جامعہ حفصہ کی مقتل گا ہ سے ہو کر گزرنا ۔۔۔!

مسلم لیگ نون جو ہر سال اکتوبر کی بارہ تاریخ کو ایک ڈکٹیٹر کے شب خون کے خلاف یوم سیاہ مناتی چلی آ رہی ہے، امید ہے اس بارہ اکتوبر کو بھی یوم سیاہ اسی جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جائے گا۔ مسلم لیگ کے کارکنان ایک آمر کے خلاف اس کے فارم ہاس کے باہر بھرپور مظاہرہ کریں گے، سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج ہو گا، وزیر اعظم ہاس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔ ایک آمر نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا نہ صرف تختہ الٹا بلکہ انہیں خاندان اور ملازمین سمیت جبری ملک بدر کر دیا۔ مسلم لیگ نون وہ سیاہ دن فراموش نہیں کر سکتی اور یقیناًاس بارہ اکتوبر کے دن بھی بھرپور احتجاج کرے گی مگر کس کے خلاف ۔۔۔؟ وزیراعظم ہاس میں تو وہی شخص بیٹھا ہے جو اس ظلم کا خود نشانہ تھا، کارکن سپریم کورٹ کے سامنے بھی مظاہرہ نہیں کر سکتے کہ توہین عدالت کا نوٹس ملنے کا خدشہ ہے۔ مشرف کے فارم ہا س کے سامنے کھلی جگہ ہے شب خون کے گھر کے سامنے یوم سیاہ منانے کا جوش و جذبہ قابل دید ہو گا۔ ایک اور مقام ایسا ہے جہاں شب خون کے خلاف احتجاج کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے جامعہ حفصہ کی مقتل گاہ، وہ لال مسجد جہاں انسانوں کی ہڈیوں کا سرما بنا دیا گیا اور وہ سیاہ برقعے جن میں لپٹی یتیم بچیوں اور خواتین کو زندہ جلا دیا گیا۔ نیویارک میں جس جگہ نائن الیون کا واقعہ پیش آیا، اس مقام کو گرانڈ زیرو کہا جاتا ہے۔ مسلم لیگ نون لال مسجد کی گرانڈ زیرو پر جائیں اور حکومت کو یوم سیاہ کی بھیانک گھڑی یاد دلائیں۔ وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کو ایک خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدالت میں بلایا گیا اور اسے گھر بھیج دیا گیا جبکہ مشرف نے محترم و مقدس آئین کی دھجیاں بکھیر دیں مگر پھر بھی ۔۔۔؟ ڈکٹیٹر پرویز مشرف جس نے چیف جسٹس آف پاکستان کو بمعہ اہل خانہ گھر میں قید کر دیا، انہیں معزول کر دیا، چیف جسٹس اور میاں نواز شریف بڑے دل کے لوگ ہیں، انہوں نے مشرف کو معاف کر دیا مگر عوام مشرف کو ہرگز معاف نہیں کر سکیں گے۔ مشرف کو دو آخری مقدمات میں بھی ضمانت مل گئی۔ بگٹی قتل کی مجرمانہ سازش میں عدالت کو ٹھوس ثبوت نہ مل سکے جبکہ ججز کی نظر بندی اور بے نظیر بھٹو قتل کیس میں پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔ بس اب لال مسجد والا پھنڈہ ان کے گلے آن پڑا ہے جس نے ان کے اڑان بھرنے سے پہلے ہی انہیں اسیری میں رکھ لیا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جا چکا ہے لہذا مشرف کا ملک سے نکلنا آسان نہیں خواہ انہیں آئین کی پامالی اور لال مسجد اپریشن کے مقدمات میں بھی بے قصور ثابت کر دیا جائے لیکن مشرف کے ساتھی اور ان کے وکیل تو مٹھائیاں تقسیم کر چکے ہیں۔ وزارت خارجہ کا بیان ہے کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر مشرف کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔ سابق صدر کو ستر پولیس افسران و اہلکاروں پر مشتمل سکیورٹی سٹاف فراہم کیا گیا ہے۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد والوں کا جارحانہ قتل اور اس کارروائی کی وجہ سے عوام کو جو شدید ذہنی اذیت پہنچائی گئی اور لواحقین کو جس کرب و بلا سے گزرنا پڑا، اس جرم کا حساب ان سے لیا جانا ہے۔ 12 اکتوبر 1999کو ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور آئین کو پیروں تلے روند دیا گیا، اس جرم کو بھی معاف کر دیا جائے گا؟ زرداری اور مشرف کے خلاف نعرے لگانے والے لوگ حکومت میں آتے ہی خاموش ہو گئے۔ حکومت نے مشرف کے خلاف عدالتوں میں کوئی سخت موقف نہیں اپنایا اور ضمانت کی درخواستوں کی کھل کر مخالفت نہیں کی۔ چنانچہ عدلیہ میں مشرف بے قصور ثابت ہو گئے، مشرف کو اب ڈکٹیٹر کہنا جائز نہیں۔ پاکستان کا ماضی اور حال ہی نہیں، مستقبل بھی تاریک دکھائی دینے لگاہے ،جب ملک بچانے کے دعویداروں نے ہی پراسرار خاموشی اختیار کر لی تو عوام کس سے انصاف مانگیں؟ زرداری کے اثاثے بھی جوں کے توں محفوظ ہیں، مشرف بھی محفوظ ہیں، نواز شریف اور عمران خان بھی محفوظ ہیں مگر پاکستان محفوظ نہیں۔ حکیم اللہ محسود کہتا ہے کہ اگر اس کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں تو پاکستان محفوظ رہ سکتا ہے، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ تم لوگوں سے ملک سنبھالا نہیں جا رہا، ہمیں دو ہم چلا کر دکھائیں گے۔ طاقتور تو پھر وہی ہوا ناں جس سے حکمران بھی مذاکرات پر مجبور ہو جائیں۔ جس شخص کے خلاف چودہ برسیوم سیاہ منایا جاتا رہا، آج اسی شخص کو رہا کر دیا جائے اور حکمران چوں تک نہ کریں؟ اقتدار سے باہر یوم سیاہ ہوتا ہے اور اقتدار میں آتے ہی یوم سفید ہو جاتا ہے۔ مشرف کو اب جامعہ حفصہ کی مقتل گاہ سے ہو کر گزرنا ہے۔ 

«
»

اقوام متحدہ مظلوم ودربَدرانسانوں کے لیئے مسیحا

معاشی مسائل سے دماغی صلاحیت محدود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے