یکم اپریل کو جھوٹ کے بجائے سچائی کی تعلیم دی جائے
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
اس وقت پوری دنیا کے لوگ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے دعاؤں کے ساتھ دواؤں یا کم از کم احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں، اور اپنے گھروں میں رہنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔ عموماً لوگ اپنے گھروں میں رہ کر سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ دنیا کے احوال وکوائف سے آگاہ ہورہے ہیں۔ مگر کچھ لوگ سوشل میڈیا کو غلط افواہیں پھیلانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ کسی بھی پیغام کو فارورڈ کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے، چاہے ہم اس پیغام کو پڑھنے کی تکلیف گوارہ کریں یا نہیں، اور اسی طرح اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت بھی سمجھیں یا نہیں کہ پیغام صحیح معلومات پر مشتمل ہے یا جھوٹ کے پلندوں پر۔ البتہ اس کو فارورڈ کرنے میں انتہائی عجلت سے کام لیا جاتا ہے۔ جبکہ پیغام ہمارے پاس فارورڈ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اصل میں پڑھنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ پہلی اپریل کو جھوٹ بول کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے، دینا کے کسی بھی مذہب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میں اس موقع پر تمام حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطہ تحقیق کے بغیر کوئی پیغام دوسروں کو ہرگز فارورڈ نہ کریں اور جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔
مغربی تہذیب کی بے ہودہ رسومات میں سے ایک رسم اور روایت اپریل فول (April Fool) منانا ہے۔ اس کی ابتدا اگرچہ یورپ سے ہوئی لیکن اب پوری دنیا میں یکم اپریل کو جھوٹ بول کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور لوگوں خاص کر بوڑھوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، غرضیکہ جھوٹ بول کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کا یہ تہوار ہے۔ امن وسلامتی کا علم بردار مذہب اسلام ہمیشہ ایسی برائیوں سے معاشرہ کو روکنے کی تعلیم دیتا ہے جو معاشرہ کے لیے ناسور ہوں۔ قرآن وحدیث میں بار بار سچ بولنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں معاشرہ کی مہلک بیماری جھوٹ سے بچنے کی نہ صرف تعلیم دی گئی بلکہ جھوٹ بولنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے، ان کے لئے جہنم تیار کی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت ۰۷۔ ۱۷ میں ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ جھوٹ بولنے والوں کے متعلق آپﷺ کی سخت وعیدیں ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچے رہو اس لئے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم)
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے تین زیادہ بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! ضرور بتائیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نا فرمانی کرنا اور کسی انسان کو قتل کرنا۔ راوی کہتے ہیں کہ جس وقت آپ ﷺنے یہ بات ارشاد فرمائی اس وقت آپﷺ ٹیک لگائے تشریف فرما تھے، یہ کہہ کر آپﷺ(سیدھے ہوکر) بیٹھ گئے اور فرمایا: خبردار جھوٹ بات اور جھوٹی شہادت (بھی بڑا گناہ ہے)۔ آپﷺ نے اس جملے کو اس قدر تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم (دل میں) کہنے لگے کاش آپ سکوت اختیار فرما لیں۔ (بخاری ومسلم)
بعض حضرات یہ کہہ کر یکم اپریل کو جھوٹ بولتے ہیں اور دوسروں کو بے وقوف بناتے ہیں کہ وہ صرف دوسروں کو ہنسانے کی خاطر کررہے ہیں، تو وہ حضرات اس تعلق سے اپنے نبی کا فرمان سن لیں، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تباہی ہے ایسے شخص کے لیے جو دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے، اس کے لیے بربادی ہے، اس کے لیے بربادی ہے۔ (ابوداود، ترمذی، مسند احمد) اپریل فول میں نہ صرف جھوٹ بولا جاتا ہے بلکہ دوسروں کو دھوکہ بھی دیا جاتا ہے۔ اور تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ مسلمان نہیں ہے۔ (مسلم) یعنی وہ شخص مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے جو دھوکہ دیتا ہو۔
اپریل فول میں دوسروں کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے، حالانکہ پوری کائنات کو پیدا کرنے والے نے تمسخر اور دوسروں کا مذاق اڑانے سے منع کیا ہے: اے ایمان والو! نہ مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے، ہوسکتا ہے کہ جن پر ہنستے ہیں وہ ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، ہوسکتا ہے کہ جن پر وہ ہنستی ہیں وہ ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔ (سورۃ الحجرات ۱۱) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے بھائی سے جھگڑا ا مت کرواور نہ اس سے مذاق کرو اور نہ کوئی ایسا وعدہ کرو جسے تم پورا نہ کرسکو۔ (ترمذی) یہاں ایسا مذاق مراد ہے جو دوسرے شخص کو برا لگے۔
جہاں شریعت اسلامیہ میں جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے، وہیں سچ بولنے کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے اور بار بار سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ نبی اکرمﷺ نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا۔ آپ ﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے، حتی کہ آپ ﷺکو نبی نہ ماننے والوں نے بھی آپﷺ کی سچائی اور امانت داری سے متاثر ہوکر نبوت سے پہلے ہی آپ کو صادق اور امین جیسے القاب سے نوازا تھا۔ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل بھی تسلیم کرتا تھا کہ محمد (ﷺ) کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ تمام انبیاء کرام نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی۔ حضرت ابراہم علیہ السلام کے متعلق فرمان الٰہی ہے: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو، بے شک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔ (سورۃ مریم ۱۴)،حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم (سورۃ یوسف ۱۵) میں ہے: (اصل قصہ یہ ہے کہ) میں (حضرت زلیخا) نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور وہ (حضرت یوسف علیہ السلام) بے شک سچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی پوری انسانیت کو متعدد مرتبہ سچ بولنے کی تعلیم دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔ (سورۃ التوبۃ ۹۱۱) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: (خدا فرمائے گا کہ) آج وہ دن ہے کہ سچ بولنے والوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی۔ (سورۃ المائدہ ۹۱۱) اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتے جو فضول خرچی کرنے والے ہیں اور جھوٹے ہیں۔ (سورۃ المؤمن ۸۲)
چونکہ جھوٹ بولنے اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کے نتائج سخت مہلک اور خطرناک ہیں، اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے، اس لئے ہمیں ہمیشہ جھوٹ بولنے سے بچنا چاہئے۔ اگر کسی شخص نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پہلی فرصت میں معافی مانگے کیونکہ کبیرہ گناہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے مستقل توبہ ضروری ہے۔ اگر جھوٹ بول کر کسی شخص کو دھوکہ دیا گیا ہے تو اس کا گناہ حقوق العباد ہونے کی وجہ سے اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
جواب دیں