جشن سال نو اور مسلمان

 

 ام ہشام،ممبئی 

رنگین دنیا کا یہ بھی ایک رنگیلا سا شوق ہے31؍دسمبر کی رات دنیا کے کم و بیش 90؍ فیصد لوگ رات کو ایک ساتھ جمع ہوکر گذشتہ سال کو رخصت کرتے اور نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہیں۔اس رات کو منانے کی تیاریاں بڑے زور و شور سے کی جاتی ہیں،پہلے پہل یہ لعنت صرف خواص ہی میں پائی جاتی تھی؛لیکن اب سماج کے امیر و غریب دونوں طبقے اس میں ڈوبے نظر آرہے ہیں۔ہماری دوڑتی بھاگتی ممبئی میں بھی اس رات جیسے عام زندگی تھم سی جاتی ہے،رنگ و خوشبو کا ایک سیلاب سا امنڈ آتا ہے،شہر کا ساحلی علاقہ،سمندری جہاز،ہوٹل،پارک،میدان، اونچی عمارتوں کی چھتیں،حتیٰ کہ سڑکیں تک باقی نہیں چھوڑی جاتیں، جہاں پر اس رات کودل فریب بنانے کا سامان نہ کیا گیا ہو۔پیشہ ور رقاصائیں،فلمی اداکار،ناچنے گانے والوں کا ہر طبقہ اس میدان میں اپنے جلوے بکھیرنے کواتر پڑتا ہے اور ملک کے امرا منہ مانگے دام لگا کر ان کے پروگرام طے کرتے ہیں۔

سالِ نو منانے کی اس لعنت نے آہستہ آہستہ اسلامی روایات کے پاسدار لوگوں کو بھی اپنی زد میں لے لیا ہے،دکھ صرف یہی نہیں ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ ہماری پڑھی لکھی باشعور نوجوان نسل بھی اغیار کے منحوس سایے میں اپنے لیے آسرا تلاش کرنے لگی ہے،جبکہ اس سے ہماری امیدوں کی مشعل روشن ہے،ملک و ملت کی سر براہی انہی کے ہاتھو ں میں تو ہے،اپنے بڑوں کے آدھے ادھورے خاکوں میںیہ رنگ بھرے گی،مگر افسوس کا مقام ہے کہ ان ’’شاہین صفت بچوں‘‘ کی اٹھان ہی اتنی کمزور ہے کہ ان کی نظروں میں کوئی بڑا مقصد نہیں ،نہ ہی انہیں اپنے مقصدِ حیات سے واقفیت ہے؛ لہذا ان سے کوئی امید نہیں باندھی جا سکتی ۔ حال یہ ہوتا ہے کہ محض چند گھنٹوں کی رات کا جشن منانے کے لیے اربوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں،کروڑوں کی ڈشز دستر خوان پر پڑی پڑی کچرے کے انبار تک پہنچ جاتی ہیں،یہ ایک ایسی کالی رات ہوتی ہے، جس میں بظاہر لاکھوں رعنائیاں اور رنگینیاں ہوتی ہیں ؛لیکن باطنی طور پر انسانیت کو شرمسار کرنے والے حقائق ہیں۔ اس کے لیے زنا کاری کے اڈے سجائے جاتے ہیں اور پھر کئی جوانیاں راضی برضا قربان بھی ہوجاتی ہیں،جبکہ کچھ بڑے بڑے امرا و رؤسا کی ناجائز خواہشات کا نوالہ بنا دی جاتی ہیں،شراب،چرس،گانجہ ،افیون اور دنیا کی مہنگی ترین منشیات کی در آمد و بر آمد اس مہینے میں سب سے زیادہ کی جاتی ہے،اس رات میں طبلے کی تھاپ پر جوانیاں رقص کرتی ہیں اور لڑکے و لڑکیاں اخلاق و شرافت کی ساری حدوں کو پار کررہے ہوتے ہیں،انجوائمنٹ کے نام پر اس رات نہ جانے کتنی عصمتیں داغدار ہو جاتی ہیں۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ اس چھوٹی سی رات کو منانے کے لیے اس قدر انتظامات!لیکن کبھی ہمارے ذہن میں اس دن کے لیے کچھ کرنے کا خیال ذہن میں آیا، جس کی میعاد کی کوئی انتہا نہ ہوگی، نہ جانے کب تک ہم اللہ کے سامنے جزاو سزا کے لیے کھڑے رہیں گے۔مسلمانو!اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اسلامی تہذیب کی بذاتِ خود ایک مکمل اور جامع تہذیب ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کی ذات بطور نمونہ ہمارے لیے ایک مکمل گائیڈنس ہے، پھر بھی ہمارے گھرانوں میں اغیار کے اطوار کا فروغ کیوں ہے؟

انسان کبھی غور تو کرے،وقت کی سوئی مسلسل چلتی جا رہی ہے،زندگی کے شب و روز بڑی تیزی سے بھاگ رہے ہیں،سال مہینے کی طرح،مہینے ہفتے کی طرح،ہفتے دنوں جتنی تیزی سے گذرتے جارہے ہیں، دیکھا جائے، تو ان میں بظاہر کو ئی بڑی بات نہیں ہے۔ہر وقت گزرنے کے ساتھ اپنی قدر کھو دیتا ہے ؛لیکن ایک مومن بندے کے لیے اس کی زندگی کی گھڑیاں،اس کے خالی اوقات اس کے لیے برکت اور خیر کا پیغام لاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’پس جب تو فارغ ہو ،تو عبادت میں محنت کراور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا‘‘۔

ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہماری زندگی کی معراج ہی یہی ہے کہ اپنے فارغ اوقات کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی مخلوق کے بھلائی کے کاموں میں صرف کریں،نہ کہ عیش پرستی میں ہماری قیمتی عمر ضائع ہو جائے ہمارے لیے ہر وہ لمحہ قیمتی ہے، جس میں ہمارے دل میں قوم و ملت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہو جائے،جس میں ہماری فکرو نظر کی دنیا آباد ہو جائے، دل سے تاریکیاں مٹ جائیں، گناہوں کی بدلی چھٹ جائے اور بندۂ مومن اپنے رب کی رحمت کی تلاش میں لگ جائے،در حقیقت وہی پل، وہی ساعت سب سے حسین ہے ،جس میں دل سے گناہوں کا جمود ٹوٹتا ہے اور اللہ اور اس کی مخلوق کی محبت جاگ اٹھتی ہے ورنہ کوئی دن یاکوئی رات بذات خود کوئی وصف نہیں رکھتے۔اللہ کے رسول ﷺکی وہ حدیث بڑی اہم ہے، جسے ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ فرمایا:’’سب سے اچھا انسان وہ ہے، جس نے لمبی عمر پائی اور اس میں نیک کام انجام دیے اور سب سے برا وہ ہے، جس نے لمبی عمر پائی اور اس میں برے کام کیے‘‘۔(صحیح الجامع:۷۹۲۳)حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری زندگی اللہ کی دی ہوئی امانت ہے ؛اس لیے یہ زندگی بھلائی کے کاموں میں ہی صرف ہونی چاہیے ،ورنہ زندگی خود انسانوں پر عذاب بن جائے گی۔

جشنِ سالِ نویہود و نصاریٰ کی فکری یلغار ہے ،جو اپنے افکار و نظریات،طرزِ زندگی، ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں،سوال یہ ہے کہ انسانوں کی بھوک و افلاس پر تجارت کرنے والے کتوں کو امپورٹڈ بسکٹ کھلانے والے یہ روشن خیال لوگ کب سے ہمارے لیے نمونۂ حیات بن گئے؟

مسلمانوں کو کنزر ویٹو اور دقیانوسی کہنے والے اس مہذب سماج نے اپنی پوری شرافت کے ساتھ تین لوگوں کے ساتھ وہ شرمناک معاملہ کیا ،جس کی گواہ پوری دنیا بن گئی۔

2008ء میں ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل سے تین افراد (میاں،بیوی، بہن)نیا سال مناکر رات ایک بجے باہر نکلے،پہلے کچھ اوباشوں نے دونوں خواتین کو چھیڑا،پھر آہستہ آہستہ چھیڑنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی،شوہر بیوی اور بہن کے بچاؤ کے لیے چیختا چلاتا رہا؛ لیکن کسی نے نہ سنا،مجمع میں دو تین فوٹو گرافر بھی تھے ؛لیکن وہ تصاویر لینے میں مصر وف تھے،بالآخر کچھ دیر بعد پولیس آئی اور پھر پچاس نا معلوم افراد کے خلاف کیس درج کیا گیا۔

خود کو روشن خیال سمجھنے والوں کا یہ بے حد گھناؤنا چہرہ ہے،سیکڑوں کی بھیڑ میں پچاس مرد دو عورتوں کی عصمت تار تار کرنے پر لگے ہو ئے تھے اور ساری بھیڑ خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔واقعہ کی یاد دلانے کا مقصد ہے کہ ایسی جشن کی راتوں میں جب کوئی لڑکی،عورت اپنے محرم کے ساتھ محفوظ نہیں ،تو پھر جو لڑکیاں تن تنہا ایسی مجلسوں میں انجوائے کرنا چاہتی ہیں ،ان کا انجام تو نا قابلِ تصور ہے۔

گزرتا سال زندگی کے ایام کم کر جاتا ہے؛ اس لیے یہ موقع تالیاں پیٹنے،گلے ملنے،دعوتیں اڑانے کا نہیں،رقص و سرور میں مدہوش ہونے کا نہیں ؛بلکہ خود احتسابی کا ہے کہ انسان اپنی ماضی کی غلطیوں پر تائب ہو اور آئندہ کے لیے خود کو از سرِ نو تیار کرے، پچھلے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہے؛ تاکہ ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔

جس ہستی کے نام کا کلمہ ہم پڑھتے ہیں ،جس کی محبت کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، کیا ان کی زندگی کے اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش کی گئی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کیسے اور کہاں صرف کیا؟ہمارے سامنے آپ کی مکی اور مدنی دونوں زندگیاں ہیں، ہم اسے اپنے لیے بطور نمونہ منتخب کریں،آپ ﷺ کی زندگی کا ہر آن،ہر لمحہ،ہر وقت صرف اللہ کے دین کے قیام پر خرچ ہوا،ہجرت جیسا عظیم دن آپ ﷺ کی زندگی میں آیا، مکہ چھوڑ کر جاتے ہوئے بھی اللہ کے رسول ﷺ نے نہ توگزرے ہو ئے دنوں پر سوگ منایا، نہ ہی بعد میں کبھی مدینہ کی امارت کو اپنے لیے فخر کا ذریعہ بنا کر جشن منایا،آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو بھی یہی تربیت دی اور وہ پوری زندگی نبی ﷺ کے مطیع و فرماں بردار بنے رہے۔اپنی کامیابیوں پر رقص و سرود کی مجلسیں سجانے کے بجائے اللہ کے ذکر کی،دینی تعلیم و تربیت کی مجلسیں قائم کرتے، ایک دوسرے کو لغو و بے کار خوشیوں کے پیغامات دینے کے بجائے وہ اپنی خوشیوں اور نعمتوں پر ایک دوسرے کو اللہ کے محاسبہ سے ڈراتے اور اللہ کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کیا کرتے۔ اس عظیم الشان جماعت نے انجان دیس، اجنبی لوگوں کے درمیان الفت ومحبت کی مثال قائم کردی۔

ہماری عقلوں پر عجیب پردہ سا پڑا ہوا ہے، ہم غیرو ں کی گندگیوں کو تواپنائے ہوئے ہیں؛ لیکن کبھی ان کی مضبوط اقتصادی و تعلیمی زندگی پر دھیان نہیں دیتے ،ان کی کامیابیوں کی وجہ تلاش نہیں کرتے،ہم دیکھیں کہ امریکہ نے جب جاپان پر ایٹم بم گراکر اسے مفلوج کردیا تھا، پھر کیا ہوا؟محض کچھ سالوں بعد اپنی انتھک کوششوں سے جاپان نے اپنے سارے نقصانات کی بھر پائی کر ڈالی اور آج جاپان کیا ہے، ہم سب جانتے ہیں۔اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد اتحادیوں نے جر منی کا جو برا حال کیا تھا، اس کے بعد دنیا کے سبھی ماہرین کے لیے یہ نا قابلِ تصور بات تھی کہ جرمنی اب شاید کبھی ابھر پائے؛لیکن محض چند ہی سالوں میں دوبارہ اپنی پرانی شان و شوکت،علمی اور عملی قوت کے ساتھ ابھر پڑا،انہوں نے ہماری طرح اپنے اوقات جشن منا منا کر بر باد نہیں کیے، اپنے تباہ شدہ حالات کوبہترکرنے کاعزم کیااور پھر ساری قوم ایک ساتھ مل کر روزانہ اپنے ذاتی اوقات سے دو دو گھنٹے بلا معاوضہ کام کرتی رہی، یہاں تک کہ اس نے دنیاکے سامنے پھر سے اپنا کھویا ہوامقام حاصل کرلیااور ہمارا کیا حال ہے؟ہم نہ تو دین کے رہے اور نہ دنیا کے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی اصلاح کی توفیق سے نوازے۔ (آمین)

مضمون نگار کی رائے سے اداراہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ملک میں مسلمانوں کو اپنے وجود کا احساس دلانا ضروری ہے۔

سیاست سے حمایت تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے