عائشہ رینا اور لدینہ فرزانہ -جامعہ احتجاج کا دو جرأت مندانہ چہرہ
عبدالعزیز
پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک لرزہ خیز واقعہ اور پورنیہ بہار کے ایک جلسہ عام میں کنہیا کمار کی شجاعت مندانہ تقریر بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں وائرل کی جارہی ہے۔ جلسہئ عام کو خطاب کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار نے کہا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جس طرح دہلی پولس نے بربریت اور ظلم و زیادتی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے جلیانوالہ باغ کے سانحہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ بلا اجازت یونیورسٹی کے اندر گھس کر پولس نے ظالمانہ اقدام کیا۔ یونیورسٹی کے لڑکے اور لڑکیوں پر لاٹھی چارج کیا۔ گیس کے گولے چھوڑے۔ گولی اور بندوق کا استعمال کیا۔ جامعہ کے دو طلبہ پولس کی گولی کے شکار ہوئے۔ ایک طالب علم کے سینے میں گولی پیوست ہوگئی جسے مشکل سے صفدر گنج اسپتال کے ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے نکالا۔ دوسرے کو بھی گولی لگی۔ دونوں اس وقت آئی سی یو میں ہیں۔ یونیورسٹی کے باہر ایک راہ گیر کو بھی گولی لگی وہ بھی اسپتال میں زیر علاج ہے۔ تینوں زخمیوں کی تصویر ’این ڈی ٹی وی‘ اور دوسرے چینلوں نے دکھایا ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی یہ تصویریں وائرل ہورہی ہیں۔ پھر بھی دہلی پولس بے حیائی اور ڈھٹائی کا یہ حال ہے کہ اپنے ظلم سے انکار کر رہی ہے اور صریحاً جھوٹ بول رہی ہے کہ پولس نے بندوق یا پستول کا استعمال نہیں کیا۔ پریس کانفرنس میں ڈٹ کر جب ایک نامہ نگار نے دہلی پولس کے ایک بڑے افسر سے سوال کیا کہ گولی کے شکار طالبعلموں اور راہ گیر کو نہیں دیکھا؟ جو آپ جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ اس پر پولس افسر نے کہاکہ ویڈیو کی جانچ ہورہی ہے اور جو بھی قصور وار ہوگا اسے بخشا نہیں جائے گا۔ یہ دہلی پولس کی چہرہ چھپانے والی بات تھی۔
جامعہ احتجاج کے دو بڑے اور بہادر چہرے: جو واقعہ سب سے زیادہ وائرل ہورہا ہے وہ کیرالہ کی دو بہادر اور شجاعت مند لڑکیوں سے متعلق ہے۔ دونوں لڑکیاں 22سالہ اور شادی شدہ ہیں۔ ان کا کیرالہ سے تعلق ہے۔ دونوں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی طالبات ہیں۔ ایک کا نام عائشہ رینا اور دوسرے کا نام لدینہ فرزانہ ہے۔ ان دونوں لڑکیوں کا جرأت مندانہ کردار گزشتہ اتوار کی شام سے سوشل میڈیا میں وائرل کیا جارہا ہے۔ یہ دونوں خواتین نے ایک لڑکے شاہین عبداللہ کو ظالم پولس والوں کے چنگل سے لڑجھگڑ کر بچانے کی کوشش کی۔ دونوں خواتین شاہین عبداللہ کیلئے ڈھال بن گئیں۔ پولس کو ڈانٹنا اور ڈپٹناشروع کیا کہ خبردا جو مزید لاٹھی چلانے کی کوشش کی۔ پولس گروپ بناکر شاہین پر ٹوٹ پڑی تھی اور بے تحاشہ لاٹھیوں سے اس کی پٹائی کر رہی تھی۔ جان جوکھم میں ڈال کر ان حجابی بہنوں نے پولس والوں سے شاہین کی جان بچائی۔ عائشہ رینا اپنی سہیلی لدینہ فرزانہ کا ہاتھ پکڑا جبکہ چاروں طرف ٹیئر گیس چھوڑنے کی وجہ سے دھواں پھیل چکا تھا اور دونوں کیلئے سانس لینا محال تھا۔ دونوں نے ایک محفوظ جگہ پناہ لی لیکن جب پولس طالبعلموں پر حملے کر رہی تھی اور ان کا پیچھا کر رہی تھی تو ان دونوں لڑکیوں کو بھی پولس نے کہاکہ وہ گیراج سے باہر آجائیں۔ دونوں نے یہ سوچا کہ لڑکی ہونے کی وجہ سے شاید پولس ان پر حملہ نہ کرے۔ اسی اثنا میں دونوں لڑکیوں کے ایک ساتھی شاہین عبداللہ پر پولس لاٹھی ڈنڈے سے پل پڑی۔ شاہین عبداللہ جرنلزم کا ایک طالب علم ہے، اس نے کالج کارڈ کے ساتھ ساتھ پریس کارڈ بھی دکھایا پھر بھی پولس اس پر حملے سے باز نہیں آئی۔ شاہین نے اپنے بچاؤ کیلئے لڑکیوں کی طرف بھاگا تو پولس نے گروپ بناکر اسے باہر آنے کیلئے کہا۔ شاہین عبداللہ نے پریس کو بتایاکہ ”لڑکیاں ڈھال بناکر میرے ارد گرد کھڑی ہوگئیں پھر بھی پولس نے میرا کالر پکڑ کر گیراج سے باہر کھینچا۔ لڑکیاں پولس والوں کے سامنے دلیری اور بہادری سے کھڑی ہوگئیں اور ’واپس جاؤ، واپس جاؤ‘ کا نعرہ لگانے لگیں۔ پولس تمام کوششوں کے باوجود مجھے لڑکیوں کے محاصرے سے نکال نہیں سکی۔ اس طرح پولس سے میری جان بچی“۔
عائشہ رینا جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تاریخ میں ’ایم. اے‘ کی طالبہ ہے۔ اور لدینہ فرزانہ عربی میں ’بی. اے‘ کر رہی ہے۔ پولس کی زیادتیوں اور ظلم سے تقریباً 200 طالب علم زخمی ہوئے ہیں۔ دونوں نے مشہور صحافی برکھا دت کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”ان کے شوہروں اور خاندان والوں کی پرزور حمایت حاصل ہے۔ ہم دونوں کے کاموں سے ہمارے خاندان والے اور عزیز و اقارب بے حد خوش ہیں“۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علموں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے خلاف گزشتہ روز ملک کی تقریباً پچیس تیس یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے ملک بھر میں صدائے احتجاج بلند کیا ہے اور مظلوموں کے ساتھ یکجہتی اور اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے سے فرقہ پرستوں کے نہ صرف کان کھڑے ہوگئے بلکہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ نرملا سیتا رمن نے جن کا تعلق کیرالہ سے ہے جواہر لعل یونیورسٹی کی طالب علم رہ چکی ہیں کہا ہے کہ پورے ملک میں ماؤ وادی اور نکسل گروپ کے لوگوں نے طالب علموں کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے نرملا سیتا رمن جن کو کانگریسی لیڈر ادھیر چودھری ’نربلا‘ کہتے ہیں سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے۔ انھوں نے کہاکہ تشدد کرنے والے اپنے ایک خاص قسم کے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ مودی جی خود کرتا پیجامہ پہنتے ہیں لیکن کرتا پیجامہ پہننے والوں کی طرف اشارہ کرکے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ یہ مظاہرہ کر رہے تھے وہ مسلمان تھے۔ حالانکہ اتنا بڑا مظاہرہ تھا کہ صرف مسلمان طالب علموں سے اتنا بڑا مظاہرہ ممکن نہیں تھا۔
بنارس، کلکتہ، ممبئی، حیدر آباد، پٹنہ، کیرالہ، چنئی، پانڈیچری، گوہاٹی، الہ آباد، لکھنؤ الغرض کوئی ایسا بڑا شہر نہیں ہے جہاں طلبا و طالبات نے مظاہرہ نہ کیا ہو۔ جنتر منتر میں بھی بڑے پیمانے پر طالبعلموں، نوجوانوں کا مظاہرہ ہوا۔ نوجوانوں اور طالبعلموں کے مظاہروں کے ساتھ ساتھ ممتا بنرجی کیرالہ کی دو جماعتوں کانگریس اور سی پی ایم کے لیڈروں کا مظاہرہ اور پرینکا گاندھی کا انڈیا گیٹ پر دھرنا، پورنیہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہرے، جلسے اور جلوس کا لامتناہی سلسلہ فرقہ پرستی اور فسطائیت کیلئے "Waing Bell" (خطرے کی گھنٹی) سے کم نہ تھی۔ ’این آر سی اور شہریت ترمیمی بل کے پاس ہوجانے کے بعد ملک بھر میں جو بے چینی اور بے قراری تھی وہ دو تین روز میں احتجاج اور مظاہرے کی شکل میں اُبل پڑی۔ جامعہ ملیہ کے طلبہ نے مظاہرے کرکے اور خاص طور پر طالبات نے اپنا دلیرانہ و بہادرانہ کردار کا مظاہرہ کرکے ایک طرح سے پورے ملک کو بیدار کردیا ہے۔ ایسی بہادر اور جانباز بہنوں کو سارے ملک کو سلام کرنا چاہئے اور تمام جیالے نوجوانوں کو بھی ان کے نقش قدم پر آگے آنا چاہئے۔
جامعہ ملیہ کی ایک اور لڑکی جس نے روتے ہوئے بہتوں کو رلادیا ہے اس کا نام اگر چہ کہیں ظاہر نہیں کیا گیا ہے لیکن اس نے کہا ہے کہ جس طرح کا ظلم اور جبر ہم سب پر ہوا ہے اس کی کوئی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ لائبریری میں پڑھتے ہوئے لڑکے لڑکیوں پر لاٹھی چارج کرنا، بندوق چلانا، مارنا پیٹنا، کینٹین اور باتھ روم میں گھس کر لڑکے لڑکیوں کو باہر نکال کر گالی گلوج کے ساتھ ان کو زدوکوب کرنا کچھ ایسی چیزیں جو دیکھنے میں مشکل سے آتی ہیں۔ رپورٹروں نے جب اس سے پوچھا کہ تم اب کہاں جارہی ہو؟ تو اس نے کہا کہ میں اب کہاں جاؤں گی مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میں ہوسٹل میں اپنا سامان لانے گئی تھی وہاں پولس نے مجھے گالیاں دیں اور برا بھلا کہا۔ اس نے کہا کہ کیا یہی جمہوریت ہے کہ ہمیں پرامن مظاہرہ کرنے تک کا حق نہیں دیا گیا۔ پرامن مظاہرے کی وجہ سے ہمارے بھائی بہنوں کو مارا پیٹا گیا۔ کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں؟ کیا یہ فسطائیت نہیں ہے؟ کیا یہ آمریت کی علامت نہیں ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ 1935ء میں ہٹلر نے جب ایک قانون "Nurebeg"بنایا تھا تو وہ قانون یہودیوں کے خلاف تھا لیکن ہٹلر کہتا تھا کہ یہ قانون یہودیوں کے خلاف نہیں ہے اور اس سے یہودیوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح امیت شاہ نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اور اس کے باہر اکثر و بیشتر کہہ رہے ہیں کہ شہریت ترمیمی ایکٹ یا قانون مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے جبکہ پورا قانون مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا ہے۔ دھرم کے نام پر ہٹ دھرمی کیلئے بنایا گیا ہے۔ پھر بھی مودی-شاہ ہٹلر کی زبان میں بول رہے ہیں کہ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ ہندستان بھر میں جو مظاہرے ہورہے ہیں ان دونوں کو راس نہیں آرہے ہیں۔ ان کو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی امید کے برخلاف ہورہا ہے۔ وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ہندستان ایک دن جاگ جائے گا اور ملک بھر میں بیداری کی لہر پھیل جائے گی اور کشمیر سے کنیا کماری تک ان دونوں کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔
انوراگ کیشب نے جو رائٹر، ڈائرکٹر، پروڈیوسر اور ایکٹر ہیں کہا ہے کہ جو کچھ پورے ہندستان میں مرکزی حکومت کے ذریعے ہورہا ہے اس پر خاموش رہنا ظلم کے مترادف ہے۔اب ضروری ہوگیا ہے کہ ہرکوئی منہ کھولے، ورنہ ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ سوارا بھاسکر نے جو ایک مشہور ایکٹر ہیں کہا ہے کہ اب مودی اور شاہ نے جبر و ظلم کی حد کردی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے لڑکے اور لڑکیوں پر جو ظلم ہوا ہے ویسا ظلم انگریزوں کے زمانے میں بھی نہیں ہوا۔ حالانکہ ملک میں جمہوریت ہے اور ملک کا ایک دستور ہے۔ ہر شہری اور ہر گروپ کو مظاہرے اور احتجاج کرنے کا حق ہے۔ این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کالے قانون کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کے خلاف ملک کے ہر شہری کو احتجاج اور مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ملک کے ہر گوشے اور ہر کونے سے مودی-شاہ حکومت کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ کیا یہ فسطائیت اور آمریت کی موت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا؟
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں