اس زبا ں بندی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آخر کار کچھ لوگ اٹھے جنہوں نے مسلسل نصف صدی تک اپنی جدوجہد جاری رکھی وہ غلامی کی لعنت کے خلاف ہنس ہنس کر لڑتے رہے۔ ملک و قوم کے ان ہی محسنوں کی قربانیوں کے بدولت یہ ملک آزاد ہوا، وہ قوم جو ماضی کے سوا اپنے ہر اثاثے سے محروم ہوچکی تھی حال ومستقبل کی امین بن گئی اور اس امانت کا ظہور اس دستاویز کی شکل میں ہوا جو آج ہندوستان کے آئین کے نام سے موسوم اور جمہوریت کے رہنما اصولوں کی شکل میں حرکت پذیر ہے، یہ آئین ہماری قومی امنگوں کا مظہر ہی نہیں دنیا کے حریت پسند انسانوں کے لئے بھی ایک نمونہ ہے، کیونکہ اس میں ذات ، فرقہ ، نسل اور مذہب کی تفریق سے بالاتر اس سوسائٹی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا گیا ہے جو انسان صدیوں سے دیکھ رہا تھا۔
یعنی ملک کے ہر شہری کے ساتھ مساویانہ انصاف ہر باشندے کے ساتھ ریاست کا برابری سلوک ، تحریر، تقریر، خیال اور اجتماعی سرگرمیوں کی آزادی، تمام فرقوں، مذہبوں اور تہذیبی اکائیوں کو اپنے اپنے دائرے میں پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا ہونا، یہ مستحکم ستون جن پر ہندوستانی آئین کی شاندار عمارت کھڑی ہے، دنیا کے تمام جمہوری اصولوں کا نچوڑ اور ہندوستان قوم کی روشن خیالی اور بلند ہمتی کی علامت ہے لیکن اس کا چوتھا سکون اخبارات ہیں جن کے ذریعہ رائے عامہ کوباشعور بنانے اور اس کی ذہنی تربیت کرنے کا کام انجام پاتا ہے۔
دنیا میں آج قوموں، گروہوں اور انسانوں کے درمیان مقابلہ کافی تیز ہوگیا ہے، اس مقابلہ آرائی میں کامیابی کا سہرا اسی کے سربندھتا ہے جس کے پاس ذرائع ابلاغ زیادہ ہوں بدقسمتی سے ہندوستان کی مسلم اقلیت نے اخبارات کی طاقت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا اس کے برعکس امریکہ کے یہودیوں نے اس راز کو پالیا ہے تو اقلیت میں ہونے کے باوجود وہاں کی سیاست آج ان کے اردگرد گھومتی ہے اور صدر امریکہ جیسا طاقتور حاکم ان کی مرضی پر چلنے کیلئے مجبو رہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ شکایت تو بہت ہے کہ ملک میں ان کی آواز سنی نہیں جاتی، کسی بھی نازک گھڑی میں ان کو ملزم بناکر کھڑا کردیا جاتا ہے، حکومت اور قانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی محدود ہوکر رہ گئی ہے، سرکاری ملازمتوں سے وہ دن بدن بے دخل ہوتے جارہے ہیں، ان کی زبان اور تہذیب کو منصوبہ بند طریقہ سے ختم کیا جارہا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ قومی پریس کا رویہ ان کے بارے میں ہمدردانہ نہیں اور حکومت ان کی آواز بہت اونچی سنتی ہے مگر مسلمانوں نے کبھی یہ بھی سوچاکہ ایک سو دس پندرہ کروڑ کے اس ملک ہندوستان میں اپنی آواز دوسروں تک پہونچانے کیلئے خود انہوں نے کیا بندوبست کیا ہے۔
عام زندگی کا مشاہدہ ہے کہ کسی چھوٹے سے مجمع تک آواز پہونچانے کیلئے لوگ لاؤڈ اسپیکر کی مدد حاصل کرتے ہیں لیکن ہندوستان کی مسلم آبادی نے ذرائع ابلاغ کے بغیر ہی اس ہنگامہ شوروغل میں اپنی آواز سنی جانے کی امید موہوم باندھ رکھی ہے جس میں نہ آج کامیابی کی توقع ہے نہ کل ہوسکتی ہے۔
جواب دیں