دونوں طریقوں میں جانور کے سر پر پستول رکھ دی جاتی ہے اور پھر فائر کردیا جاتا ہے۔ پینیٹریٹنگ طریقہ میں سر کے اوپر بولٹ کے استعمال کے ذریعہ جسمانی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یہ کہا جا تا ہے کہ زخم کی وجہ سے جانور بے ہوش ہوجاتا ہے بہر حال پینٹرٹینگ طریقہ سے متعلق ریسرچ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جانور فوری طور پر مر جاتے ہیں ۔ نان پینٹرینگ بندوق سے کمپر یسڈ ایئر کے ذریعہ اسی مقام پر بولٹ فائر کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جانور بے ہوش ہو جایا کرتا ہے۔ دونوں ہی طریقوں میں خون بہانے کا عمل جانور کے بے ہوش ہوجانے کے بعد اس کا گلا کاٹ کر کیا جاتا ہے۔
غذا کے طور پر جانور کو ذبح کئے جانے پر سپریم کورٹ کا موقف یہ ہے کہ جانوروں کو بوقت ذبح کم سے کم تکلیف پہنچائی جائے، نیز یہ کہ ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہ کیا جائے ۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کا یہ بھی موقف ہے کہ جانوروں کو ذبح کر تے وقت اپنائے جانے والے طریقے مختلف مذاہب کے پیروکار کے مذہبی عقائد سے متصادم نہ ہوں اس لئے کہ یہ حق انہیں 1960 کے ایک قانون سے فراہم کیا گیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی مذہب میں باعزت طریقے سے جانوروں کو ذبح کئے جانے کے طریقے کو یہ ایکٹ اثر انداز نہیں کرسکتا کیونکہ انہیں اپنے مذہب کے مطابق جانوروں کو ذبح کرنے کی اجازت ہے۔ 2001 میں سلاٹر ہاؤس کے قوانین مرتب ہوئے جس میں جانوروں کو ذبح کئے جانے سے متعلق کوئی خاص قانون کا التزام نہیں کیا گیا۔
گزشتہ سو سالوں سے بھی زیادہ سے جانوروں کو ذبح کرنے سے متعلق اسلامی اور یہودی طریقہ کارموضوع بحث رہا ہے ۔ اور بہت سی آرا بھی پیش کی گئی ہیں۔
مسلمان اور یہودی جانوروں کا گلا کاٹ کر ذبح کرتے ہیں اور یہ طریقہ ان کے مذاہب کی ابتدا سے ہی رائج ہے۔ غیراسلامی اور غیر یہودی فرقوں کے علاوہ دوسرے مذاہب میں جانوروں کو ذبح کرنے کا روایتی طریقہ ہتھوڑا یا کٹار ہے۔ یہ طریقہ 1904 تک رائج تھا جسے بعد میں میکنیکل طریقے میں تبدیل کردیا گیا ۔ہتھوڑا اور کٹار کے ذریعہ ذبح کرنے کے سسٹم میں جانوروں کے سر پر ہتھوڑے سے ضرب لگا کر کٹاری سے جانوروں کی گردن کو کا ٹا جاتا تھا۔ بلاشبہ یہ دونوں طریقے مقابلۃًدردناک اور وحشیانہ تھے۔
دوسری طرف اسلامی اور یہودی طریقے میں سختی سے اس بات کی ہدایت دی گئی ہے کہ جانوروں کو ذبح کرتے وقت کم سے کم تکلیف پہنچائی جائے اور تیز ہتھیار سے انہیں ذبح کیا جائے۔ مذہب اسلام میں تو جانوروں کے ذبح سے متعلق سخت ہدایت دی گئی ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ جانوروں کو ذبح کرتے وقت ہتھیار نہ دکھایا جائے اور ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کیا جائے ۔ سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ گلا کو گہرا کانٹے پر شہ رگ کے ذریعہ دماغ تک پہنچنے والا خون فوراً بند ہو جاتا ہے اور اس کا تعلق دماغ سے جلد ہی کٹ جاتا ہے ۔
اس طرح شریانوں سے تیز ی کے ساتھ خون بہنے پر 25% خون کا پریشر پہلے تین سیکنڈ میں گرجاتا ہے اور اس کی وجہ سے جانور پہلے دس سیکنڈ میں ہی مر جاتا ہے۔ اس طرح ذبح کرنے کا یہ ایک موثر طریقہ ہے۔ جانورو ں کے جسم کے حصّے کو اینٹھ کر ذبح کرنے کا طریقہ تقریباًختم ہو چکا ہے۔ لیکن یہ طریقہ بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ جانور اس سے شدید تکلیف سے دو چار ہوتا ہے۔ گلے کو گہرا کاٹنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ 10-15 سیکنڈ میں 50% خون گر جاتاہے اور خون جانور کے گوشت میں نہیں جمنے پاتا اور گوشت مائیکر وبایو لوجیکل انفیکشن سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
دوسری طرف ذبح کرکے کاسی بی پی طریقہ جو 1919 میں وجود میں آیا اسے بھی موثر طریقہ نہیں سمجھا گیا اور اس کی جگہ الیکٹریکل طریقہ لایا گیا۔ اس طریقے میں جانور کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے تقریباً 50 وولٹ سات سیکنڈ تک سپلائی کیا جاتا تھا لیکن کچھ مذہبی بنیاد پر اسے بھی ختم کردیا گیا اور اس کی جگہ پر کیمیکل طریقہ لایا گیا۔ الیکٹریکل طریقہ کی طرح کیمیکل طر ح بھی کم دردناک ثابت نہیں ہوا اور مذکورہ دونوں طریقے بھی بند کردیے گئے ۔ آخر کار پھر غیر اسلامی اور غیر یہودی سی بی پی نان پینٹریٹنگ طریقہ پھر رائج کیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے جانور بے ہوش ہو جاتا ہے اور پھر اس کے بعد اس کا گلا کاٹا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مجوزہ طریقہ کسی بھی طرح گلے کو گہرا کاٹنے سے بہتر ہے۔
جرمنی کے ایک مشہور محققSchutlze-Petzold نے 1973 میں(Electroen Cephalogrophy (EEG) پر تحقیق کرتے ہوئے بلڈپریشر اور برین پریشر پیمائش ،انجیو گرافی ریفلیکس اسٹڈیز کے درمیان مرنے والے جانور کے ذریعہ برداشت کئے جانے والے درد/ وقت کے عوامل پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے تکالیف کامطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اگر گلے کو گہرا کاٹنے کا طریقہ سی بی پی کے مقابلے کم دردناک نہیں ہے تو یہ اس کے مقابلے زیادہ و حشیانہ بھی نہیں ہے ۔ اگر یہ صورتحال ہے تو اس مسئلے پر قانون سازی کی ضرورت نہیں اور کوئی خاص طریقہ جو مذہبی اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہے، اسے جبری نہیں بنانا چاہئے۔
جواب دیں