اورنگ زیب عالم مصباحی
(رکن مجلسِ علمائے جھارکھنڈ)مکرمی!دہلی اور پورے ہندوستان میں کیا ماحول ہے یہ روز روشن کی طرح نمایاں ہے کہ ایک مخصوص تنظیم کے افراد ملک کے عام باشندوں کو غدار قرار دے کر ان پر جور و جفا کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور پورے ہندوستان خواہ دستور و جمہوریت کے ٹھیکیدار ہی کیوں نہ ہوں سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔گویا ان کی دستور ہند بدل کر جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی پلاننگ ہے ۔
اقلیتوں کے علاقے چن چن کر ان کے گھر، دکان ،گاڑیاں اور ان کی نسلوں کو نذر آتش کیا جارہا۔ مگر دستور ہند اور جمہوریت پہ دال روٹی سینکنے والوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی کیا یہ میمار ، شام، فلسطین اور عراق کا دوسرا چہرا نہیں ہے؟ جسے سن کر دل میں ہیجانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
حکومت کا ماننا یہ ہے کہ ہم جو کہیں اور جو کریں اسے خاموشی سے بغیر چوں چرا کیے تسلیم کر لیا جائےاور جس کے کرنے کا حکم دیں سر جھکائے اس حکم کی تعمیل کی جاۓ یہی ہندوستانی ہونے کی علامت ہے چاہے دستور ہند کے مطابق کچھ بھی ہو اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں بہت سے کالے قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں جو کہ جمہوریت، دستور ہند اور ہندوستانی باشندوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔ آج پورا ملک بر سر احتجاج ہے اور تمام گوڈسے پرست اپنا اصلی رنگ دکھا رہے ہیں ایسے میں۔ کارروائی تو دہشت پھیلانے والوں پہ ہونی چاہیے لیکن ہندوستانی پولیس خود ان فسادیوں کے قدم سے قدم ملا کر انہیں دہشت گردی کی چھوٹ دیئے جا رہی ہے لیکن ان کے اس طرح کے کالے چہرے دیش ودیش میں بدنامی پھیلانے لگے تو پولیس اہلکار حرکت میں آئی تفتیش کے بعد ظاہر ہوا کہ مظلوموں کو ہی زبردستی دنگائی ثابت کیا جا رہا جو کہ فی نفسہ ایک دنگا سے کم نہیں آہ! یہ کیسا انصاف ہے کہ مظلومین ہی کو ظلم وتشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
ان کے گھر جلا کر انہیں بے گھر کر دیا جارہا ان کے سارے سہارے چھین لیے گئے ہندوستانی حکومت اور نیتا انکی امداد کرنے اور ان کو تسلیّ دینے کے بجائے ان پر مزید الزامات عائد کر کے ان کے دلوں کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اصل مجرمین کو سلاخوں کے حوالے کر دیا جاتا پر ان کے بازوؤں کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔
انہیں ہر موڑ پر صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر ستایا جا رہا ہے یہ مسلم ہے تو انہیں مارو ان کے گھر برباد کرو اور پھر انہیں پر دہشت گردی کا الزام لگا دو اور ہندوستانی قانون، نیتا ، میڈیااور عدالت سب اس کے برخلاف کھڑے ہو جاتے ہیں کاش کہ ان مجرمین کے خلاف کھڑے ہوئے ہوتے تو ہندوستان اقلیتوں کے خون سے رنگین نہ ہوتا ۔
اور کیجریوال جو ہر موڑ پر ساتھ دینے اور پورے دہلی میں تعمیر وترقی کے وعدے کرتے پھر رہے تھے عام پبلک سے آئی لو یو کہتے تھے آج جب انہیں ایک طرفہ طور پر عوام نے فتح کا سہرا دیا ان کے دامن میں اقتدار کا ہار ڈال دیا تو ان کی نیت بدل گئی پھر کیا تھا وہ بھی بی جے پی کی چال چلنے لگے ۔
دہلی جل رہا تھا ، اقلیتوں کا خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی اور ان کو غدار قرار دیا گیا اور کیجریوال تماشائی بنے رہے۔
یہ سب دیکھتے ہوئے ایک ہی بات زبان پر آتی ہے کہ جیت کسی کی ہو لہو ہمارا بہتا ہے، گھر ہمارا اجڑتا ہے دہشتگردی کوئی بھی پھیلاۓ الزام ہم پہ آتا ہے۔
جواب دیں