بقول ’بلہے شاہ پنجابیؒ ‘جھوٹ شیریں ہے، اس لیے سب کو پسند ہے اور سچ تلخ ہے اس لیے کسی کو پسند نہیں۔ وہیں’ گوتم بدھ‘ کا فرمان ہے ’ تم نفرت پر نفرت سے فتح نہیں حاصل کر سکتے، ناراض کو محبت سے، برائی کو نیکی سے،شریر کو علم سے اور جھوٹے کو صداقت سے رام کرو‘۔’سب سے بہتر تو یہی ہے کہ جھوٹ کا کوئی جواب ہی نہ دیا جائے، جھوٹ اپنی موت مر جاتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہوتی، مخالفت کرنے پر وہ پھلتا پھولتا ہے‘،اس طرح کا فرمان مہاتما گاندھی جی کا ہے۔
قسم کھا کر جھوٹ بولنے کا چلن عدالت میں رائج ہے۔جہاں دونوں پارٹیاں مقدس’گیتا‘ پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتی ہیں ’میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا‘۔اور سچائی یہ ہوتی ہے کہ ان میں ایک پارٹی کی قسم جھوٹی ہوتی ہے کیونکہ اس کامقدمہ ہی جھوٹا ہوتا ہے۔اور انہیں جھوٹی قسموں اور جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر پھانسی کی سزائیں تک ہو جاتی ہیں اور انصاف قبر میں گاڑ دیا جاتا ہے۔یہ اُس مندر کا حال ہے جہاں انصاف کے دیوی کے آنکھوں پر پٹّی اس لیے بندھی ہوتی ہے تاکہ اپنے پرائے کی پہچان نہ کر کے، جذبات سے پرے،صحیح فیصلہ کیا کرے۔ اس کے باوجود عدالتوں کی حالت ابھی بہت خراب نہیں ہو�ئ ہے۔عدلیہ ابھی بہت متاثر نہیں ہوا ہے، ابھی بھروسہ کیا جا تا ہے۔
لیکن آج کی سیاست نہایت گندی ہو چکی ہے وہاں جھوٹ کے علاوہ کوئی سکّہ چلتا ہی نہیں اور سکہ بھی کیسا ؟نمبر دو کا۔ اٹل بہاری باجپائی جو بھارت کے تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں، بہت ہی سمجھ دار اور سلجھے ہوئے انسان سمجھے جاتے ہیں۔اپنی طالب علمی کے زمانے میں پکڑے جانے پرذاتی مچلکے پر چھوڑ ے گئے تھے۔اگر معافی نہ مانگتے تو آج جو لوگ سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ آر.ایس.ایس. والوں کا جنگ آزادی میں حصہ ’صفر‘ کے برابرہے، یہ کہنے کے لائق ہی نہ رہتے اور اندھوں میں کانے راجہ والی مثال آپ کے سامنے ہوتی اور اسی مثا ل کی بنیاد پرانہیں’بھارت رتن‘ بنائے جانے پرموجودہ حکومت کو زیادہ بغلیں نہ جھانکنا پڑتیں۔ مرحوم راجیو گاندھی جب بھارت میں وزیر اعظم تھے اس وقت ان کی کمپیوٹر ٹکنالوجی کی پالسی کے خلاف احتجاج میں سڑک پر بیل گاڑی لے کر پنڈت اٹل بہاری باجپائی اترے تھے اور یہ نعرہ دیا تھا کہ ’’نوکریاں چھیننے کی مشینیں لائی جا رہیں ہیں‘‘۔تجویز کی بڑی مخلافت ہوئی تھی حلانکہ کمپیو چلانے والے لوگ مزید بھرتی کیے گئے تھے۔
باجپائی جی جب بھارت میں وزیر اعظم کے حیثیت سے اپنے پالی کھیل رہے تھے، اس وقت موجودہ وزیر اعظم گجرات میں دنگوں کے حق میں اپنا’دھرم ‘ نبھا رہے تھے کیونکہ بہت کہنے سننے پرباجپائی جی نے گجرات کے لیے یہ سندیش بھیجا تھا ’مودی کوراج دھرم نبھانا چاہئے‘۔ مودی جی نے باجپائی جی کے مشورے کے مطابق کتنا ’راج دھرم ‘ نبھایا اس کا اندازہ تو نہیں کیا جا سکا لیکن جو چیز دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ’اگنی کو شاکچھی مان کر ، جشودا بین کے ساتھ سات پھیرے لیکر زندگی بھر ساتھ نبھا نے کا مُول دھرم نہیں نبھا سکے تو راج دھرم نبھانے کی کیا مجبوری ہو سکتی تھی۔
مودی جی کی وکالت کرتے ہوئے ظفر سریش والا نے ’پریتی سون پورا‘ کو دیے گئے انٹر ویومیں ایک سوال کے جواب میں کہا’’میں نے جو مودی کے خلاف لڑائی لڑی وہ آج تک کسی نے نہیں لڑی ہے۔ میں تو معاملہ’ کورٹ آف جسٹس‘ میں لیے جا رہا تھا۔ان کا ویزا جو رجکٹ ہوا تھامیری ہی پٹیشن پر رجکٹ ہوا تھا۔ لندن میں میری مودی سے ملاقات ہوئی، ڈھائی گھنٹہ اُن سے کھل کر باتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات میں مجھے یہ لگایہ آدمی ہر چیز سننے کے لیے تیار ہے، ہماری جو ضروریات ہیں ان پرعمل کرنے کو تیار ہے۔لوگ کہتے ہیں ان کو افسوس نہیں ہے۔ ان کو بہت افسوس ہے۔ انھوں نے کہا میں دو باتیں کر رہا ہوں ایک تو انصاف ملے گا اور دوسرا میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی دنگا نہیں ہوگا‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ۲۰۰۲ ء کے بعد گجرات میں دنگے نہیں ہوئے۔لیکن مودی جی کا یہ عہد کہ ’’آئندہ کبھی دنگا نہیں ہوگا‘‘ اپنے میں کئی راز چھپائے ہوئے ہے جس کا افشا کرنا ہم جیسے کم عقل کے بس کی بات نہیں۔ ظفر سریش والا ہی اس پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں۔
ظفر سریش والا نے اپنا سینا ۵۶؍ انچ کا کرتے ہوئے ٹھونک کر کہا میری جانکاری میں ایسا کوئی معاملہ نہیں آیا جس میں کسی کا بینک اکاؤنٹ مسلمان ہونے کی وجہ سے نہ کھولا جا سکا ہو یا ’اٹل پنشن‘ لینے کوئی گیا ہو اور مسلمان ہونے کی وجہ سے اُسے یہ پنشن نہ ملی ہو۔میں ہزاروں مسلمان کو جانتا ہوں جن کے اکاؤنٹ میں پیسے آ رہے ہیں۔سینکڑوں مسلمانوں نے بینک اکاؤنٹ بھی کھولے ہیں۔انھوں نے آگے کہا کہ ’ہر دس سال میں تین بڑے دنگے ہوتے تھے۔۱۹۶۹ ،۱۹۸۵، ۱۹۸۷،۱۹۹۲اور ۲۰۰۲ کے دنگوں میں میں شکار ہوا اوراحمدآباد کا دو۔دوسو دن کا کرفیو ہم نے دیکھا ہے اور تیسری بات انہوں نے یہ کہی کی میں وزیر اعلی تمہارا ہوں بھلے تم مجھے ووٹ مت دولیکن کم سے کم اپنے کام تو مجھ سے کرواؤ اور تینوں وعدوں میں مودی جی سچّے رہے۔
’پریتی جی‘ کا سوال’پانچ سال کے بعد آپ مسلمانوں کی جگہ آپ کہاں دیکھ رہے ہیں؟‘کے جواب میں ظفر سریش والا نے کہا’مسلمانوں کی نہیں ، دیش کی حالت آگے ہوگی تو مسلمان بھی اس دیش کا ناگرک ہے ان کی بھی حالت بہتر ہوگی۔ بقول سریش والا ’مودی جی مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی کوشش میں لگے ہیں اُدھراشوک سنگھل جی‘نے ایک آکاش وانی فرمائی ہے کہ ’۲۰۲۰ء ‘ تک بھارت ہندو راشٹر بن جائے گا اور اگلے دس سال یعنی ۲۰۳۰ میں پوری دنیا ہندو راشٹر ہو جائے گی۔
مودی جی نے لال قلعہ کی فصیل سے جو اعلانات کیے تھے ان میں ایک اعلان یہ بھی تھا کہ ’’ہمیں سنودھان کی سیمامیں رہ کردیش کو آگے بڑھانا ہے‘‘۔
مودی جی کے منڈل میں جتنے بھی بھگوا وستر دھاری بھکت گنڑ ہیں سب اپنی اپنی ڈفلی کے ساتھ اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔کوئی چار بچے پیدا کرنے کا راگ الاپ رہا ہے تو کوئی بچوں کی پیدائش میں وکاس کرتا ہوا دس کی تعداد تک پہنچ رہا ہے،ان کا ایک بھکت(مختار عباس نقوی)ملک کے مسلمانوں کو ’بیف‘ کھانے کے لیے پاکستان بھیج رہا ہے وہیں انہیں کے ایک وزیر اعلی نے کہا’’ابھی تک تو میں بیف نہیں کھاتا تھا، لیکن اب کھاؤں گا‘‘۔
سادھوی پراچی جی فرماتی ہیں کہ ’اخلاق نے جو کیا اس کی سزا اس کو ملی اور جو بھی بیف رکھے گا اس کا یہی حشر ہوگا‘۔حالانکہ جانچ سے بات واضح ہو گئی تھی کہ گوشت بکرے کا ہے۔
ہے گیروا وستردھارن کرنے والی مہان آتمائیں، تم کو بھی مرنا ہے اور تمہارے دھرم میں بھی ’سورگ اور نرک‘ ہے، اور تمہارے کرموں کے حساب سے ہی تم کو ’سورگ اور نرک‘ الاٹ ہوگا۔مرنے کے بعد بھلے ہی لوگ کہتے ہیں ’فلاں کا سورگ واس ہو گیا‘،توکسی کے سورگ واس کہنے سے، کسی کا سورگ میں واس نہیں ہوگا، سورگ میں اچھے کرم ہی لے جائیں گے جونہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور نہ سنائی دے رہے ہیں اور نہ دیکھنے سننے کے امکانات ہیں۔
جواب دیں