جمہوریت سے بے وفائی اور غداری

مذہبی بنیاد پر شہریت سیکولرزم، لبرلزم، مساوات اور انصاف کے منافی

تحریر: فیضان مصطفی…… ترجمہ و تبصرہ: عبدالعزیز 

    سال 2013ء کی بات ہے جب میں چین میں سفر کر رہا تھا ایک ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے سوال کیا کہ ہندستان میں کچھ بدھسٹ کیوں ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں ہم لوگوں نے بدھسٹوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے۔ یہاں مذہبی بنیاد پر تمام مذاہب کے لوگوں پر ظلم و ستم ہوا ہے۔ مودی حکومت مذہبی ایذا رسانی کی بات سچ کہتی ہے، لیکن کالے قانون کے ذریعہ مسائل کا حل نہ صرف غیر دستوری ہے بلکہ خطرناک ہے۔ اس سے دنیا کی مہذب قوموں میں ہندستان کی بدنامی ہوگی۔ شہریت ترمیمی بل اسرائیلی قانون کی طرح ہے۔ جیساکہ اسرائیل کو یہودیوں کا قدرتی گھر سمجھا جاتا ہے۔ ہم لوگوں کو کہنا چاہئے کہ دنیا کے کسی کونے یا مقام پر مذہبی یا سیاسی بنیاد یا خیالات پر اگر ظلم و ستم ڈھایا جاتا ہے تو ہم اسے ہندستان میں خوش آمدید کہیں گے۔ شناخت شہریت کی بنیاد ہے۔ ہمارے دستور سازوں اور جنھوں نے 1955ء میں سٹیزن ایکٹ بنایا ان کا یقین تھا کہ شہریت ایک جوڑنے والی چیز ہے لیکن آج جو شہریت کا قانون بنایا گیا ہے وہ لوگوں کو ایک خاص بنیاد پر بانٹا جارہا ہے اور ایک خاص مذہب والوں پر ان کو کمتر درجے کا شہری سمجھ کر ان پر ظلم و ستم ڈھانے کی خواہش ہے۔ یہ اکثریت پرستانہ سیاست ہے وہ لوگوں کو بانٹ رہی ہے اور ایک دوسرے کے عقیدے کی بنیاد پر تفریق کر رہی ہے۔ اس قانون کے ذریعے ابراہیمی مذہب بشمول عیسائی تفریق پیدا کر رہی ہے۔ ان کو یہودیوں اور مسلمانوں سے الگ کر رہی ہے۔ لامذہبوں کو بھی نظر انداز کر رہی ہے۔ دستورکی دفعات 5سے لے کر 11تک میں بہت سے لوگوں کی کٹیگریز ہے جنھیں سٹیزن شپ دی جاتی ہے۔ دفعہ 11 پارلیمنٹ کو شہریت کو درست کرنے کا حق دیتی ہے۔ 1955ء میں سٹیزن ایکٹ پاس کیا گیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معمولی قانون کے ذریعے دستور کے بنیادی ڈھانچے یا اقدار کو برباد کردیا جائے۔ مذہب کی بنیاد پر شہریت نہ صرف سیکولرزم کے خلاف ہے بلکہ لبرلزم، مساوات اور انصاف کے بھی خلاف ہے۔
     دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نہ دستور میں اور نہ ہی سٹیزن ایکٹ میں شہریت یا سٹیزن کی اصطلاح درج ہے۔ شہریت کے قانون میں تبدیلی یا ترمیم 1986ء آسام معاہدے کی وجہ سے ہوئی تھی اور2003ء میں ترمیم بی جے پی کی غیر قانونی مہاجرین کی مخالفت کی وجہ سے ہوئی تھی۔ شہریت کا بنیادی اصول یہ تھا کہ جو بھی ہندستان میں پیدا ہوگا اسے شہریت دی جائے گی۔ 1986ء میں جو ترمیم ہوئی تھی اس میں شرط جوڑ دی گئی تھی کہ اسے شہریت ملے گی جس کے والدین میں سے ایک ملک کا شہری ہوگا۔ 2003ء میں واجپئی حکومت میں اس ترمیم کو اور بھی سخت بنا دیا گیا۔ اس میں یہ جوڑ دیا گیا کہ پیدائش کے ساتھ ساتھ ماں باپ دونوں ہندستانی شہری ہوں یا ان میں سے ایک ہندستانی شہری ہو اور دوسرا غیر قانونی مہاجر نہ ہو۔ آسام میں لاکھوں لوگوں کو غیر شہری قرار دیا گیا جس کیلئے 1600 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے اور پانچ سال تک آسام کی کچھ حالت ایسی تھی جیسے آسام ٹھہر سا گیا تھا۔ اس کے باوجود بی جے پی لیڈر ہیمنت بسواس شرما نے فائنل این آر سی کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور دوبارہ این آر سی کرانے کے حق میں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 19 لاکھ میں زیادہ تر لوگ غیر مسلم ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سی اے بی کے ذریعے بی جے پی اپنی کمی کو چھپانا چاہتی ہے۔ لیکن غلط این آر سی کے ذریعے مرضی کے مطابق رزلٹ ہونا مشکل ہے۔ چاہے جلا وطنی کے ذریعے یا ایک خاص فرقہ کو شہریت سے محرومی کے ذریعے۔ 
    سی اے بی کے ذریعے غیر مسلموں کو بھی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جو یہ تسلیم کریں گے کہ وہ ہندستانی شہری ہیں تو انھیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ تین ملکوں سے ہندستان آئے ہیں۔ سی اے بی بی جے پی کی پانچ پرانی باتوں کے خلاف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کے منشور میں آسام الیکشن کے موقع پر وعدہ کیا گیا کہ وہ آسام کے معاہدے کو اس کے الفاظ اور روح کے ساتھ احترام کرے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ وکالت کرتی تھی کہ وہ25مارچ 1971ء کے بجائے 19جولائی 1948ء سے پہلے جو ہندستان آیا ہے۔ اب نئے قانون میں 31دسمبر 2014ء کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ بی جے پی اکثر و بیشتر کہا کرتی تھی کہ بیرونی ایکٹ 1946ء کے وہ خلاف ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ وہ رفیوجی یا غیر قانونی مہاجرین کے بارے میں کہتی تھی کہ وہ ملک پر بوجھ ہیں اور ملک کے ذرائع و وسائل ان پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ پانچویں بات یہ ہے کہ اب اس قانون میں یہ کہا جارہا ہے کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے جو لوگ آئیں گے ایک خاص مذہب کے لوگوں کے سوا سب کو شہریت دی جائے گی؛ کیونکہ تینوں ممالک مذہب کی  بنیاد پر ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہندو دائیں بازو والے ہندستان کو ’ہندو راشٹر‘ نہیں بنائیں گے؟ 
    شہریت کا نیا قانون دفعہ 14 کے دانت جیسا ہے جو مناسب درجہ بندی کا مطالبہ کرتا ہے اور وہی چیز جائز اور قانونی ہوسکتی ہے جو عقلی ہو اور جائز درجہ بندی کی آئینہ دار ہو۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ دستور کے خلاف ہوگا۔ بل قانون سازی کے درجے میں آتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر درجہ بندی کی اجازت نہیں ہے۔ اور نہ ہی صرف مذہب کی بنیاد پر تینوں ملکوں میں مذہبی ایذا رسانی ہوتی ہے اور نہ ہی صرف غیر مسلموں پر ہوتی ہے۔ مذہبی ایذا رسانی چین، میانمار بھی ہوتی ہے۔ افغانستان میں مختلف مسلم گروپ جیسے ’ہزارس‘ اور پاکستان میں شیعہ پر ظلم و ستم ڈھایا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اے پی رویپا 1971ء میں یہ مشاہدہ کیا تھا کہ مساوات مختلف پہلوؤں اور وسعتوں سے ایک متحرک تصور ہے۔ اسے روایت یا کسی اور محدود نقطہ نظر سے باندھا نہیں جاسکتا۔ مساوات بے قاعدگی سے الگ شئے ہے۔ حقیقت میں برابری اور خود مختاری ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ موجودہ ایکٹ بے قاعدگی اور خودمختاری پر مشتمل ہے۔ سیاسی منطق کے لحاظ سے بھی عدم مساوات پر اور دستوری قانون کے لحاظ سے بھی نامناسب ہے۔ اور دفعہ 14کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے اگر جو لوگ اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ کروڑوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا جائے گا تو وہ غلطی پر ہیں۔ کالا قانون سی اے بی صرف ان مسلمانوں کو متاثر کرے گا جو تین ملکوں جو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہیں۔ جن کی شہریت پہلے سے ہے ان مسلمانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ قانون غیر ضروری ہے۔ اگر ہم لوگ رفیوجیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں تو ہندستان کو رفیوجی کنونشن پر دستخط کرنا چاہئے اور دنیا کے تمام غیر قانونی مہاجرین کو ہندستانی شہریت دینے کیلئے خوش آمدید کہنا چاہئے۔ 
    تبصرہ: فیضان مصطفی صاحب نلسار یونیورسٹی آف لاء حیدر آباد کے وائس چانسلر ہیں اور ہندستان کے ایک ماہر قانون کی حیثیت سے معروف ہیں۔ اپنے مضمون میں انھوں نے نئے کالے قانون کو غیر ضروری، غیر مناسب اور غیر دستوری قرار دیا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ بی جے پی یا ان کے حمایتی جو لوگ مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ کیونکہ جو برسہا برس سے پشت درپشت مسلمان ہندستان میں رہتے ہیں ان سے اس کا قانون کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ان پر یہ قانون لاگو ہوگا۔ یہ قانون صرف ان تین ملکوں سے ہندستان میں آئے ہوئے غیر مسلموں کیلئے ہے جو ہندستانی شہریت کے خواہش مند ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کو اس قانون میں مستثنیٰ کیا گیا ہے۔اس کالے قانون کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ نہ صرف غیر دستوری ہے بلکہ غیر انسانی، غیر اخلاقی اور انتہائی غیر مہذب ہے کیونکہ امتیاز، بھید بھاؤ اور نفرت کی سیاست کو فروغ دینے کیلئے ایسی غلط قانون سازی کی گئی ہے۔ علامہ اقبال نے ہر ایسے امتیاز کیلئے کہا ہے  ؎ ’جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا‘۔
    ایسا لگتا ہے  کہ علامہ نے ہندستان کے آج کے منظر کو ایک فلاسفر اور دانشور ہونے کی وجہ سے اپنے تصور کی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا 
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے …… تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں 
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو …… تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں 

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے