیپک دھاوالیکر کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی اس ملک کو ہندوراشٹر بنائینگے اور اشوک سنگھل بی جے پی کی جیت کو ہندووں کی جیت قرار دے رہے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ البتہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کانگریس کے نرم ہندتو سے بی جے پی کے سخت ہندتو کی جانب جانا کیا خود اس ملک کے مفاد میں ہے؟ اس ملک کو مکمل ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کیا اس کے اتحاد کے خلاف قدم نہیں ہوگا؟ کیا خود سیکولر ہندو اس بات کو قبول کریں گے کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بناکر صدیوں پیچھے دھکیل دیاجائے؟ بھارت سرکار کی پالیسیاں خواہ ہندو نواز ہوں مگر اس ملک کا مزاج ہمیشہ سے سیکولر رہا ہے، اور اس لئے نہیں ہے کہ یہاں سکھ، عیسائی اور مسلمان بھی رہتے ہیں بلکہ اس لئے ہے کہ یہاں بسنے والے ہندو سیکولر ہیں، اس ملک کے خمیر میں سیکولرزم شامل ہے اور اس ملک کی ضرورت ہے سیکولرزم۔ اس کے سیکولرزم پر حملہ کا مطلب ہے ملک کے اتحاد اور یکجہتی پر حملہ۔ اس ملک پر، یہاں بسنے والے تمام شہریوں کا برابر حق ہے اور سب کو اپنے طریقے سے جینے کی آزادی ہے۔ کسی سے اس کے مذہب، زبان، تہذیب کی آزادی چھیننے کا مطلب ہے ملک کی یکجہتی پر حملہ کرنا۔
بھارت بنے گا ہندو راشٹر؟
آر ایس ایس ملک کی قدیم ترین جماعتوں میں سے ایک ہے ۔ اس کی ممبر شپ صرف ہندو حاصل کرسکتے ہیں۔ سکھ اور بدھسٹ بھی چونکہ اس کی نظر میں ہندووں کے ہی فرقے ہیں لہٰذا وہ رکن بن سکتے ہیں۔ روز اول سے ہی اس کا مقصد ہندتو کا فروغ اور ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانا ہے۔ اس کے بہت سے دست و بازو ہیں او ر سیاسی بازو کے طور پر بی جے پی کا قیام ہوا ہے لہٰذا وہ ہمیشہ ہندتو کی بات کرتی رہی ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے وقت حالات اس موضوع کے لئے مناسب نہیں تھے لہٰذا انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے خود کو سیکولر بتانے کی کوشش کی اور اپنے انٹرویوز میں انھوں نے اس کی وکالت کی۔ البتہ اقتدار ملنے کے بعد سنگھیوں کی زبان ہی نہیں اِن دنوں ان کے دل بھی دیوانہ ہوکر بلیوں اچھل رہے ہیں۔ انھیں مودی کی جیت کو ہضم کرنا مشکل ہورہا ہے اور ایسا محسوس کر رہے ہیں گویا دنیا میں پہلی بار انھیں کو حکومت ملی ہے اور یہ بھی ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی ہے۔ اب ان کی سرکار قیامت تک باقی رہے گی۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑے بڑے نمرودوں، فرعونوں اور راونوں کا ایک دن ناش ہوتا ہے۔ اس ملک پر بلاشرکتِ غیرے راج کرنے والی کانگریس کا جب برا حشر ہوسکتا ہے تو بی جے پی کا کیا حال ہوسکتا ہے، اسے ابھی سے سبق لینا چاہئے۔ گوا کے ایک منتری پانڈو رنگ دیپک دھاوالیکر کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اس ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کریں گے اور یہ ملک ان کی لیڈر شپ میں دنیا کا اکلوتا ہندو ملک بن جائے گا۔ ان کے بھائی بھی گوا کے پی ڈبلیو ڈی منتری ہیں اور پچھلے دنوں عورتوں پر قدغن لگانے کے بیان کے سبب سرخیوں میں تھے۔ ظاہر ہے ک دونوں بھائی اس برہمنی سوچ کی پیداوار ہیں جو اس ملک میں پانچ ہزار سال سے دلتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کو غصب کرنے کے لئے ذمہ دار ہے۔ حالانکہ دھاوالیکر یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ اس ملک کے ہندو بھی نہیں چاہتے ہیں کہ یہ ملک اپنا سیکولر کردار کھوئے۔ انھوں نے اگر بی جے پی کو ووٹ دیا ہے تو اس لئے نہیں کہ وہ اس ملک کے آئین کو تبدیل کرے بلکہ مہنگائی اور کرپشن کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ کانگریس کی سرکار سے ناراضگی تھی ،جو عوامی مسائل کے سامنے بے بس ہوگئی تھی لہٰذا انھوں نے بی جے پی کو ووٹ دے کر ایک موقع دیا ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرے ۔ اب اگر سرکار نے عوام کا کام کرنے کے بجائے انھیں فضول کے مسائل میں الجھانے کی کوشش کی تو جو حال انھوں نے کانگریس کا کیا ہے وہی حال بی جے پی کا بھی کریں گے۔ جس ملک میں تصوف اور بھکتی کی روایت رہی ہو ،اسے مذہبی شدت پسندی کی طرف دھکیلنا دیش بھکتی نہیں بلکہ دیش درو ہ کہا جائے گا۔ سنگھ پریوار غرور چھوڑے کیونکہ
وہ شخص جو کہ تم سے پہلے تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے کا اِتنا ہی یقیں تھا۔
جواب دیں