حالانکہ ہزاروں سال سے وہ اسی ذات پات کے سسٹم کے ذریعے دوسروں کو پیچھے ڈھکیلتے رہے ہیں۔ آج جاٹ سیاست کو خاتمہ ہوچکا ہے جس کی شروعات یادو، دلت سیاست سے پہلے ہوئی تھی اور اب یادووں ، دلتوں اور کرمیوں کی سیاست کے خاتمے کی تیاری ہے۔ مغربی یوپی میں دنگے کراکر اجیت سنگھ کی سیاست کو ختم کردیا گیا اور اس جاٹ۔مسلم اتحاد کو بھی توڑ دیا گیا جو ان کے والد آنجہانی چودھری چرن سنگھ نے تیار کیا تھا۔ اب سنگھ پریوار کی نظر ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو، نتیش کمار اور مایاوتی پر ہے جو اپنی اپنی برادری کے ووٹ کے دعویدار ہیں۔ہریانہ میں ایک مدت بعد غیر جاٹ کو وزیر اعلیٰ بناکر بی جے پی نے اس سیاست کو پھانسی پر لٹکانے کی کوشش ہے۔ یہاں اس نے غیرجاٹ ووٹروں کو متحد کیا تھا حالانکہ مغربی یوپی میں اس نے جاٹوں کو اپنے ساتھ کرنے میں کامیابی پائی ہے۔ اب کوشش ہے کہ اسی طرح یادو اور دلت ووٹ کو بھی بے اثر کیا جائے۔
غیر جاٹ وزیراعلیٰ کا کھیل
ہریانہ میں غیر جاٹ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا کھیل بہت چالاکی کے ساتھ سنگھ پریوار نے کھیلا ہے اور اب اسی طرح کا کھیل باقی ملک میں بھی کھیلا جائے گا۔منوہر لعل کھٹر آرایس ایس کے پرچارک رہے ہیں۔ وہ راجدھانی دلی کے قدیم علاقے چاندنی چوک میں کپڑے فروخت کیا کرتے تھے اور یہی ان کی روزگار کا ذریعہ تھا ۔ جوانی کے ایام میں انھوں نے ایک مدت تک یہ پیشہ کیا ۔ ان کا خاندان تقسیم وطن کے وقت پاکستان سے ہجرت کرکے یہاں آیا تھا اور ان کی پیدائش بھارت میں ہی ہوئی ۔ساٹھ بہاریں دیکھ چکے نئے وزیر اعلیٰ کی سنگھ سے وابستگی ۲۴سال کی عمر میں ہوئی تھی اور وہ ایک پرچارک کے طور پر کام کرتے تھے ۔ انھیں دنوں انھوں نے شادی نہ کرنے اور باقی عمر سنگھ کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ۱۷ سال تک سنگھ میں رہنے کے بعد ۱۹۹۴ء میں وہ بی جے پی میں آئے اور تب سے اب تک وہ یہیں ہیں اورلگن سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔وہ تنظیمی کام میں مہارت رکھتے ہیں لہٰذا انھیں اسی کام میں لگایا گیا۔ انھوں نے پہلے کبھی الیکشن نہیں لڑا تھا مگر بار بار الیکشن لڑاتے رہے ہیں۔ رواں سال کے لوک سبھا الیکشن میں وہ پارٹی کی کیمپین کمیٹی کے چیئر مین تھے۔ پہلی بار انھیں پارٹی نے ہریانہ اسمبلی کے لئے کرنال سے امیدوار بنایا اور وہ ۶۳ہزار سے زیادہ ووٹوں سے جیتے۔ پارٹی کے اندر ان کا اتنا بڑاا تھا کہ پارٹی اور سنگھ دونوں نے بغیر کسی پس وپیش کے انھیں وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ میڈیا میں جن دوسرے ناموں کا چرچا تھا ان میں ریاستی اکائی کے صدر رام بلاس شرما اور کیپٹن ابھیمنیو بھی شامل تھے، مگر کھٹر کے سامنے کسی کو زورآزمائی کی ہمت نہیں ہوئی۔ جب ممبران اسمبلی سے پوچھا گیا کہ ان کی پسند کون ہے تو ممبران نے بھی ایک رائے ہوکر انھیں کا نام لیا۔ کھٹر پہلے کبھی انتظامی عہدے پر نہیں رہے ،پہلی بار جیتے اور سیدھے وزیر اعلیٰ بنا دیئے گئے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس میدان میں تجربہ کار نہیں ہیں لہٰذا انھیں کچھ مشکل ضرور آئے گی مگر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان کے حق میں جو بات گئی وہ یہ بھی تھی کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی ہیں اور دونوں کو نہ صرف آرایس ایس میں ایک ساتھ رہنے کا موقع ملا تھا بلکہ بی جے پی کے تنظیمی کاموں میں بھی وہ ایک ساتھ رہے ہیں۔مودی سے ان کے مراسم اتنے پختہ ہیں کہ وہ کھٹر کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ مودی کا اپنا مفاد یہ تھا کہ وہ ریاست میں اپنے کسی قابل اعتماد آدمی کو وزیر اعلیٰ بنانا
چاہتے تھے اور کھٹر سے بہتر کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔خود آرایس ایس کو اپنے ایجنڈے لاگو کرنے کے لئے کسی قابل اعتماد آدمی کی ضرورت تھی اور اسے انھوں نے کھٹر کی شکل میں پالیا۔ اسی کے ساتھ ہریانہ میں جاٹ سیاست کا بھی خاتمہ ہوگیا کیونکہ ایک مدت بعد یہاں کوئی غیر جاٹ وزیر اعلیٰ بنا ہے۔ کھٹر پنجابی ہیں اور اصل ہریانوی بھی نہیں ہیں۔
مغربی اترپردیش سے جاٹ سیاست کا خاتمہ
جاٹ سیاست بہت دنوں سے سنگھ پریوار کی نظرمیں کھٹک رہی تھی اور وہ کسی طرح اسے ختم کرنا چاہتاتھا۔ اس کے لئے اس نے اترپردیش کا پہلے انتخاب کیا اور چودھری اجیت سنگھ کی قوت کو ختم کرنے کے لئے یہاں دنگے کرائے گئے۔ اصل میں جاٹ سیاست کے تین مراکز میں سے ایک اجیت سنگھ کے پاس تھا۔ اترپردیش میں جاٹ ووٹ کی سیاست وہی کرتے تھے اور ان سے پہلے یہ ووٹ ان کے والد چودھری چرن سنگھ کے پاس تھا۔ انھوں نے بے حد محنت سے یہاں مسلمانوں اور جاٹوں کا اتحاد قائم کیا تھا کیونکہ اکیلے جاٹ اس پوزیشن میں نہین تھے کہ الیکشن جیت سکیں۔ انھوں نے مغربی اترپردیش میں مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملایا کیونکہ یہاں ان کی آبادی اچھی خاصی ہے اور ان کے بغیر جیت آسان نہیں ہے۔ یوپی اسمبلی میں مسلمان ممبرا ن سب سے زیادہ اسی علاقے سے پہنچتے ہیں اسی ووت بینک کے دم پر وہ ملک کے وزیر اعظم بھی بنے تھے۔ خود چودھری اجیت سنگھ اسی اتحاد کے سبب پارلیمنٹ میں پہنچتے رہے ہیں اور مرکز میں جو بھی سرکار بنتی ہے اس میں وزیر بن جاتے ہیں۔ ایک منظم پلان کے تحت مظفر نگر فسادات کرائے گئے اور انھیں بجنور سے سہارنپور تک پھیلا دیا گیا۔ جو جاٹ صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارہ کے ساتھ رہتا آیا تھا اسی کے ساتھ مسلمانوں کا اختلاف ہوگیا اور سینکڑوں افراد کا قتل ہوا یا زخمی ہوئے۔ ہزاروں کو اپنے گھربار چھوڑ کر پناہ گزیں کمیپوں میں پناہ لینا پڑا۔ خواتین کی عصمت ریزی ہوئی اور بے شمار افراد اب بھی اپنے آبائی گاؤ ں جانے کی ہمت نہیں کرپارہے ہیں۔ اس دنگے نے دونوں فرقوں میں ایسا زہر گھول دیا کہ اب برسوں تک اس کی تلخی برقرار رہے گی اور اس زخم کو بھرنے میں وقت لگے گا۔ ریاست کی سماجوادی پارٹی سرکار کی یہ غلطی رہی کہ اس نے حالات کو سمجھا ہی نہیں اور فسادات کو بڑھنے دیا۔ اکھلیش یادو کا بھولاپن انھیں لے ڈوبا اور وہ سیاست کی نزاکت کو نہیں سمجھ پائے۔ فسادات سے صرف اجیت سنگھ کا ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ سماج وادی پارٹی کا بھی نقصان ہوا اور اس علاقے کی بیشتر لوک سبھا سیٹیں بی جے پی کے کھاتے میں چلی گئیں۔ یہ صرف مودی لہر کا اثر نہیں تھا بلکہ جاٹ۔مسلم اتحاد کے ٹوٹنے کا فطری نتیجہ بھی تھا۔ اجیت سنگھ جو پہلے کنگ میکر کے رول میں آتے تھے اس بار اپنی سیٹ بھی نہیں بچا سکے اور ان کے بیٹے بھی الیکشن ہار گئے۔ اس طرح سے یوپی میں اب جاٹ سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے اور سنگھ پریوار اپنے مآصد میں کامیاب ہوچکا ہے۔ وہ ہندووں کو ذات پات سے اوپر اٹھا کر بی جے پی کے حق میں متحد کرنا چاہتا ہے اور اس جانب یہ پہلا قدم ہے کہ اس نے جاٹ سیاست کا خاتمہ کردیا۔ اب اس کی نظر یادو اور دلت سیاست کے خاتمے پر ہے۔ اگر حالیہ ضمنی الیکشن کے سیاسی حالات کو غور سے دیکھیں تو احساس ہوگا کہ پورے اترپردیش میں کس طرح دلت۔مسلم ٹکراؤ کے واقعات ہوئے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کوئی بڑا فساد نہیں ہوا مگر یہی چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے فساد کی شکل اختیار کرسکتے تھے اگر انھیں فورا کنٹرول نہ کیا جاتا ۔ یوپی میں مایاوتی کی کامیابی کے پیچھے دلت ۔مسلم اتحاد کا ہاتھ ہوتا ہے تو ملائم سنگھ یادو کی کامیابی کے پیچھے یادو۔مسلم اتحاد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس دن یہ اتحاد ختم ہوا اسی دن ملائم سنگھ
اور مایاوتی کی سیاست ختم ہوجائے گی۔
بی جے پی نے توڑا جاٹوں کا بھرم
راجستھان میں جاٹوں کی آبادی اچھی خاصی ہے اور وہ سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں مگر ان کی الگ پارٹی نہیں ہے۔ وہ کانگریس یا بی جے پی میں ہی ہوتے ہیں۔ البتہ یوپی کی طرح ہریانہ میں ان کی اپنی پارٹی ہے انڈین نیشنل لوک دل جس کی لیڈر شپ فی الحال اوم پرکاش چوٹالہ کے ہاتھ میں ہے۔ ان سے پہلے چودھری دیوی لال کا اس علاقے پر اثر تھا اور ان کی ایک آواز پر جاٹ متحد ہوجاتے تھے۔ اسی اثر ورسوخ کے سبب دیودی لال نائب وزیر اعظم بھی بنے۔ جاٹوں کے ووٹ کی طاقت کو کانگریس بھی سمجھتی تھی لہٰذا وہ اس علاقے میں جاٹ لیڈروں کو ہی آگے رکھتی تھی اور جاٹ کو ہی وزیر اعلیٰ بناتی تھی۔ بی جے پی نے اسی چیز کو سمجھا اور اس کے حکمت عملی بنانے والوں نے غیر جاٹ ووٹوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی کے سبب یہاں جاٹ ووٹ بے اثر ہوگیا۔ انڈین نیشنل لوک دل کو اگرچہ ۱۹ سیٹیں مل گئی ہیں مگر اب اسے اپوزیشن میں ہی بیٹھنا ہوگا اور وہ سرکار نہیں بناسکتی ہے۔ اسے اپنے پرانے دور کو واپس لانے کے لئے اب لمبی جدجہد کرنی پڑے گی۔ موجودہ سیاسی ھالات سے یہاں کے جاٹ خوش نہیں لگتے۔ اب تک وہ سمجھتے تھے کہ ریاست کا وزیر اعلیٰ کوئی جاٹ ہی ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی غیر جاٹ کو ریاست کی سب سے اونچی کرسی پر بٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتی مگر اب ان کا یہ بھرم توٹ چکا ہے کیونکہ بی جے پی نے جاٹ سیاست کو الٹا لٹکا دیا ہے اور جاٹوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔
جواب دیں