تاہم بعد ازاں جرمن پارلیمان میں جرمن وزیر خارجہ زیادہ پر امید نظر نہیں آئے۔ وہاں انہوں نے اپنے خطاب میں کہا:ہم شام میں امن کی منزل سے اور خونریزی کے خاتمے کی منزل سے ابھی کوسوں دور ہیں۔تاہم فرانک والٹر شٹائن مائر کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کو کیمیائی ہتھیاروں سے دستبرداری پر مجبور کرنے میں حاصل ہونے والی کامیابی بھی کچھ کم نہیں ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں شامی تنازعے کو مزید شدت اختیار کرنے سے روکا جا سکا ہے۔
وزیر خارجہ شٹائن مائر کے مطابق جرمنی شامی اپوزیشن کے تمام دھڑوں کی جنیوا ٹو کانفرنس میں شرکت کی امید کر رہا ہے کیونکہ اعتدال پسند دھڑوں کی شرکت کے بغیر شامی تنازعے کا کوئی سیاسی حل برآمد نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی حل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور ایسے کسی حل کے لیے جرمن حکومت اپنی بھرپور کوششیں کرے گی۔
شامی تنازعے میں مختلف ممالک کے جہادی عناصر کے ساتھ ساتھ خطے کی اہم طاقتیں بھی ملوث ہیں، اسی لیے تمام جرمن سیاسی جماعتوں نے اس کانفرنس میں سعودی عرب اور ایران کو بھی مدعو کرنے کی حمایت کی ہے۔ بائیں بازو کی جماعت دی لِنکے کے رکن پارلیمان ژان فان آکن کے مطابق شام کے تنازعے کا کوئی حل تبھی ممکن ہے، جب تمام متعلقہ فریق اس کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔
فان آکن نے، جو حال ہی میں شام کے شمالی علاقوں کے ایک دورے سے واپس آئے ہیں، کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ شام کے مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں مثلا کردوں کے نمائندوں کو بھی تنازعے کے سیاسی حل کی بات چیت میں شامل کیا جانا چاہیے۔ فان آکن کے مطابق ان کے خیال میں وہاں کے کرد کوئی الگ ریاست قائم کرنے کی بجائے آئندہ بھی شام ہی کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔
فان آکن بھی کل سے شروع ہونے والی جنیوا ٹو کانفرنس کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں اس کانفرنس میں زیادہ سے زیادہ ایک فائر بندی سمجھوتہ عمل میں آ سکتا ہے لیکن یہ کہ اگر اتنا بھی ہو جائے تو یہ ایک بڑی پیشرفت ہو گی۔
جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی حزب کے نائب چیئرمین رولف میوٹسنش نے شام کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا:ہمیں وہاں فائر بندی کی ضرورت ہے، چاہے یہ چند گھنٹوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو تاکہ انسانی امداد فراہم کی جا سکے۔
جہاں 2012 کی جنیوا کانفرنس میں فرینڈز آف سیریا نے زور دے کر کہا تھا کہ شام میں مستقبل میں صدر بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، وہاں اب کم از کم برلن میں سیاستدان اس حوالے سے خاصے محتاط ہیں۔
یونین جماعتوں کے خارجہ امور سے متعلق ترجمان فلیپ مِس فیلڈر کے مطابق مغربی دنیا نے اسد کی فوجی طاقت کا درست اندازہ لگانے میں بہت بڑی غلطی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسد شام میں قیام امن کے ضامن یقیناًنہیں ہیں لیکن اسد کے بغیر حالات اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور مشکل ہو سکتے ہیں، جتنے کہ جنگ کے آغاز کے وقت تھے۔
جواب دیں