پرامن ملت اسلامیہ کے افرادنے2جنوری 2015کو ان حملوں کے خلاف سویڈن کے دارالحکومت ’’اسٹاک ہوم‘‘میں پارلیمان کے سامنے ایک بہت بڑا مظاہرہ کیااور ایوان اقتدارکواپنے اوراپنی عبادت گاہوں کے تحفظ کی ذمہ داریوں کی یاددہانی کرائی۔اس مظاہرے کے دوران مسلمانوں نے جس نعرے کو اپنا منشور بناکر پیش کیااس کے الفاظ تھے کہ’’میری مسجد کو مت چھونا("Dont touch my mosque” )‘‘مظاہرین نے اس نعرے کے کتبے تھام رکھے تھے اور انہیں اپنے احتجاج کے دوران بلند کرتے تھے۔جمعۃ المبارک 2جنوری کو ہی ’’گوتھم برگ ‘‘اور’’مالمو‘‘نامی سویڈن کے شہروں میں بھی مسلمانوں نے بہت بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا۔یکے بعد دیگرے تین مساجد پر متواترحملوں نے سویڈن کے مسلمانوں کا پیمانہ صبر لبریز کر دیااور وہ اپنے شہری حقوق کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔تبصرہ نگار حیران ہیں کہ 2جنوری جیسے ٹھنڈے اور یخ بستہ دن میں اتنی بڑی تعدادمیں مسلمان کس طرح اپنے دینی جذبات سے سرشارسڑکوں پر مظاہرہ کررہے ہیں،جبکہ ایمان کی حرارت کودنیاکی کوئی برف باری منجمد نہیں کرسکتی۔ مسلمانوں کے متعددراہنماؤں نے مظاہرے سے خطاب کیااور خاص طور پر’’محمدخراقی(Mohammed Kharraki )‘‘نے کہاکہ ہم اپنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے باہر نکلے ہیں،انہوں نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ مساجد پر حملے دراصل سویڈن کی جمہوریت پر حملے ہیں کیونکہ مسلمان یہاں کے قانونی شہری ہیں ۔پورا یورپ جب نئے سال کی خوشی میں مصروف جشن تھا ،سویڈن کے مسلمان اپنی مساجداور زخمیوں کی تیمارداری میں لگے سیکولرازم کے لگائے زخموں کی مرہم داری کررہے تھے۔
جمعرات یکم جنوری 2015کو مشرقی سویڈن کے شہر’’اپسالا(Uppsala)‘‘میں ایک مسجد پر پٹرول بم ماراگیا،اگرچہ سیکولردہشت گردپوری تیاری سے آئے تھے لیکن بم پھٹتے ہی وہاں موجود مسلمان فوری طورپر حرکت میں آگئے تو مسجد کی عمارت کو آگ لگنے سے بچالیاگیااور یوں بڑا نقصان نہ ہوسکا۔اس سے پہلے دسمبر2014کے آخر میں ’’ایسلوو(Esloev)‘‘سویڈن کے جنوبی شہرمیں اسی طرح ایک مسجدکو نذرآتش کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور سیکولرحملہ آوراپنی کاروائی ے بعد بھاگ نکلے تھے لیکن اس دفعہ بھی اﷲتعالی کی مدد شامل حال رہی اور کسی طرح کے بھی نقصان سے بچت ہوگئی۔جبکہ جمعرات 25دسمبر کوسویڈن کے اورشہر’’ایسکی لستونا(Eskilstuna)‘‘میں بھی ایک مسجدودعوہ مرکزکوجان بوجھ دیدہ دانستہ آگ لگانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں مسجد کی عمارت کو شدید نقصان پہچااور پانچ افراد زخمی بھی ہو گئے۔یہ مسجدایک رہائشی عمارت کی زمینی منزل پر واقع ہے۔یہاں پر پندرہ سے بیس مسلمان جب کہ ایک اور اخباری اطلاع کے مطابق ساٹھ سے ستر کی تعداد میں مسلمان ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے کچھ حملہ آوروں نے مسجد کو آگ لگادی،مقامی ذرائع ابلاغ نے مسجد کی کھڑکیوں سے نکلتے ہوئے شعلے بھی دکھائے۔اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کے نمائندے’’لیرس فرانزیل(Lars Franzell)‘‘ نے صحافیوں کو بتایا کہ عینی شاہد کے مطابق ایک آدمی نے کوئی چیزمسجد کی کھڑکی سے اندر پھینکی اور پھر آگ بھڑک اٹھی ۔انتظامیہ کے نمائندے کے مطابق پولیس اس واقعہ کے ذمہ داروں کو تلاش کررہی ہے لیکن ہنوز کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔کیا طرفہ تماشاہے کہ اس طرح کے واقعات سے اگر خود کو زک پہنچے تو دوسری دنیاؤں سے بھی ’’ذمہ داران‘‘کو ڈھونڈ نکالا جاتاجاہے خواہ وہ ہزارہا میل کے فاصلوں پرافق کے اس پار پہاڑوں کی غاروں میں چھپے بیٹھے ہوں۔
حیرت کی بات ہے کہ سیکولرمغربی ذرائع ابلاغ نے دین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کھلی اور اظہر من الشمس کاروائیوں کونسلی تعصب کانام دے کر رپورٹ کیاہے۔سوال یہ ہے کہ سویڈن کے شہریوں کو اگر ایشیائی باشندوں کے خلاف اتنی ہی نفرت ہے تو یہ نفرینی جذبات کسی اور مذہب کے پیروکاروں کے خلاف کیوں بلند نہیں ہوتے اورہمیشہ مسلمان اور مسلمانوں کی مساجد ہی ان کا نشانہ کیوں بنتے ہیں؟؟؟۔یہ تمام واقعات جب اہل حل و عقد کے علم میں لائے گئے توسویڈن کی وزیرثقافت’’الائس باخنکی(Alice Bah Kuhnke)‘‘نے کیاخوبصورت تبصرہ کیاکہ سرکاری سطح پر’’اسلام فوبیا‘‘سے نپٹنے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔سیکولرازم کے تحفظ کے لیے توپیشگی دفاع کے نام پر لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کیاجاسکتاہے لیکن مسلمانوں پر حملے ہو چکنے کے بعد بھی منصوبہ بندی کی تیاریاں ابھی قانونی مراحل میں ہیں۔گویا قوم شعیب کے پیمانے اب سیکولرازم نے تھام رکھے ہیں۔تادم تحریر ان کاروائیوں کے ذمہ داران قانون کی گرفت سے آزادہیں۔سویڈن میں ایک رسالے ’’Expo‘‘نے یہ بھی انکشاف کیاہے کہ گزشتہ سال2014کے دوران مساجدپراس طرح کے درجنوں حملے کیے گئے لیکن انہیں کسی خبررساں ادارے نے رپورٹ نہیں کیااور اس بار بھی مظاہروں کے باعث یہ خبر باہر نکلی ہے اور دنیاکو معلوم پڑا ہے۔شاید اسی لیے ’محمدخراقی نے کہا کہ سویڈن جیسے ملک میں بھی اب لوگ خوف زدہ ہیں۔حملہ آوروں کو تحفظ دینے والے عناصر ان حملوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ مسلمان حلقوں کااسرارہے کہ کہ یہ سیاسی حملے نہیں ہیں بلکہ مجرمانہ کاروائیاں ہیں۔ابن رشد ایجوکیشنل ایسوسی ایشن سویڈن(Ibn Rushd Educational Association)،نے ان مظاہروں کااہتمام کیاتھا،اس تنظیم کے ایک ذمہ دار نے ریڈیوسویڈن کو بتایا جب پڑوس میں مسجد پر بمباری ہورہی ہو تو کوئی امن سے کیسے رہ سکتاہے۔عمر مصطفی جو کہ سویڈن کی اسلامک ایسوسی ایشن کے چئرمین ہیں انہوں نے کہا ہے کہ مساجد پر حملوں سے سویڈن کے مسلمان بہت پریشان ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات پر حملے دراصل مذہبی آزادی پر حملے ہیں جس سے پورے ملک کاانسانی معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوگا۔
بظاہر یہ تاثر دیاجارہاہے کہ سویڈن میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی کثرت نے یہ حالات پیداکیے ہیں اوران لوگوں میں اکثریت ان افرادکی ہے جنہوں نے سویڈن حکومت کوسیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔اول تو سیکولرازم کی تاریخ اس دعوی کی نفی کرتی ہے لیکن اگر اس بات کو بالفرض محال درست بھی مان لیاجائے توکیایہ ایک عالمی حقیقت نہیں ہے کہ اس وقت دنیابھرکی سیاست اور معیشیت پر اور زمین میں دفن خزانوں پر قبضے کے مکروہ عزائم نے باقی تمام دنیاؤں کو سیاسی ابتری اور معاشی بدحالی کے اس مقام تک پہنچایاہے کہ لوگ مجبور ہوکر سویڈن جیسی خوشحال زمینوں کا رخ کرتے ہیں۔اس وقت یورپ کے خوشحال ترین ممالک تیسری دنیاکی غربت،جہالت اور افلاس کی قیمت پر اپنی عیاشیوں کو قرطاس تاریخ پر رقم کرتے چلے جارہے ہیں۔دنیابھرکے انتہائی قیمتی خام وسائل بہت تھوڑی قیمت کے عوض یامغربی جنتوں میں صرف چندایام کی سیر کے عوض یورپی ممالک میں منتقل کر دیے جاتے ہیں اور پھروہاں پراس خام مال سے تیارشدہ صنعتی پیداواربھاری بھرکم شرح سوداور عریانی و فحاشی کے عوض غریب ممالک کی گردنوں پرتھونپ دی جاتی ہیں،اور پھر بھی ’’طلب و رسد‘‘میں مطلوبہ گراف حاصل نہ ہوتو سیکولر سرمایادارانہ نظام نے اپنی مصنوعات کی مصنوعی مانگ بڑھانے کے لیے اشتہاربازی کے ذرائع تلاش کررکھے ہیں،ان سب اقدامات کے نتائج تیسری دنیاکی غریب عوام کو غربت اورجہالت کی دلدل میں مزیددھنساتے چلے جاتے ہیں اور جب ان عوام کا دم گھٹنے لگتاہے اور وہ یورپ کی طرف رخ کرتے ہیں تو یورپ کے سیکولر ان کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو جلاکران کے خلاف اپنے بدبودارجذبات کا اظہارکرتے ہیں۔
دنیاکاسرمایاجب تک یورپ کا رخ کرتارہے گااور سود اور ننگ نسوانیت سے بھری ہوئی سرمایادارانہ معیشیت جب تک باقی دنیاؤں کوبرآمدہوتی رہے گی تب تک اس کرہ ارض پرامن عالم کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔حقیقت یہی ہے کہ سیکولرازم نے دنیامیں لوٹ ماراورقتل و غارت گری کے بازارکوگرم رکھنے کے لیے انسانیت کالبادہ اوڑھ رکھاہے ۔صنعتی انقلاب سے انقلاب فرانس تک اورفرد کی غلامی سے اقوام کی گردنوں میں طوق غلامی ڈالنے تک اس سیکولرازم نے کذب و نفاق کے جتنے پینترے بدلے ہیں آج اس کی حقیقت طشت ازبام ہو چکی ہے اوراب قلب یورپ سمیت کل دنیااپنے حقیقی رب کو پہچاننے میں بڑی سرعت کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے،ہرطلوع ہوتاہواسورج گزشتہ دن کے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر پیروان ختمی المرتبتﷺکی تعدادومعیارمیں اضافہ کرتاچلاجارہاہے اور اب تو شرق وغرب سے ٹھنڈی ہوائیں مایوسیوں کی گردکو اڑاتی چلی جارہی ہیں اور غلامی کے باقی ماندہ منحوس سائے بھی چھٹنے کو ہیں،انشاء اﷲتعالی۔
جواب دیں