عبدالعزیز
جہاں بھاجپا کی ریاستی حکومتیں ہیں وہاں ظلم و بربریت کی ساری حدیں پار کر گئی ہیں۔ خاص طور پر دہلی اور اتر پردیش میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے اسے الفاظ کا جامہ بھی نہیں پہنایاجاسکتا۔ 15دسمبر2019ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں پر دہلی پولس نے بے انتہا ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ کا دروازہ انصاف کیلئے سابق اور موجودہ طلبہ کی کمیٹی نے کھٹکھٹایا تھا لیکن سپریم کورٹ کے ججوں نے اس ظلم اور بربریت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔عرضی گزار کو دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی صلاح دی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ نے اسے معمولی واقعہ سمجھ کر شنوائی کی لمبی تاریخ دے دی۔ پولس کے ظلم و جبر پر اگر عدالتوں کا بھی یہ رویہ رہتا ہے تو بہت ہی افسوس کا مقام ہے، کیونکہ دستور اور آئین کی حفاظت کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔
گزشتہ روز (16فروری) جامعہ ملیہ کی لائبریری میں گھس کر پولس نے جس ظلم اور بربریت کا ننگا رقص کیا تھا اس کا ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ تقریباً تمام قومی چینلوں نے اسے اپنے اسکرین پر دنیا کو دکھایا ہے۔ اس سے پوری دنیا کو معلوم ہوگیا کہ ہندستان کی راجدھانی جہاں سے پورے ملک کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں کے نظم و نسق کا کیا حال ہے؟ ایک واقعہ کا نہیں بلکہ دو واقعے کا ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ ایک واقعہ پولس کالائبریری میں غنڈہ گردی اوربدمعاشی کا ہے اور دوسرا واقعہ جب طالب علم بڑی تعداد میں باہر نکل رہے تھے تو ان کا راستہ روک کر اور دروازہ بند کرکے پولس کی طرف سے سفاکانہ اور ظالمانہ قسم کی بربریت کا مظاہرہ ہے۔ طالبعلموں کو لاٹھی اور ڈنڈے سے بغیر کسی وجہ کے مارنا اور پیٹنا اور انھیں باہر بھی نکلنے نہیں دینا کس قدر شرمناک اور افسوسناک ہے؟ ہندستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار ’دی ٹیلیگراف‘ نے اس پورے منظرکو پولس کی شیطنت سے تعبیر کیا ہے۔ طلبہ کو زدوکوب کرنے والی تصویریں صفحہ اول پر نمایاں طور پر شائع کی ہے اور اس کی رپورٹ بھی تفصیل سے چھاپی ہے۔ ایک لاء اسٹوڈنٹ منہاج الدین کی ایک آنکھ میں زبردست چوٹ آئی تھی اور آنکھ لہولہان ہوگئی تھی۔ اسے اسپتال بھی جانے نہیں دیا گیا۔ اس کی بینائی چلی گئی۔ بڑی مشکل سے اس کے دوستوں نے کئی گھنٹے کے بعد الشفا ہوسپیٹل اسے ایمبولینس سے لے گئے۔ اسے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس جانے کی صلاح دی، جہاں کوئی اسپیشلسٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسے انسٹیٹیوٹ کے راجندر پرساد سنٹر میں بھرتی کرنا پڑا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ منہاج الدین کی بینائی کا واپس آنا مشکل ہے۔
’دی ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار کو مریض طالب علم نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی صلاح ہے کہ آنکھ بچانے کیلئے ایک ہی آپشن ہے کہ وہ بیرون ملک چلا جائے۔ مریض نے بتایا کہ اس کی حیثیت باہر جانے کی بالکل نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی مدد کی ہے جس سے وہ اپناعلاج کرا رہا ہے۔ اس کے والد سمستی پور (بہار) میں اسکول ٹیچر ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے مقامی ایم ایل اے امانت اللہ خان نے پانچ لاکھ روپئے کا چیک علاج کیلئے دیا ہے۔ منہاج الدین نے بتایا کہ اس کی ایک انگلی بھی فریکچر ہوگئی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دی ہے جس کی سماعت کی تاریخ 30 اپریل دے دی گئی ہے۔ منہاج الدین نے بتایا ہے کہ اس نے دہلی کے پولس کمشنر اور لیفٹیننٹ گورنر کو شکایت نامہ بھیجا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مجسٹریٹ کو کارروائی کرنے کیلئے دیا ہے پھر بھی ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جامعہ کو آر ڈی نیشن کمیٹی نے جو سابق اور موجودہ طلبہ کی کمیٹی ہے سی سی ٹی وی فوٹیج گزشتہ سنیچر کو ریلیز کیا ہے۔ جسے ٹیلی ویژن چینلوں نے نشر کیا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ پولس کس طرح مطالعے میں منہمک طالبعلموں کی پٹائی کر رہی ہے اور ان کو نکلنے یا بھاگنے کا راستہ بھی نہیں دے رہی ہے۔ ٹیئر گیس کی وجہ سے طالب علم بھی اپنے منہ پر کپڑے ڈالے ہوئے ہیں اور پولس بھی منہ چھپاکر ظالمانہ کارروائی میں مشغول ہے۔
CAAکے خلاف احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے گروپ کی جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی نے کہا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے یونیورسٹی کیمپس میں پولس کے ظلم و بربریت کا ثبوت پورے طور پر آشکار ہوا ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کہاہے کہ اس کی طرف سے ویڈیو کلپس کو افشا نہیں کیا گیا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعد جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بھی بی جے پی کی طلبہ وینگ اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) نقاب پہن کر رات کی تاریکی میں طلبہ اور طالبات پر ظلم و ستم ڈھائے۔ اس کاویڈیو بھی وائرل کیا گیا۔ٹی وی چینلوں میں بھی اسے دکھایا گیا۔دونوں یونیورسٹیوں میں واقعات ڈیڑھ دو ماہ سے پہلے ہوئے مگر پولس کی طرف سے کوئی کارروائی اب تک نہیں ہوئی۔دہلی اور یوپی کے اس طرح کے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کا اور اس کی حکومت کا اپنے مخالفین کو دبانے، ستانے اور ظلم و ستم ڈھانے اور قتل و غارت گری کرنے کا کھلا ایجنڈا ہے۔ ایسے لوگوں کو جو پولس میں ہیں اگر وہ اپنے فرائض کو صحیح ڈھنگ سے نبھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا بھی کام سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں سے تمام کرادیا جاتا ہے۔ بلند شہر کے پولس افسر سبودھ کمار سنگھ پریوار کے نوجوانوں نے اس وقت قتل کردیا جب وہ امن و امان کی کوشش کررہا تھا۔ ملزمین جب ضمانت پر باہر آئے تو ان کا کھلے عام خیر مقدم کیا گیا اور ان کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا گیا،جیسے انھوں نے بہت بڑے پُن کا کام کیا ہو۔ یہ تو ہے بھاجپا اور آر ایس ایس کے کارکنوں کا کردار جویوپی،بہار میں عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ مظفر نگر (یوپی) کے مجرموں کو ایم پی کیلئے ٹکٹ دیا گیا۔ مسٹر نریندر مودی نے انتخابی اسٹیج پر ایسے لوگوں کو پھولوں کا ہار پہنایا۔ بہار میں بھی ہزاری باغ کے ایم پی اور سابق مرکزی وزیر جینت سنہا نے ماب لنچنگ کے سات مجرموں کو ضمانت پر رہا ہونے کے بعد خیر مقدم کیا تھا اور پھولوں کا مالا پہنایا تھا۔ بی بی سی ورلڈ کے نامہ نگار کو مسٹر جینت سنہا نے بتایا کہ مجرموں کی مالی مدد بھی ان کی طرف سے کی گئی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مجرمانہ اورظالمانہ کام کرنے والوں کی پذیرائی بھاجپا کے لوگوں کے ذریعہ عام ہے۔ خواہ قتل کا مجرم ہو یا عصمت دری کا مجرم ہو یا کسی اور سنگین جرم کا اتکاب کیا ہو۔
امیت شاہ سے ’ٹائمس ناؤ‘ کے اینکر نے انٹرویو لیتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں پر جو ظلم و ستم ہوا تھا اس کے سلسلے میں سوال کیا تو جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ ”پولس نے امن و امان کیلئے نہایت مناسب کارروائی کی ہے“۔ اسی انٹرویو میں انھوں نے انتخابی مہم کے دوران ان کے ایم پی اور وزیروں کی طرف سے جوگالیوں، گولیوں اور دھمکیوں کا مظاہرہ کیا گیا تھا اس کے بارے میں کہاکہ وہ مناسب نہیں تھا؛ یعنی گالی اور دھمکی الیکشن میں ہارنے کی وجہ سے نامناسب تھا لیکن پولس کی طرف سے بلا کسی سبب کے بے گناہ اور بے قصور طالبعلموں کو مارنا پیٹنا مناسب تھا۔ اسی طرح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں پر اے بی وی پی کے ممبروں کا ستم ڈھانا بھی امیت شاہ کے نزدیک نامناسب نہیں تھا۔
اگر کسی ملک کا وزیر داخلہ پولس اور اپنے لوگوں کی ظالمانہ کارروائیوں کو مناسب سمجھتا ہے اور کارروائی کرنے کو نامناسب سمجھتا ہے تو اس ملک کی کیا حالت ہوگی ہر کوئی سمجھ سکتا ہے؟ دہشت گردی کے سلسلے میں ملک میں زبردست قانون ہے اور مرکزی حکومت کہتی ہے کہ دہشت گردی اور تشدد کیلئے اس کے پاس Zero Tolerance (صفر کے برابر)ہے۔ لیکن ان کے لوگوں یا پولس کی دہشت گردی ان کے مخالفین پر کی جاتی ہے تو ان کا زیرو ٹالرینس غائب ہوجاتا ہے بلکہ انھیں غدارِ وطن اور دشمن قوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس ڈی وائی چندراچور نے احمد آباد میں گجرات ہائی کورٹ میں پی ڈی دیسائی میموریل لیکچر دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”اختلاف رائے کو دبانے کیلئے اگر حکومت طاقت کا استعمال کرتی ہے توجمہوریت کشی ہے۔ دستور اور آئین کے بالکل خلاف ہے“۔ انھوں نے اچھی اور سچی حکومت کی علامت بتاتے ہوئے کہا کہ ”معقول حکومت کا رویہ نہ صرف سیاسی اختلاف سے صرفِ نظر کرے بلکہ اس کا خیر مقدم کرے“۔ مرکزی حکومت یا بھاجپا کی ریاستی حکومتیں اس کے بالکل برعکس رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔اختلاف کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے یا ختم کرنے کا ان کا پروگرام ہے جومختلف ریاستوں میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ بی جے پی کے پاپ کا گھڑا بھر چکا ہے اور دیانت اور اخلاقیات کی ساری حدیں اس پارٹی کے لیڈران توڑچکے ہیں۔ ان کے اندر شرم و حیا بھی باقی نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ جو کالے قانون کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں وہ جاری رہنے چاہئیں اور ان مظاہروں میں پولس اور حکومت کی بربریت کی مخالفت زور و شور سے ہونی چاہئے۔ زیادہ تر ظلم انہی لوگوں پر سنگھی حکومتوں نے روا رکھا ہے جو کالے قانون کے خلاف مظاہرے، احتجاج اور دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہت سے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ظلم و بربریت کاننگا ناچ پولس کر رہی ہے جس کی خبریں بھی مشکل سے آتی ہیں۔ ایسی صورت میں ایسی ظالم و جابر حکومت کو حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا جو ظالموں کو انعام دے اور مظلوموں کو سزا دے اور غدارِ وطن سمجھے۔ یہ ایک ایسا جبر و ظلم ہے جو حکومت برطانیہ کے زمانے میں بھی نہیں ہوتا تھا۔
18فروری 2020
جواب دیں