جامعہ کے قیام کی تحریک جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی حیرت انگیز بھی۔ دو یکسر مختلف الخیال اور متضاد نظریات کی حامل فکر گاندھی جی کی ایماء پر جا معہ کے قیام کے لیے متحد ہوگئی تھیں ۔ ایک طرف توسامراج مخالف اسلامی قوتیں تھیں جو خلافت تحریک کی قیادت کرہی تھیں تو دوسری طرف مغربی تعلیم یافتہ سیکولر مسلم دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو تحریک عدم تعاون کی نمائندگی کرتا تھا، اسلامی فکر اور سیکولر نظریات کا اتنا حسین امتزاج تاریخ نے اس سے پہلے اور اسکے بعد کبھی نہیں دیکھا۔شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین جامعہ کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جامعہ کے قیام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کی آئندہ زندگی کا ایسا نقشہ تیار کرے جس کا مذہب اسلام ہو اور اس میں ہندوستان کی قومی تہذیب کا وہ رنگ بھرے جو عام انسانی تہذیب کے رنگ میں کھپ جائے”۔ آج بھی جامعہ اپنے بانیان کے انھیں نظریات پر قائم ہے، اگر کسی کو ترقی پسندی اور سیکولرزم میں اسلامی فکر کی آمیزش دیکھنی ہو تو جامعہ جا کر دیکھے۔ جامعہ کا قیام جن حالات میں ہوا وہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ ۹۳ سالو ں پر محیط جامعہ کی تاریخ ایثارو قربانی اور بلند حوصلوں کی ایک طویل داستان ہے۔ بلبل ہند سروجنی نائیڈو کہ لفظوں میں
They built Jamia stone by stone and sacrifice by sacrifice۔یہ ہماری خوش قسمتی رہی کہ ہر نازک مرحلے پر جامعہ کو ایسے بے لوث نابغہ روزگار فراہم ہوتے رہے جنھوں نے اپنی شبانہ روز محنت اورعظم ولولے سے ایسی تاریخ رقم کی جسے دنیا حیرت سے دیکھتی رہ گیی، ایسے پُر آشوب دور میں جب برطانوی سامراج کی مخالفت سے اور تحریک عدم تعاون کے نتیجے میں کسی ادارے کا قیام ایک خواب لگتاتھا تب علیگڑھ سے چند جیالے اٹھے اور انھوں نے اپنی ہمت اور حوصلوں سے یہ ثابت کردکھایا کہ ہوائیں خواہ کتنی ہی مخالف کیوں نہ ہوں بلند حوصلوں اور عضائم کے سامنے انکا زور نہیں چلتا، بلکہ ہواوں کا زور جتنا تیز اور تند ہوتاہے انکی اڑان اتنی ہی اونچی ہوتی جاتی ہے۔
مولانا محمودالحسن ، مولانا محمد علی جوہر ، حکیم اجمل خان ، مختار احمد انصاری اور عبدالمجید خواجہ یہ وہ جیالے تھے جنھوں نے تحریک عدم تعاون کے کال پر لبیک کہتے ہویے علیگڑھ سے اپنا ناتہ توڑ لیا اور ایک نئے آشیانے کی تلاش میں نکل پڑے۔ چنانچہ ۱۹۲۰ میں دارالعلوم دیوبند کے پہلے فارغ التحصیل ، شیخ الھند مولانا محمودالحسن کے ہاتھوں علیگڑھ میں ہی جامعہ کی سنگ بنیاد رکھی گئی،۱۹۲۵ میں جامعہ دہلی منتقل ہوگئی
اپنے قیام کے روز اول سے ہی جامعہ کو کئی محاذ پر مخالفتوں کا سامنا رہا، ایک تو عدم تعاون کے نتیجے میں قائم کسی ادارے کا وجود برطانوی سامراج کو گوارہ نہ تھا تو دوسری طرف مسلمانوں کا ایک بڑا دقیانوسی طبقہ اسے علیگڑھ کی مخالفت میں قائم کیا گیا ادارہ تصور کرتا تھا،اور پھر خلافت کے خاتمے نے رہی سہی کثر پوری کردی۔جو تھوڑی بہت مالی امداد خلافت سے جامعہ کو فراہم ہوتی تھی اسکا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا
لیکن ابھی قدرت کو اور امتحاں مقصود تھا، جامعہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد میں لگی تھی کہ حکیم اجمل خان کا انتقال ہوگیا۔ حکیم صاحب کی وفات جامعہ کے لیے اتنا بڑا سٹ بیک تھی جس سے ابھر پانا انتہائی مشکل تھا، اب تک جامعہ کے مصارف کا ایک بڑا حصہ حکیمصاحب کے ذاتی جیب سے آتاتھا،اور جب جب جامعہ مالی دشواریوں سے دوچار ہوتی حکیم صاحب ایک بیل آوٹ پیکج کے ساتھ سامنے آجاتے۔
اب جامعہ پر اب تک کا سب سے سخت ترین وقت آن پڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ بس اب جامعہ کی سانس اکھڑنے والی ہے، جامعہ سے منسلک نسبتاکم حوصلہ افراد جامعہ کو بند کرنے کا مشورہ دے رہے تھے، بہت سے لوگوں نے تحریک خلافت اور عدم تعاون تحریک کے خاتمے پر جامعہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی کہ ان کے خیال میں اب جامعہ کے قیام کا کوئی جواز باقی نہ رہ گیا تھا�آا ب ذمہ داری ڈاکٹر ذاکر حسین ، ڈاکٹر عابد حسین اور پروفیسر محمد مجییب صاحب کے کاندھوں پر آپڑی تھی ، ذاکر صاحب نے اپنے احباب کو جمع کیا اور ان سے رائے لینی چاہی، احباب کی اکثریت نے جامعہ بند کرنے کی سختی سے مخالفت کی، چنانچہ انجمن تعلیم ملی کے نام سے ایک ادارے کاقیام عمل میں آیا اور اس سے منسلک حضرات نے یہ عہد لیا کہ وہ کم ازکم ۲۰ سالو ں تک جامعہ نہیں چھوڑینگے اور ۱۵۰ روپیے سے زیادہ تنخواہ نہیں لینگے،خود ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے ۱۰۰روپیے ماہانہ پر اپنی زندگی کے بہترین ۲۵ سال صرف کیے،
یہ تار یخ کا ایسا غیر معمولی واقعہ ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے ، انجمن تعلیم ملی سے منسلک مخلصین جامعہ کے اکثریت کی عمر۲۵ سے ۴۵ کے درمیان رہی ہوگی، یہ وہ عمر ہوتی ہے جسے ہم اپنی زندگی کا Prime Yearsکہہ سکتے ہیں جس میں ہر شخص اپنے اور اپنے اہل و عیال
کی بہتر سے بہتر معیار زندگی کی تلاش میں جدوجہد کرتاہے، ہر آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے بہتر کرنے کی چاہ اور خواہشوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست لیے ہم سب خود سے اور زمانے سے الجھا کرتے ہیں، ایسے میں یہ سعیدروحیں اس قناعت پسندی کا ثبوت دیتی ہیں کہ اپنی زندگی کے ۲۰ سال کاغذکے ایک ٹکڑے میں قیدکرکے جامعہ کے حوالے کردیتی ہیں۔ ان قلندروں کو اس بات کا بخوبی اندازہ رہاہوگاکہ ان پر معاشی ترقی کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں اور آنے والے ۲۰ سالوں میں انکی معیار زندگی میں دن بدن گراوٹ آئیگی،لیکن وہ الگ مٹی کے بنے تھے ان کا بھروسہ اللہ پر تھا اور ضد بس ایک کہ جامعہ بند نہ ہونے دینگے
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیرو ، جہاں دارو ، جہاں بانو، جہاں آرا
جب جب جامعہ مالی مشکلات کا شکار ہوتی گاندھی جی بانیانِ جامعہ کو حوصلہ دیتے اور کہتے کہ جامعہ کو چلنا ہی ہوگا خواہ اسکے لیے انھیں کشکول ہاتھ میں لیکر سڑکوں پر کیوں نہ نکلنا پڑے، جامعہ گاندھی جی کے دل کے اتنی قریب تھی کہ وہ جامعہ کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے۔
آج یومِ تاسیس کے اس خاص موقع پرجامعہ کے ان، اساتذہ، اسٹاف اور بہی خواہان کو بھی خراجِ تحسین پییش کر نا چاہئے جنھوں نے جامعہ کے قیام سے لیکر تا عمر جامعہ کی خدمت کی اور نازک ترین حالات میں بھی جامعہ کا سا تھ نہ چھوڑا ۔ بوسیدہ شیروانی اور ، پھٹی ٹوپیوں میں ملبوس ہر لمحے نئے نسل کے مستقبل کی فکرکرنے والی یہ سعید روحیں اب ھمارے درمیان نہیں رہیں، یہ محض جامعہ کے تنخواہ دار ملازم نہیں بلکہ اس کا وہ ہراول دستہ تھے جنہون نے اپنے طرزِ عمل سے ایثارو قربانی کی ایسی تاریخ رقم کی جونئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے، تمام تر نامصائب حالات کے باوجود جامعہ پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کی یہ ادا قدرت کو اتنی پسند آئی کہ جامعہ نہ صرف قائم و دائم رہی بلکہ آج اس مقام پر پہنچ گئی کہ اس کا شما ر اب ملک کی چند بہترین یونیورسٹییز میں ہوتا ہے،
پھر وقت نے کروٹ لے لی۔ ۲۰ ۔ ۲۵ کروڑ والی ملک کی دوسر ی سب سے بڑی اکژیت میں پھر ایسے نسل کے آبیاری بند ہو گئی جو کسی دوسری جامعہ کے قیام کا حوصلہ جٹا پاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ کے قیام کے۹۳ سال گزر جانے کے بعد بھی ہمارے پاس کسی دوسری جامعہ کے قیام کا کوئی منصوبہ نہیں پایا جاتا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جامعہ ملیہ ا سلا میہ ۲ ستمبر ۱۹۸۸ کو ایک سازش کے نتیجے میں اپنے اقلیتی کردار سے محروم کردی گئی تھی ۔پارلییمنٹ کے ایک بل کی رو سے جامعہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ تو حاصل ہوگیا لیکن اس کا اقلیتی کر دا ر ختم کر جامعہ کواس کے ماضی سے کاٹنے کی کوشس کی گئی ۔ ۲۰ سالوں سے زیادہ کا عرصہ اقلیتی کردارکی بحالی کی جدوجھد میں گزرا۔
آخر کار ۲۲ فروری ۲۰۱۱ کے NCMEI کے ایک تاریخ ساز فیصلے کے نتیجے میں اس کا اقلیتی کردار بحال ہوگیا۔اس طرح تقریبا ۲۲ سالوں سے چلی آرہی اقلیتی کردارکی بحالی کی تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔۔ جہاں ایک طرف اس فیصلے سے جامعہ پر ۲۷ فیصد OBC ریزرویشن کے نفاذ کا حکومتی دباو ختم ہوگیا وہیں پہلے سے ساڑھے ۲۲ فیصد SC/ ST ریزرویشن کا بھی اب کوئی جواز باقی نہ رہا ۔ کیونکہ قانونن اقلیتی تعلیمی اداروں پر کسی SC/ ST یا OBC کوٹے کا اطلاق نہیں ہوسکتا ،چنانچہ اس فیصلے کی بنیاد پر جامعہ میں ۵۰ فیصد مسلم ریزرویشن کا فوری نفاذ عمل میںآگیااس طرح جامعہ کو ملک کی پہلی مسلم سینٹرل یونیورسٹی ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔
لیکن چیلنج ابھی ختم نہیں ہو ا۔ امتحان ابھی باقی ہے ۔ ابھی جامعہ کو یہ ثابت کر نا ہوگا کہ اقلیتی ادارہ قرار د ئیے جانے کے بعد بھی جامعہ کے تعلیمی معیار میں کوئی گراوٹ نہیں آئیگی ، اسکی تہذیبی اور ثقافتی خدو خال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ جامعہ سیکولرزم ، Tolerance اور پر امن بقائے باہم کے اپنے سابقہ اصولوں پر قائم رہے گی۔ تعلیمی معیارمیں اسکا موازنہ سینٹ اسٹیفن کالج اور خالصہ کالج سے کیا جائیگا جوعیسائیوں اور سکھوں کے اقلیتی ادارے ہیں۔ جنھوں نے اقلیتی تعلیمی ادارہ ہونے کے باوجود اپنا بہترین تعلیمی معیار برقرار رکھا ہوا ہے۔ ابھی انڈیا ٹوڈے کے ایک حالیہ سروے میں جامعہ کو ملک کی ۵۰ بہترین یونیورسیٹیز میں ۱۵ ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، اگلے سروے میں اگر اسکے معیار میں زرا بھی گراوٹ آئی تو وہ طاقتیں جو جامعہ کے اقلیتی کردار کی مخالف تھیں ان کویہ کہنے کا موقع ملے گا کہ دیکھا ، ہم نے نہ کہا تھا کہ مسلمان اپنے تعلیمی اداروں کو manage کرنے کے اہل نہیں۔اس لئے پوری جامعہ برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سخت محنت ، لگن اور سچے جذبے کہ ساتھ پورے قو م کی امیدوں اور بھرم کو قائم رکھا جائے۔
ملک میں اس وقت درجنوں چھوٹے بڑے تعلیمی ادارے موجود ہیں جو مسلمانوں کے زریعہ مسلمانوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے کے لیے قائم کیے گیے تھے ۔آپ ملک کے مختلف شہروں میں مسلم ناموں سے منصوب قدیم تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیے اور پھر خود سے سوال کیجیے کہ کیا یہ ادارے ہماری لاتعلقی اور غفلت کیوجہ سے تعلیمی بدحالی کا شکار نہیں ہیں؟۔ کیا یہ ادارے ان مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوپا ئے ہیں جن کے لیے یہ قائم کئے گئے تھے؟۔ کیا یہ ادارے ہماری گھٹیا سیاست اور ذاتی اناکی تسکین کا سامان نہیں بن چکے ہیں؟۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مسجدوں ، مدرسوں، خانقاہوں اور امام باڑوں کے تحفظ کے معاملے میں انتہائی جذباتی قوم اپنی جدید تعلیمی اداروں کے معاملے میں اتنی غافل کیونکر رہی۔ہماری غفلت اور لا تعلقی کا نتیجہ یہ ہو ا کہ ان میں سے بیشتر ادارے کسی نہ کسی یونیورسٹی سے منسلک کرکے اپنے اقلیتی کرد ار سے محروم کردیے گیے۔جب کہ دہلی کا سینٹ اسٹیفن کالج اور خالصہ کالج دہلی یونیورسٹی کے زیر نگرانی کام کرتے ہوئے بھی اپنا اقلیتی کردار برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ علیگڑھ مسلم یونیورسیٹی کا معاملہ ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیرِالتوا ہے اور دہلی کا ذاکر حسین کالج، دربھنگہ کا ملت کالج اور اس جیسے بہت سے ادارے اپنے اقلیتی کردار سے محروم ہوچکے ہیں،
اب ضرورت اس بات کی ہے کے NCMEI کے فیصلے کو بنیاد بنا کردیگر اقلیتی اداروں کے تاریخی کردار کی بحالی کی کوشش کی جائے۔ جامعہ کی یومِ تاسیس پر بانیان جامعہ کو یہی سب سے بڑ ا خراج عقیدت ہوگا۔
بقول شاعر
جگر کی آگ ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پر چارہِ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آ ئی نگارِ صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ طلبا یونین کے سابق نائب صدر اور انڈیا اسلامک کلچلر ل سینٹر، نئی دہلی کی سعودی عر ب شاخ کے موجودہ کنوینر ہیں۔
جواب دیں