جھوٹ کی مَنڈی

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

دنیا میں مختلف قسم کے بازار ہوتے ہیں، الگ الگ چیزوں کی الگ الگ منڈیاں ہوتی ہیں، جھوٹ کی بھی ایک منڈی ہے اور یہ منڈی زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کے یہاں لگتی ہے اورزبان سے اس کی سودا گری کی جاتی ہے ، جو جتنا بڑا لیڈر ہے وہ اتناہی بڑا جملہ باز اور جھوٹا ہوا کرتا ہے، پھر یہ جھوٹ اس قدر کثرت سے بولا جاتا ہے کہ سامنے والا اسے سچ سمجھنے لگتا ہے، اور عوام اس جھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے، اس کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، تاریخیں مسخ ہوتی ہیں اور لوگوں کی توجہ اہم معاملات ومسائل سے ہٹ کر اس فرضی اور جھوٹے معاملات ومسائل پر مرکوز ہوجاتی ہے اور سیاسی بازی گر اپنا اُلو سیدھا کر لیتے ہیں، عوام کو بے وقوف بنا کر جھوٹ کی اس منڈی کا اصل ہدف رائے دہندگان کو اپنی طرف کرنا ہوتا ہے، تاکہ ووٹ زیادہ ملیں اورکامیابی یقینی ہو جائے۔

 ہمارے یہاں کم وبیش ہرپارٹی کے قائدین جھوٹ کی اس منڈی کا پورا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن بھاجپا کے قائدین نریندر مودی اور امیت شاہ اس میدان میں بہت آگے ہیں اورکوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، جب بڑے صاحب اس میں ممتاز ہیں تو چھوٹے نیتا بھی اس کام اورکاز میں ان کے ساتھ ان کے ہم نوا ہوجاتے ہیں، اس طرح جھوٹ پھیلانے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔

 ابھی حال ہی میں راجستھان کے ہانسواڑہ میں نریندر مودی نے کانگریس کے خلاف بولتے ہوئے مسلمانوں کو ’’گھس پیٹھیا‘‘ کہہ ڈالا، اور کانگریس کے نظریات کے بارے میں سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے حوالہ سے کہا کہ ان کے سابقہ بیان سے لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی چاہتی ہے کہ ہندوستان کے سرمایہ پر پہلا حق مسلمانوں کا ہو، من موہن سنگھ نے جو بات کبھی کہی تھی وہ صرف اس قدر تھی کہ ’’ملک کے اثاثوں اور وسائل پر سماج کے کمزور طبقات یعنی درج فہرست ذاتوں ، درج فہرست قبائل اور اقلیتوں کا پہلا حق ہے ‘‘، نریندر مودی یہیں پر نہیں رُکے انہوں نے کہا کہ کانگریس ہندوخواتین کے گلے سے منگل سوتر (شادی کی مقدس نشانی) چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے، ظاہر ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور کانگریس کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے ، لیکن مودی جی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ تو کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ کے نظریات بتاتے ہیں اور اسی کی وجہ سے امیت شاہ یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ منشور مسلم پرسنل لا کے مطابق ہے، یہ ملک دستور سے چلے گا، شریعت سے نہیں ، اب ان سے کون پوچھے کہ بابری مسجد کا توڑ نا کس دستور کی روشنی میں ہوا، بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کا ذکر کس دستور میں ہے، بغیر عدالت کے فیصلے کے گھروں پر بلڈوزر چلوا نے کی اجازت کس دستور نے دی ہے ، قیدیوں کو قاتلوں کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارنا دستور کی کس دفعہ میں ہے ، جیل میں زہر دے کو موت کی نیند سلا دینے کا جواز کس دستور سے اخذ کیا گیا ہے ، ماب لنچنگ کے ذریعہ بے گناہ عوام ، علماء اور ائمہ کا خون کس دستور کی رو سے کیا جا رہا ہے، ان دنوںجو کچھ بھاجپا کر رہی ہے وہ سب ہندتوا کے فروغ کے لیے ہے ، جمہوریت کا گلا گھوٹنا ، آمریت، من مانی ، معاملات ومسائل کو اپنی مرضی کے مطابق حل کرنے کی اجازت تو با با صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کا بنا یاہوا قانون نہیں دیتا تو کیا یہ سب آر ایس ایس کے دستور اور ناگپور کے اشارے پر کیا جا رہا ہے ، لگتا تو کچھ ایساہی ہے ، ایک کانگریسی لیڈر نے نریندر مودی جی سے بجا طور پر یہ سوال کیا کہ پلوامہ میں چالیس خواتین کا جو منگل سوتر چھن گیا، وہ کس نے چھینا ، اس وقت تو کانگریس نہیں تھی، پرینکا گاندھی نے بھی مودی جی سے کہا کہ ہماری ماں کا منگل سوتراس ملک پر قربان ہو گیا۔

 بھاجپا کے لیڈران مودی اور امیت شاہ اس انتخاب میں مذہب کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں، لطیفہ یہ ہے کہ حزب مخالف کے کسی کی زبان پھسلی تو الیکشن کمیشن فورا اس کا نوٹس لیتا ہے اور داروگیر شروع کر دیتا ہے ، لیکن حکمراں جماعت کے اشتعال انگیز تقریر پر اس کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے ، یہ کیسا رویہ ہے اس رویہ کے پیچھے دباؤ اور جبرکی جوکہانی ہے وہ اب چھُپی ہوئی نہیں چھَپی ہوئی ہے ، دو دور کے انتخاب میں عوام میں اس قسم کے بیانات کا نوٹس نہیںلیا، اس لیے بقیہ مراحل میں بھی بھاجپا ایسے ہی جھوٹے بیان دے دے کر اکثریتی طبقہ کو یک جُٹ کرنے کی خطرناک مہم چلائے گی ، عوام کو اس قسم کے شر انگیز اور نفرت آمیز بیان کو دل ودماغ میں جگہ دینے کے بجائے ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا چاہیے، ورنہ اس کا خمیازہ اس ملک کو برسوں بھگتنا پڑے گا اور پوری صدی گذر جائے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

 مودی جی کی اس تقریر پر عالمی اخبارات ورسائل بھی تھُو تھُو کر رہے ہیں، امریکہ کے نیو یارک ٹائمز، دی گارجین، سی این این، واشنگٹن پوسٹ، اسٹیٹ جرنل، دی ٹائمز ، الجزیرہ وغیرہ نے الگ الگ عنوان لگا کر اس بیان کا پوسٹ مارٹم کیا ہے، نیو یارک ٹائمز نے بجا لکھا ہے کہ ’’جب مودی اپنی تیسری مدت کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں تو انہوں نے خود ایسی زبان استعمال کی، جس سے یہ خدشات پیدا ہو گیے ہیں اس سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے دائیں بازو کی چوکس جماعتوں کو بھڑکا یا جا سکتا ہے‘‘۔ میں نے خود بھی اس اداریہ میں مودی جی کے نام کے ساتھ کہیںوزیر اعظم نہیں لکھا ہے ،کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ ملک کے اس با وقار عہدے پر رہنے والا کوئی بھی شخص بقید ہوش وحواس ایسے گھٹیا بیانات نہیں دے سکتا، ہاں پارٹی کے ایک لیڈر کی حیثیت سے جملہ بازی اور جھوٹی گفتگو دوسرے لوگ بھی کر رہے ہیں، انہوں نے بھی کی ہے ، یا پھر وہ کانگریس کے منشور کو سمجھنے سے قاصر رہے ، کانگریس کے صدر ملکا ارجن کھڑگے نے منشور اور مینی فیسٹو کو سمجھانے کے لیے کئی بار مودی جی سے وقت مانگا ، لیکن وہ اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے، مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، مگر اس کی پرواز تیز ہوتی ہے، مودی جی ایک جھوٹ کو ان دنوں پرواز دینے میں لگے ہوئے ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی ، ایک مثالی شخصیت

انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے