ہوشیار! جھوٹ بولنا،ظلم کرنا،حرام کھانا، اورحق مارنا اللہ کو گوارا نہیں ہے

ابونصر فاروق

    دور حاظر میں غیر مسلموں کے ساتھ رہنے کے سبب مسلمانوں کا عقیدہ و یہ ہو گیا ہے کہ رسمی عبادتوں سے وہ جنت کے حقدار بن جائیں گے۔اُن کا مسلمان کے گھر میں پیدا ہوجانا اور اپنے کو مسلمان کہنا ہی جنتی ہونے کے لئے کافی ہے۔اللہ کے حق اوربندوں کے حق کی صحیح تعلیم نہیں پانے کے سبب رسمی طور پر نماز، روزہ اورحج کر کے مطمئن ہیں۔نیچے ایسے گناہوں کا بیان کیا جا رہا ہے جس میں عام طور پر اہل اسلام ملوث نظر آتے ہیں۔  بے شعوری اور بے حسی کا وہ عالم ہے کہ مت پوچھئے۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان بدکاریوں کو یہ لوگ گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔
(1)    جھوٹ بولنا:
    اے نبی!  جب یہ منافقین تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ بیشک اللہ کے رسول ہیں ہاں اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہ کہ یہ منافقین جھوٹے ہیں۔(المنافقون:۱)
    مدینہ میں عبد اللہ ابن ابئی اور اُس کے ساتھی نبیﷺ کے دشمن تھے اور اُن پر ایمان نہیں لائے تھے، لیکن اس خیال سے کہ ایمان نہیں لائیں گے اور منکربن کر رہیں گے تو اس اسلامی سماج میں ہماری کوئی عزت اور حیثیت ہی نہیں رہے گی،اس لئے اُنہوں نے اسلام کا جھوٹا اقرار کر لیا تھا لیکن ہمیشہ اسلام اور نبیﷺ کو ناکام بنانے کی سازشیں کرتے رہتے تھے۔ نبی ﷺ اپنی انتہائی رحم دلی کے سبب اُن کے ساتھ کوئی سختی نہیں کرتے تھے، لیکن اللہ کو تو سچے اور جھوٹے کو الگ کر نا تھا تاکہ اہل ایمان دھوکہ بازوں سے ہوشیار رہیں۔ چنانچہ ان چھپے اسلام دشمنوں کو منافق کہتے ہوئے اس نام سے ایک سورہ ہی نازل کر دی اور ان آستین کے سانپوں کا پول کھول دیا۔اس کے بعد یہ قانون بن گیا کہ جو آدمی خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے وہ مومن یا مسلم نہیں منافق ہے۔
    اب اس دور کے مسلمانوں پر نظر ڈالئے۔کتنے ایسے مسلمان دکھائی دیں گے جن کے متعلق کہا جائے اور شہادت دی جائے کہ یہ نیک اور صالح اللہ کے مسلم بندے جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔دس ہزار مسلمانوں کے مجمع میں مشکل سے ایسا کوئی آدمی ملے گا جس کے متعلق لوگ شہادت دینے والے ملیں گے کہ یہ ایک سچا انسان ہے، کبھی کسی حال میں جھوٹ بولتا ہی نہیں۔دنیا کا کوئی کام جھوٹ بولنے سے نہیں سچ بولنے سے چلتا ہے۔جھوٹ بولنے سے سارا کام بگڑ جاتا ہے۔جتنے جھوٹ بولنے والے ہیں وہ انسانیت کو نقصان پہنچارہے ہیں یا فائدہ ؟
(2)    ظلم کرنا اورظالم ہونا:
    کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا اُنہیں ہدایت بخشے جنہوں نے نعمت ایمان پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالانکہ وہ خوداس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (آل عمران:84)
    اللہ تعالیٰ نے لوگوں کومسلمان کے گھر میں پیدا کر کے ایمان کے ساتھ زندگی گزارنا اور دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جانا بالکل آسان بنادیا، لیکن بدنصیبوں نے یہ جانا ہی نہیں کہ ایمان کے تقاضے اورمطالبے کیا ہیں۔مسلم ہوتے ہوئے اور مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کافروں جیسی زندگی گزارنے والے دراصل اللہ کے نزدیک کافر ہیں۔حالانکہ جب اُنہوں نے کلمہ پڑھاتھا تو اس کا اقرار کیا تھا کہ اللہ کے سوا نہ کسی کی بندگی کریں گے اور نہ کسی سے مدد اور سہارامانگیں گے۔ لیکن زندگی کا طور طریقہ بتا رہا ہے کہ ان کو اللہ پر ایمان اور اعتماد ہے ہی نہیں، اور اللہ کے سوا سب پر ایمان و اعتماد ہے۔اللہ کا سہارا نہیں چاہئے، اسباب کا سہارا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ دولت اور اسباب جمع کرنے کے جنون نے دیوانہ بنا رکھا ہے اور زندگی کا جواصل مقصد ہے اُس سے غافل کر رکھا ہے۔ایسا کرنے والے ظالم ہیں۔عام طور پر ظلم کا مطلب ہوتا ہے کسی کو اُس کا حق نہیں دینا۔مجبور محتاج کی مدد نہیں کرنا۔اورجو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔(الما ئد ۃ:45)
    اوپر جو بات کہی گئی سورہ مائدہ کی آیت میں اس کو اورصاف طور بیان کر دیا گیا کہ اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کی پابند ی نہیں کرنے والے اور زندگی کا ہر عمل اُس شریعت کے خلاف کرنے والے ظالم ہیں۔ چونکہ یہ ظالم ہیں اس لئے اللہ انہیں ہدایت دے گا ہی نہیں۔ جب یہ ہدایت سے محروم رہیں گے تو ان کی مغفرت اور نجات کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ہے۔یہ کافر کی موت مریں گے اورجہنم کی آگ میں جلیں گے۔
(3)    حرام خوری کرنا:
    اے لوگو جو ایمان لائے ہو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ،لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضامندی سے،اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے.() جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اُس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔(النساء:29/30)
    دنیا میں زندگی کی سرگرمی معاشی دوڑ دھوپ کی محتاج ہے۔انسان کی جو بنیادی ضرورتیں ہیں اُن کو حاصل کرنے کے لئے دور حاضر میں ہر ملک کی کرنسی اہل ملک کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ہمارے ملک میں اسے روپیہ کہتے ہیں۔روپیہ حاصل کرنے کا ذریعہ تجارت ہے یا ملازمت یا صنعت و حرفت یا پیشے میں مشغول ہونا۔سخت اور شدید محنت و مشقت کے بعد حلال روزی میسر ہوتی ہے۔اللہ کی مشیت کے تحت ایک دور ایسا ہوتا ہے جب رزق کی تنگی کا سامنا رہتا ہے۔پھر ایسا بھی دور آتا ہے جب اللہ کا فضل شامل حال ہو جاتا ہے اور دن دونی رات چوگنی ترقی ہونے لگتی ہے۔نادان آدمی سمجھتا ہے کہ جو مفلس اور تنگ دست ہے وہ نالائق ہونے کے سبب ایسا ہے اور جو لاکھوں اور کروڑوں میں کھیل رہا ہے وہ ہوشیار، عقل مند اور سوجھ بوجھ والا ہے۔
    شیطان انسان کو گمرا ہ کرتا ہے کہ سچائی اور ایمانداری سے کام بننے والا نہیں ہے۔آسانی کے ساتھ روپے کمانا ہے تو شیطانی طریقے اختیار کرنے والوں کا ساتھ دو اور راتوں رات دولت مند بن جاؤ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ دھوکے اور فریب سے دوسرے کا مال ہتھیا لو۔اوپر کی آیت میں سمجھایاجارہا ہے کہ لین دین سچائی، ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ہونا چاہئے۔غلط اور ناجائز طریقے سے بے ایمانی کر کے کمایا ہوا روپیہ حرام ہو جاتا ہے۔ حرام کھانے والے کی کوئی عبادت یا دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ اور حرام خور اللہ کی رحمت اور فضل سے محروم ہو جاتا ہے۔لیکن اس وقت بہت کم ایسے مسلمان ملیں گے جو مکمل ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ لین دین کر رہے ہیں۔ہر جگہ بے ایمانیوں کا بول بالا ہے اور مسلمان بھی اس بہتی گنگا میں بڑی فیاضی کے ساتھ گنگا اشنان کر رہے ہیں۔ایسا کرنے والوں کو نہ اللہ کا ڈر ہے نہ قبر کے عذاب کی فکر اور نہ ہی آخرت کا خوف۔اس بد کاری کی وجہ سے سماج کی معاشی ترقی نہیں ہو رہی ہے بلکہ معاشی بد حالی پھیل رہی ہے لیکن شیطانی دماغ والوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ایسا کر کے وہ خود کشی کر رہے ہیں۔
(4)    حق مارنا:
        تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔اگر(میت کی وارث)دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیاجائے۔اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہوتوآدھا ترکہ اس کا ہے۔اگر میت صاحب اولاد ہو تو اُس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہئے۔اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہواور والدین ہی اُس کے وارث ہوں توماں کا تیسرا حصہ دیا جائے۔اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حقدار ہوگی۔ (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں گے)جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون نفع کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے۔یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں۔ اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہواُس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا، اگر وہ بے اولاد ہوں۔ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھا ئی حصہ تمہارا ہے جب کہ وصیت جو اُنہوں نے کی ہو پوری کر دی جائے او ر قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے۔بشرطیکہ وہ نقصان پہنچانے والانہ ہو۔ یہ حکم اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ جاننے والا دیکھنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گااُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور اُن باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گااور اُس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے نکل جائے گااُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گااور اُس کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔(النساء:آیات10تا14)
    صاحب جائیداد کے انتقال کے بعد اُس کی جائیداد کے جو وارث ہوتے ہیں اُن کے درمیان ایمانداری کے ساتھ وراثت تقسیم ہونی چاہئے۔اور ہر حقدار کو اُس کا جائز حصہ ملنا چاہئے۔کس کا کس حال میں کتنا حصہ ہوتا ہے وہ اس آیت میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے۔اس کی مزید تفصیلات کسی وراثت کا علم رکھنے والے ماہر سے پوچھ لینا چاہئے۔لیکن اس وقت مسلم خاندانوں میں شرعی حکم کے مطابق وراثت تقسیم نہیں ہو رہی ہے۔ وراثت کی تقسیم میں بے ایمانیاں عام بات ہو گئی ہیں اور اس کی وجہ سے رشتہ داروں میں رنجش،نا اتفاقی اور عداوت عام بات ہے۔شاید ہی کوئی ایسا گھر ملے گا جہاں صاحب جائیداد کی وفات کے بعد حصہ داروں نے عدل و انصاف کے تحت جائیداد کی تقسیم کر لی ہو۔
    یعنی صاحب جائیداد نے اپنی اولاد کی بھلائی کے خیال سے جائز ناجائز دولت اور جائیداد بنا ئی اور چھوڑ کر جہنم سدھار گیا اور اس حرام دولت کے سبب اولاد یا وارثین بھی جنت کی جگہ جہنم میں جانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
     نوکری ختم ہوجانے اورکام نہیں ملنے اور موسم کی خرابی کی وجہ سے کتنے لوگ مفلسی اور فاقہ کشی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کی مدد کرے، لیکن حکومت اس سے بالکل بے پروا اور غافل ہے۔مسئلے کو حل کرنے کی جگہ مسئلے کو اور بڑھا رہی ہے۔ جتنے بھی صحافی،  دانش وراور مخالف جماعتوں کے لوگ ہیں وہ یہ باتیں کھلے عام کہہ رہے ہیں۔اس آفت کا شکار سب سے زیادہ مسلمان طبقہ ہے۔کیا ایسے مسلمان جن کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت ہے، اُن کو یہ فکر ہے کہ اپنے محلے اور علاقے میں جن گھروں کے چولھے بجھے ہوئے ہیں اُن کو جلانے اور اُن کوفاقہ کشی سے بچانے کی کوشش کریں۔نہیں وہ ایسا نہیں کریں گے اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں ہی نہیں۔مسلمان ہوتے تو اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتے اور اللہ کو خوش کر کے جنت کے حقدار بن جاتے۔
    کہنے کو تو ہمارے ملک میں پچیس کروڑ مسلمان ہیں۔لیکن اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے بعد بھی جب یہ مسلمان ہونے کا فرض ادا نہیں کر رہے ہیں تو فرقہ پرستوں کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں اور وہ ان کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں اور اپنی قوم کو ان کی دشمنی پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔ایسا اس وجہ سے ہے کہ مسلمان کہے جانے والے یہ لوگ مسلمان ہیں ہی نہیں۔ جب یہ مسلمان نہیں ہیں تو اللہ کی رحمت، حفاظت اور ہر طر ح کی مدد سے محروم ہو گئے ہیں۔اور جب ساری دنیا ا ن کی دشمن بن گئی تو زمین پر ان کو پناہ کہاں ملے گی ؟  کیا ان باتوں کو پڑھ کر بھی مسلمانوں کو ہوش نہیں آئے گا کہ زمین کے دشمن تو دوست نہیں بنائے جا سکتے، پھر کیوں نہ آسمان والے سے دوستی کر لی جائے !!!  اور جب اللہ دوست بن جائے گا تو اُس کا وعدہ ہے کہ”اللہ کے دوستوں کے لئے(دنیا اور آخرت) میں نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ اُنہیں کسی نقصان کا غم ہوگا۔
        کاش میری اس تحریر کو پڑھ کر غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو ہوش آئے اور دولت مند مسلمان اپنے محلے اور علاقے میں گھوم گھوم کر پتا چلائیں کہ کن گھروں میں فاقہ کشی ہو رہی ہے،کن گھروں میں مریضوں کا علاج نہیں ہو پا رہا ہے،کن گھروں میں چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، دددھ پینے والے بچوں کو دودھ نہیں مل پا رہا ہے۔اگر یہ دولت مند لوگ اس وقت اس کام کے لئے نکل پڑیں تو اللہ ان سے خوش ہو جائے گا اور ان کی جان و مال کی حفاظت کا انتظام کردے گا، ان کو ہر طرح کی آفت اور مصیبت سے بچائے گا۔یہ دنیا میں بھی خوش حال رہیں گے، قبر کے عذاب سے بھی بچیں گے اور آخرت میں بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہ کر جنت کے حقدار بن جائیں گے۔
اللہ مری بات میں کچھ ایسا اثر دے
غافل جو پڑے ہیں اُنہیں بیدار یہ کر دے
نیکی کا عمل ایسا کریں جس سے تو خوش ہو
اور دونوں جہاں میں انہیں نیکی کا ثمر دے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

انساں کے قول و فعل میں بڑھتا ہوا تضاد!

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی :تازہ سروے کے پریشان کن نتائج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے