جزیر ۃالعرب کی غیر یقینی صورتحال

تاکہ مستقبل میں اسلام پسندوں کے خلاف ان کی مدد اور رہنمائی سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔مگر مصر میں السیسی کی بغاوت کے بعد اسرائیل نے غزہ میں جو تباہی مچائی اور جس طرح تمام عرب حکمرانوں نے بھی انہیں تنہا چھوڑ دیاایک فلسطینی دانشور خالد الجندی جو کہ اسرائیل فلسطین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرچکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب حالات کسی حد تک اسرائیل کے حق میں نظر آنے لگے ہیں ۔مگر یقین کے ساتھ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اسرائیل کب تک اس غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اٹھاتا رہے گا ۔یہ نظر بھی آرہا ہے کہ اخوان کی بے دخلی کے بعد عرب حکمرانوں اور اسرائیل کو جو وقتی سکون ملا تھا دولت اسلامیہ کے عروج نے ایک بار پھر اس کی نیند کو اڑادیا ہے اور اب اس تحریک کے خلاف جس طرح مشرق سے مغرب تک کے ممالک جن میں عرب کے تمام مسلم حکمراں بھی شامل ہیں ۔کہا نہیں جاسکتا کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے ۔یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف محاذ آرائی کے یہ حالات کیاواقعی امریکی صحافیوں کے قتل کے بعد پیدا ہوئے ہیں یا کئے گئے ہیں؟کیا یہ صحافی واقعی امریکی تھے یا کسی ملک کی خفیہ ایجنسی کے جاسوس اور اگر ایسا ہوا بھی تو اس طرح کی ڈرامے بازی کی تصویر غزہ اور اسرائیل کی جنگ کے دوران سامنے کیوں نہیں آئی؟
اخوان کے بزرگ رہنما شیخ محمد احمد الراشد نے اپنی کتاب آزادی سے فرار میں لکھا ہے کہ’’ 2012 میں جب متحدہ عرب امارات اور خلیج کے دیگر حکمرانوں نے یہ محسوس کیا کہ مصرکا انقلاب کامیاب ہو چکا ہے تو انہوں نے اخوان کو مشتعل کرنے یا مشکل میں ڈالنے کیلئے غزہ میں بد امنی شروع کردی مگر حماس کی بیداری نے ان کی چال کو ناکام بنادیا اور گمان غالب ہے کہ فساد انگیزی کی یہ کوشش دوبارہ شروع کی جائے گی اور اللہ پھر انہیں ذلیل و خوار کردے گا تاکہ غزہ مستقبل میں آزادی کا کارزار بن سکے‘‘ ۔مصنف کی یہ پیشن گوئی ایک سال پہلے کی تھی ۔جولائی 2014 میں ان کی یہ پیشن گوئی بھی سچ ثابت ہوئی ۔ اس جنگ میں نہ صرف صہیونی حکومت کو ذلیل و خوار ہونا پڑا بلکہ عرب حکمرانوں کے چہروں سے نقاب بھی اتر گیا۔فرق اتنا ہے کہ 2012 میں ان کا ہدف اخوانی حکومت تھی 2014 میں عرب حکمرانوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف سازش کی تاکہ ان کے رخ کو غزہ کی طرف موڑ دیا جائے اور پھر عالمی طاقتیں اس نو زائدہ تحریک کے خاتمے کیلئے سخت کارروائی کیلئے مجبور ہو جائیں ۔شکر ہے کہ حماس نے اس جنگ کو اکیلے ہی جیت لیا۔اب جبکہ غزہ کی جنگ کے بعد دولت اسلامیہ کاباب جو ایک مہینے کیلئے بند ہو چکا تھا دوبارہ شروع ہو چکا ہے اور ان کے ذریعے جیمس فولی ،اسٹون سٹولوف اور ڈیوڈ ہینز کے قتل کی ویڈیو سامنے لائی گئی ہے ۔کچھ لوگوں کا سوچنا ہے کہ اس میں بھی موساد کا دماغ کام کررہا ہے تاکہ امریکہ کو دولت اسلامیہ کے خلاف سخت کارروائی کرنے کیلئے اکسایا جائے۔غور کیا جائے تو بظاہر ایساہی لگتا ہے کہ ان صحافیوں کو دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی حملے کی سزا دی گئی ہے ۔جبکہ اخبارات کی رپورٹ کے مطابق اسٹون سٹوف امریکی نژاد یہودی تھااور اس نے 2005 میں اسرائیل ہجرت کرکے وہاں کی شہریت اختیار کرلی تھی مگر شام میں وہ امریکی پاسپورٹ پر اس لئے داخل ہوا تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ وہ اسرائیلی باشندہ ہے ۔اسرائیل کے وزیر خارجہ Avigdor Liberman کے مطابق جب وہ 2012 میں انقلابیوں کے ذریعے گرفتار کر لیا گیا تو اس کی اطلاع اسرائیلی حکومت کو اسی وقت ہو چکی تھی مگر اسرائیلی حکومت نے اس کی شناخت کو چھپانے کیلئے میڈیا کو ہدایت کردی تھی کہ وہ اس خبر کو نشر نہ کریں ۔اس کا مطلب صاف ہے کہ اس کی گرفتاری سے امریکہ کو نہیں بلکہ اسرائیل کو زیادہ تشویش لاحق تھی ۔ عرب کے مشہور ٹیوی چینل الجزیرہ کا دعویٰ ہے کہ ان صحافیوں کا قتل ایک ڈرامہ تھا اس ان میں کا دوسرا صحافی جیمس فولی ماضی میں امریکی محکمہ خارجہ کیلئے کام کرتا رہا ہے ۔ اس لئے یہ شک ہوتا ہے کہ وہ شام میں کسی خفیہ ایجنسی کیلئے کام کررہا تھا۔امریکہ کے مشہور اخبار ٹائمس نے لکھا ہے کہ جیمز فولی کے قتل میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن چار منٹ چالیس سیکنڈ کی جس ویڈیو میں اسے قتل ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہ بہر حال مشکوک ہے۔ادھر حال میں جو تیسرے شخص کی ویڈیو جاری کی گئی ہے وہ برطانوی فوج کا ملازم تھا ۔ فوج کی ملازمت چھوڑ کر وہ فلاح و بہبود کا کام انجام دینے والے ادارے کے ساتھ منسلک ہو چکا تھا ۔سوال یہ ہے کہ کیا اسے عراق اور شام کے علاوہ فلاح و بہبود کاکام کرنے کیلئے کوئی جگہ نظر نہیں آئی ۔اکثر مبصرین کا خیال یہ بھی ہے کہ اسلام پسند تحریکیں وہ چاہے حماس ہو ، اخوان ہوں یا طالبان ہوں یا چیچن مجاہدین اور اب دولت اسلامیہ یہ لوگ نہ تو اس طرح کی ڈرامے بازی میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی صحافیوں اور سفارت کاروں کا قتل کیا ہے ۔یہاں پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ 2002 میں پاکستان میں ایک صحافی ڈینیل پرل کو اغوا کرکے قتل کیا گیا ہے ۔اتفاق سے یہ صحافی بھی یہودی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔سوال یہ بھی ہے کہ قتل ہونے والوں میں امریکی صحافی کیوں نہیں ہوتے اور طالبان برطانوی خاتون صحافی یوان روڈلی کو زندہ کیوں رہا کردیتے ہیں؟اور ابھی حال ہی میں طالبان نے دس سال بعد ایک امریکی فوجی بوے برگدھال کو اپنے پانچ قیدیوں کے عوض زندہ رہا کیا ہے۔تو اس کا مطلب صاف ہے کہ ان کیلئے مردہ دشمنوں سے زیادہ زندہ قیدیوں کی زندگی اور بھی زیادہ عزیز اور قیمتی ہے ۔اب 21 ؍ستمبر کی خبر ہے کہ دولت اسلامیہ کے انقلابیوں نے ترکی کے 49 یرغمالوں کو بھی رہا کردیا ہے ۔ہاں اگر کوئی کسی کیلئے جاسوسی کرے تو پھر یہاں پر اسے سزا دیتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا مذہب اور مسلک کیا ہے ،مثال کے طور پر غزہ کی جنگ کے دوران حماس نے خود اپنے ہی ملک کے اٹھارہ مسلمان جاسوسوں کو قتل کردیا تھا ۔ایک سوال یہاں پر یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر دولت اسلامیہ نے اس ویڈیو کے ذریعے امریکہ کو دھمکی دینے کی کوشش کی ہے تو پھر اس ویڈیو کی حمایت بشار الاسد حکومت کو بھی کرنا چاہئے تھا تاکہ امریکہ جو کہ شام میں انقلابیوں کے ایک گروہ کی مدد کررہا ہے ان کے تئیں اس کا رویہ تبدیل ہو جائے اس کے بر عکس اسدحکومت کی میڈیا ترجمان پشنیہ شعبان نے بی بی سی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ویڈیو پرانی ہے اور ان صحافیوں کا قتل 2012 میں ہی ہو چکا تھا ۔ایسالگتا ہے کہ شامی حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ پورا ڈرامہ امریکی انٹیلیجنس اور انقلابیوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے تاکہ امریکہ اپنے شہریوں کے قتل کے جواز میں اس خطے میں اپنی موجودگی اور مداخلت کو جائز ٹھہرا سکے اور شامی انقلابیوں کی مدد کرتا رہے ۔امریکی کانگریس نے پچھلے جون سے شامی انقلابیوں کی مدد کیلئے جو پانچ سو ملین ڈالر کی رقم پر روک لگا رکھی ہے اسے منظور کرایا جاسکے جس سے انقلابیوں کی مدد ہوتی رہے۔یہاں پر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے ایساکیا ہے تو کیا اسرائیل کو اس کی خبر نہیں ہے؟بالکل اسرائیل کو پتہ ہے اور ان دونوں ممالک کے درمیان 9/11 کے بعد سے یہ سرد جنگ کی کیفیت جاری ہے۔امریکہ بھی جانتا ہے کہ 9/11 کے حادثے میں چار ہزار ملازمین میں سے ایک بھی ملازم حادثے کے وقت موجود کیوں نہیں تھا اور اب یہودی سرمایہ دار اپنی صنعتوں کوامریکہ سے ہٹا کر روس اور چین میں کیوں منتقل کررہے ہیں جسکی وجہ سے امریکہ کی معیشت پر زبردست اثر پڑ رہا ہے ۔ امریکی عوام کو اب یہ بھی احساس ہو چکا ہے کہ اسرائیل امریکہ کو اپنا مہرہ بنا کر عراق سے لے کر افغانستان کی جنگ میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ تھامس فرائیڈ مین نے اپنے مضمون This war is not about us ’یہ جنگ ہماری نہیں ہے‘میں لکھا ہے کہ’’ آئی ایس آئی ایس کے خلاف جنگ شروع کرنے سے پہلے ہمیں یہ بھی طے کرلینا چاہئے کہ ہم یہ جنگ کس کے لئے اور کس کی طرف سے لڑ رہے ہیں ‘‘ ۔(انڈین ایکسپریس16 ؍ستمبر)
17 ؍ستمبر کی خبر ہے کہ اسرائیل نے روس کی ہمدردی میں یوکرین حکومت سے کئے گئے ہتھیاروں کے معاہدے کو منسوخ کردیا ہے ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ پورا یوروپ یوکرین کے ساتھ ہے ایسے میں روس کے ساتھ اسرائیل کی ہمدردی سے کیا امریکہ خوش ہوگا ۔خود شام کے معاملے میں امریکہ اسرائیل کے درمیان یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ امریکہ بشا رلاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے اور اسرائیل انہیں گلے لگانے کو تیار ہے۔اس مختصر بحث کے بعد یہ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں کہ شام میں امریکی نژاد اسرائیلی باشندہ صحافت کی آڑ میں کسی خفیہ تنظیم کیلئے کام کررہا تھا ۔اگر یہ لوگ شام اور روس کے مفادمیں امریکی ایجنسیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے تو انہیں خود امریکی ایجنسیوں نے قتل کرکے ڈبل کراس کیا ہے تاکہ امریکہ اس بحران کے ذریعے جو مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور جن لوگوں کی مدد اسے درکار ہے مستقبل میں اس کی ان حرکتوں پر دنیا کی کوئی بھی ایجنسی نظر رکھنے کی جرات نہ کرسکے اور یہ مقصد وہی ہے جو اس نے ماضی میں افغان مجاہدین کے ذریعے روس کے خلاف حاصل کیا تھا اور اب جبکہ خفیہ طریقے سے عرب حکمراں روس کے ساتھ دوستی بڑھارہے ہیں امریکہ شامی انقلابیوں کے ذریعے جزیرۃ العرب میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنا چاہتا ہے۔فرق اتنا ہے کہ اس وقت امریکہ کے ساتھ پاکستان تھا اور دنیا کے سامنے ان کا چہرہ بھی واضح رہا ہے ۔اس بار یہ کردار ترکی نبھا رہا ہے مگر یہاں پر امریکہ اور ترکی دونوں نے دولت اسلامیہ کے سپاہیوں کی طرح اپنا چہرہ چھپا رکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں امریکہ نے ایران اور شام میں سے کسی ملک کو مدعو نہیں کیا ۔اس کا مطلب جو کچھ بھی سمجھاجائے یہ سوال ہر شخص پوچھ رہا ہے کہ اگر آئی ایس نے گیارہ تیل کے کنووں پر قبضہ کرلیا ہے تو پھر یہ تیل کون خرید رہا ہے ؟یا تیل کی قیمت میں کوئی طوفان کیوں نہیں اٹھ رہا ہے اور اگر خریدار موجود ہیں تو پھر امریکی ایجنسیوں کی مرضی کے بغیر یہ کام کبھی نہیں ہو سکتا ۔یہی صورتحال صدام حسین کے وقت میں بھی پیدا ہوئی تھی اور اس وقت کے وزیر خارجہ نٹور سنگھ کو استعفیٰ دینا پڑا تھا ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئی ایس کو اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں اور سمندروں میں ان کے ہتھیار وں کے جہاز پکڑے بھی کیوں نہیں جاتے۔عام طور پر تو یہ بات کہی بھی جارہی ہے کہ اس نوزائدہ تحریک کے پیچھے امریکہ کا ذہن کام کررہا ہے ۔مگر اس مدد کا نظریہ کیا ہے ۔ہماری طرف سے وہی پرانی بات دہرائی جارہی ہے کہ امریکہ اس خطے کو مزید ٹکڑوں میں بانٹ دینا چاہتا ہے۔مگر ایک متحدہ عرب امارات کے بھی کیا معنی ہیں جنہوں نے خود اپنے ٹینکوں اور میزئلوں سے دو لاکھ عوام کا قتل کرایا ہے یا اس قتل عام پر خاموش ہیں یا پھر اس قتل عام میں اسلام دشمنوں کے معاون اور مددگار ہیں۔ 

«
»

نظر کی کمزوری سے بچاؤ کے فطری طریقے

نریندر مودی کا دورہ امریکہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے