عبدالعزیز
جھارکھنڈ کے اسمبلی الیکشن کا نتیجہ ایسے وقت میں آیا ہے جب بی جے پی کی نیّا پورے ملک میں ڈگمگانے لگی ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کے اندر بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ صاف طور پر نظر آنے لگی ہے۔ دونوں نے مل کر ملک کو اس قدر دھوکہ اور فریب دیا ہے اور اس قدر جھوٹ پر جھوٹ سے کام لینے کی کوشش کی ہے کہ اب ان کی حالت یہ ہے کہ کیا بولیں کیا نہ بولیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ این آر سی کا پروگرام ان کا بہت پرانا ہے۔ یہ ان کے منصوبے اور منشور کا حصہ ہے۔ امیت شاہ نے ایک جگہ نہیں کئی جگہ این آر سی کے بارے میں کھل کر بیان دیا ہے کہ این آر سی پورے ملک میں لاگو ہوگا اور گھس پیٹھیوں (دراندازوں)کو چن چن کرملک بدر کردیا جائے گا یا حراست کیمپ میں ڈال دیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں سی اے بی جس دن زیر بحث تھا اس روز بھی این آر سی کو لاگو کرنے کی بات پارلیمانی ممبران اور ٹی وی کیمرے کے سامنے امیت شاہ نے زور دار طریقے سے کی۔ مغربی بنگال میں متعدد بار این آر سی کے نفاذ کے سلسلے میں بیانات دیئے۔ لیکن اب جبکہ ملک بھر میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مظاہرے اور احتجاج بڑے پیمانے پر ہورہے ہیں تو بی جے پی کی پالیسی این آر سی کے بارے میں مختلف ہوگئی ہے۔ لیکن اب بھی ان کے درمیان اس معاملے میں ہم آہنگی نہیں پائی جارہی ہے۔
نریندر مودی نے دو روز پہلے دہلی کے رام لیلا میدان میں جلسہ عام کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ”این آر سی کے بارے میں اب تک کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی سرکولر جاری کیا گیا ہے۔ کانگریس اور اپوزیشن والے ملک کے لوگوں کو این آر سی کے بارے میں گمراہ کر رہے ہیں“۔ گمراہ دوسروں کو گمراہ کہہ رہے ہیں، خود گمراہی پھیلائے اور جو اس کو راستہ بتائے اس کے بارے میں اگر وہ یہ کہے کہ وہ گمراہ کر رہا ہے تو اس سے بڑا گمراہ کون ہوسکتا ہے؟ فتنہ وفساد برپا کرنے والے ہمیشہ اپنے آپ کو مصلح بتاتے ہیں اور روز ازل سے آج تک فسادی اور فتنہ گر کو کہا جاتا ہے کہ ”جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو انھوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں“ (سورۃالبقرہ)۔اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ ”خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انھیں شعور نہیں ہے“۔ فساد فی الارض کا مفہوم نظام حق کو بگاڑنا یا اس کو بگاڑنے کی کوشش کرنا ہے۔ جب کوئی بادشاہ یا حکمراں بدمزاج ہوتا ہے اور آمریت پسند ہوتا ہے تو وہ سارے نظام تمدن کو خراب کرکے رکھ دیتا ہے اس وجہ سے اس کی ہر کوشش پروردگار کے نزدیک فساد فی الارض کے حکم میں داخل ہے۔
آر ایس ایس یا بی جے پی کے پاس ملک کے نظام کو تہس نہس کرکے چور دروازے سے ہندو راشٹر قائم کرنے کی ایک بڑی سازش اور سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ 2014ء سے پہلے طاقت اور اختیار کی کمی کی وجہ سے آر ایس ایس یا بی جے پی اپنے ایجنڈے کے بارے میں اکثر و بیشتر اظہار اور اعلان کرتی رہی۔ لیکن 2014ء کے بعد اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنے میں پوری طاقت جھونک دی ہے۔ نریندر مودی کی پہلی سرکار کی پنجسالہ مدت میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے لوگ بیحد پریشان ہوئے۔ گھنٹوں لوگ اپنی رقم بینکوں میں جمع کرنے اور نکالنے کیلئے لائنوں میں کھڑے رہتے تھے۔ زیادہ تر نہیں بلکہ 99% غریب اور اوسط درجے کے لوگ قطاروں میں کھڑے نظر آتے تھے۔ لگ بھگ 150 افراد ہلاک ہوئے۔ مہنگائی بھی بڑھی۔ عدم تحمل کا سلسلہ بھی دراز ہوا۔ ماب لنچنگ کی شروعات ہوئی۔ ’لو جہاد، گھر واپسی، یوگا، بھارت ماتا کی جئے، جئے شری رام‘ جیسے نعروں اور پروگراموں کا سلسلہ بھی دراز ہوا۔ لوگ پانچ سال کی مدت کے خاتمے کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن نریندر اور امیت شاہ نے قوم پرستی کی آڑ میں لوگوں کو کچھ ایسا گمراہ کیا کہ لوگوں کی عقل ہی گم ہوگئی تھی۔ پلوامہ کے سانحہ اور بالاکوٹ کی سرجیکل اسٹرائیک کو ایسا ایشو بنایا کہ سارے حقیقی اور بنیادی ایشو دب کے رہ گئے۔ 282کی جگہ بی جے پی کو 303 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد ہی سے آمریت کا ننگا ناچ ملک بھر میں شروع ہوا۔ دوسری بار اقتدار کے سات مہینے کے اندر ’تین طلاق‘ کا بل، دفعہ 370کے خاتمے کا بل، کشمیر کو دو حصوں میں بانٹنے کا قانون کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے پرانے ایجنڈے رام مندر کے حق میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی 67 ایکڑ زمین ہندو فرقہ پرستوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کردیا۔ اس سے بھی فرقہ پرستوں یعنی آر ایس ایس او ربی جے پی کو حوصلہ ملا۔ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کردیا۔ چار ساڑھے چار مہینے سے زیادہ ہوگیا وہاں کے لوگ بنیادی حقوق سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ نریندر مودی کے گزشتہ پانچ سال کے اقتدار میں کوئی بڑا احتجاج یا مظاہرہ نہیں ہوا لیکن اس سے چھ سات مہینے کے اندر لوگوں کی بے چینی اور بے قراری میں اضافہ ہورہا تھا۔ شہریت ترمیمی بل کے پارلیمنٹ میں پاس ہونے کے بعد بے چینی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ ملک بھر میں مظاہرے پر مظاہرے، احتجاج پر احتجاج ہونے لگے۔ پہلے پورا آسام جلنے لگا۔ پھر ملک کے دوسرے حصوں میں آگ پھیل گئی۔ اب تک 20 سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے۔ زخمیوں کی تعداد بے شمار ہے۔ بہت سے لوگ قید خانوں میں ڈال دیئے گئے۔
جھارکھنڈ سے پہلے ہریانہ اور مہاراشٹر کا الیکشن ہوا۔ ہریانہ میں بھی بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی اور مہاراشٹر میں بھی اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ ہریانہ میں دوشیانت چوٹالہ کی پارٹی جن نائک جنتا پارٹی (جے جے پی) جو الیکشن میں بی جے پی کے خلاف لڑی تھی اسے کسی طرح لالچ یا ڈر دکھا کر رام کرنے میں بی جے پی کامیاب ہوگئی۔ بی جے پی کو مخلوط حکومت بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ مگر مہاراشٹر میں بی جے پی تمام غیر آئینی کوششوں کے باوجود حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ سات مہینے کے اندر پہلا بڑا دھچکا اس کے حلیف شیو سینا نے دیا۔ ابھی اس سے ابھر نہیں پائی تھی کہ جھارکھنڈ میں بی جے پی کا بہت حد تک صفایا ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ رگھوور داس کو بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اسپیکر کو بھی منہ کی کھانی پڑی۔ بی جے پی کے کئی بڑے بڑے لیڈر ناکام اور نامراد ہوئے۔ نریندر مودی، امیت شاہ اور یوگی ادتیہ ناتھ جھارکھنڈ میں جاکر بڑے بڑے جلسوں کو خطاب کیا اور مقامی یا زمینی مدعوں کے بجائے این آر سی، سی اے اے، رام مندر، مسلمان، پاکستان جیسے بے بنیادمسائل (Issueless Problems) پر چنگھاڑ کر تقریر کرتے رہے۔ جھارکھنڈ کے لوگوں نے ان بے بنیاد مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ گزشتہ روز جو نتیجہ آیا بی جے پی کانگریس کے اتحاد سے بری طرح ہار گئی۔ اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے بھی اسے ہاتھ دھونا پڑا۔ جے ایم ایم دوسری بڑی پارٹی کے روپ میں ابھر کر سامنے آئی۔ اسے 30 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ کانگریس 16 سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ آر جے ڈی کو بھی ایک سیٹ ملی۔ اس طرح اتحاد کو 47سیٹیں جبکہ بی جے پی کو صرف 25 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ ملک بھرمیں جو بی جے پی اور اس کی پالیسی خاص طور پر سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جو مظاہرے اور احتجاج ہورہے ہیں اس سے ملک کی فضا اور ماحول میں زبردست تبدیلی آچکی ہے۔ جھارکھنڈ کے الیکشن میں بی جے پی کو منہ کے بل گرنے سے اپوزیشن کا حوصلہ بڑھا ہے۔ احتجاجیوں اور مظاہرین کی بھی زبردست حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
میرے خیال سے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف یہ پہلا ریفرنڈم ہے۔ اس ریفرنڈم سے بی جے پی کتنا سبق لے گی کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ان کی آوازوں اور بولیوں میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ ابھی تک ان کے لیڈروں میں ایسا لگتا ہے کہ این آر سی اور سی اے اے کے سلسلے میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی ہے۔ سی اے اے کی حمایت تو ابھی بھی کر رہے ہیں کیونکہ اس قانون سے ان کو اکثریت سے خوشنودی حاصل کرنا ہے اور پولرائزیشن سے انتخابات میں کامیابی کی امید ہے۔ این آر سی کی حمایت سے بی جے پی نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو صفائی دینی پڑ رہی ہے کہ این آر سی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی پورے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کی بات نہیں ہوئی جبکہ امیت شاہ کے بیانات ہی سے نہیں ان کی پارٹی کے منشور اور حراست کیمپ کی تشکیل سے مودی اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کے جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ان کے بعض ترجمان جیسے گورَو بھاٹیہ اپنے کل کے ٹی وی مباحثے میں اینکر کے سوال پر سوال کرنے کی وجہ سے حقیقت بیانی پر مجبور ہوگئے اور کہہ دیا کہ این آر سی لاگو ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاجوں سے این آر سی کا مسئلہ پورے طور پر ختم تو نہیں ہوا ہے لیکن ٹھنڈا ضرور پڑگیا ہے۔ اب شاید برسوں بعد بی جے پی این آر سی کا نام لے۔ سی اے اے کیلئے ابھی بھی بی جے پی کی طرف سے لڑائی جاری ہے مگر آسام میں بی جے پی کے کارکن اور لیڈر عوام سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ وہاں سی اے اے کا نام بھی لینے سے بی جے پی کے لوگ ڈر رہے ہیں۔ باقی ہندستان کی ریاستوں میں اور خاص طور سے مغربی بنگال میں سی اے اے کی حمایت میں ریلی نکال رہے ہیں اور جلسے جلوس کر رہے ہیں۔ بیانات بھی دے رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں اگر آسام کی طرح بڑے پیمانے پر مخالفت میں احتجاج اور مظاہرے ہونے لگیں گے تو یہاں بھی بی جے پی کے لیڈروں اور کارکنوں کو منہ چھپانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی مسلسل احتجاج اور مظاہرے کے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ عام آدمیوں میں بھی گرمی پیدا ہوگئی ہے۔ مگر مزید جوش و جذبے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ دس پندرہ روز میں پوری ریاست میں بیداری کی لہر پیدا ہوجائے گی۔
جواب دیں