جماعت اسلامی ہند کے 75 سال

جماعت اسلامی ہند کی وہ خوبیاں جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی ہیں

 
 

   ڈاکٹر سراج الدین ندوی

خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد بیشتردنیا پر مسیحیت کا غلبہ ہوچکا تھا،برطانوی سامراج کا سور ج چھپنے کا نام نہیں لے رہا تھا،ہر طرف سے اسلام کو مٹانے کی سازشیں اور اقدامات ہورہے تھے،ملحدانہ و مداہ پرستانہ افکار و نظریات خوب صورت و دل کش عنوانات سے غلبہ و استیلاء کی کوشش کررہے تھے،وطن عزیز میں آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی،ان حالات میں سید مودودی ؒ نے باطل نظریات کے مقابلہ میں اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت سے پیش کیا،مغربی تہذیب و افکار پر کاری ضرب لگائی اور پھر لوگوں کو دعوت دی کہ وہ ایک ایسی تنظیم بنائیں جو لوگوں کو اللہ کے دین طرف بلائے،زمین پرخدا کی حکومت قائم کرے،لوگوں کو عدل و انصاف اور امن و امان سے ہمکنار کرے،چنانچہ اس وقت کے جید علماء اور دانشور جن کی تعداد 75تھی جمع ہوئے اور جماعت اسلامی کی تشکیل وجود میں آئی۔اگر چہ بعض لوگ اپنی افتاد طبع کی وجہ سے الگ بھی ہوتے گئے،لیکن اس قافلہ میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی رہی۔آج بھی ملک بھر سے اہل دانش و بینش اس سے وابستہ ہیں۔
میں دوران طالب علمی کئی جماعتوں سے وابستہ رہا۔تبلیغی جماعت میں بھی میں گیا،اہل حدیث علماء سے بھی ملاقاتیں رہیں،ان کے اداروں میں بھی گیا،نیز ان کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا،جمعیۃ العلماء سے بھی تعلق قائم کیا،ان کی اہم شخصیات سے میری ملاقاتیں رہیں،آج بھی ہیں۔جماعت اسلامی کا لٹریچر بھی پڑھا،میرے عربی کے اول استاذ مرحوم مولانا حکیم اشرف علی قاسمی صاحب ضلع بجنور میں جماعت اسلامی کے روح رواں تھے،ان کے ذریعہ جماعت کو سمجھا اور جانا،اجتماعات میں بھی شریک ہوا۔ہمارے علاقہ میں یہی چار جماعتیں معروف ہیں۔میں نے جماعت اسلامی ہندکوبعض پہلوؤں سے باقی جماعتوں سے بہتر اور ممتازپایا۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند پورے دین کو بے کم و کاست پیش کرتی ہے۔یہ پوری زندگی اور زندگی کے ہر شعبہ میں انقلاب لانا چاہتی ہے۔دین بھی وہی جو اللہ کے رسول ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔جماعت اسلامی میں عبادات محض رسمی عبادت کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی صحیح روح اور آداب و مستحبات کے ساتھ کامل بندگی کا نام عبادت ہے۔اسی طرح جماعت کہتی ہے کہ معاملات،حقوق العباد،معیشت و معاشرت حتیٰ کہ سیاست بھی اسلام کے تابع ہونا چاہئے،وہ اسلام کے خاندانی نظام،عائلی احکامات پربھی گفتگو کرتی ہے اس کے ذمہ داران نکاح میں سادگی کا اہتمام کرتے ہیں،اس کے مطابق اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے،وہ گود سے گور تک اور گور سے حشر تک تک لیے اصول و فرامین فراہم کرتا ہے،ان فرامین میں ایک درجہ بندی بھی ہے۔بعض امور کو بعض پر ترجیح و فوقیت حاصل ہے،جماعت اسلامی ہند کی خوبی یہ ہے کہ اس نے دین کے ہر امر کو خواہ اس کا تعلق عبادت سے ہو یا معاملات و معاشرت سے اس کی اصل شکل میں پیش کیا اور حقیقی ترتیب سے پیش کیا۔یہ بڑا فرق ہے جماعت اسلامی ہند اور دوسری جماعتو ں میں۔جماعت اسلامی کا دستور لاالٰہ سے شروع ہوتا ہے،دنیا میں کوئی دوسری تنظیم نہیں ہے جس کا دستوراسلام کے بنیادی عقیدے سے شروع ہوتا ہو۔جماعت اسلامی ہند کا دوسرا بڑا کارنامہ اس کا لٹریچر ہے جو نہایت موثر اور عصری اسلوب میں اسلام کو پیش کرتا ہے،جو نہ صرف اسلامی احکامات و ہدایات کو اطمینان بخش دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے،بلکہ موجودہ چیلینجیز کا حل بھی مدلل انداز میں سامنے رکھتا ہے اورمغربی افکار و نظریات اور مادہ پرستانہ فکرکے بطن سے پیدا ہونے والی غیر اسلامی تحریکات و نظامہائے زندگی کے نقائص و خامیوں کو عقلی دلائل اور قرآن و احادیث کی نصوص کی روشنی میں اجاگر و مبرہن کرتا ہے اور اسلام کو انسانیت کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔اگر جماعت اسلامی ایک تنظیم کی حیثیت سے باقی بھی نہ رہے تو اس کے ذریعہ اور اس کے افراد و منتسبین کے ذریعہ تیار کردہ لٹریچر آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔اس لٹریچر نے لاکھوں متشککین،ملحدین اور دین بیزار لوگوں کو اسلام کا داعی،مبلغ اور سپاہی بنایا ہے۔جب اس لٹریچر کو آدمی پڑھتا ہے تو اسے یقین ہوجاتا ہے،کہ اسلام ہی واحد نظام زندگی ہے جو اس کو کامیابیوں سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
جماعت اسلامی ہندکی ایک نمایاں خوبی اس کا شورائی نظام ہے،مقامی جماعت سے لے کر مرکز تک تمام امور رفقاء اور اراکین شوریٰ کے باہمی مشوروں سے انجام پاتے ہیں۔یہاں کسی فرد،خاندان اور برادری کی اجارہ داری نہیں ہے۔تمام انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوتے ہیں،یہاں عہدوں کی طلب نہیں پائی جاتی،بلکہ اس سے فرار کی خو پائی پاتی ہے،یہاں ذمہ داریوں سے سبک دوشی پر اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے الگ تنظیم سازی نہیں کی جاتی۔یہاں ذمہ داری دی ہی اسے جاتی ہے جو اس کا خواہش مند نہ ہو،دستور جماعت میں کسی عہدہ کی اہلیت کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کسی منصب کا خواہش مند نہ ہو۔جماعت میں عہدہ و منصب ذمہ داریوں کا نام ہے نہ کہ کسی شان و شوکت اور وجاہت کے اظہار کا۔
جماعت کا ایک نمایاں وصف یہ کہ اس کے منصوبوں اور پروگراموں میں اعتدال و توازن پایا جاتا ہے۔جماعت تمام شعبہہائے زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ کسی ایک جانب ہی سارا زور نہیں لگادیتی،دین میں جس کام کو جس قدر اہمیت دی گئی اسی قدر جماعت نے اس کا م کو اہمیت دی ہے۔ نبی ﷺ کی بعثت کا مقصد دعوت الی اللہ ہے،اس لیے جماعت کے پروگرام میں سب سے پہلے دعوت کو رکھاگیا ہے۔لیکن دعوت اسی وقت موثر ہوگی جب خود مسلم معاشرہ دعوت کی عملی تصویر پیش کرے گا۔ اس لیے اسلامی معاشرہ کے قیام کو دعوت کے فوراً بعد جگہ دی گئی ہے۔جس انسانی سماج میں ہم رہتے ہیں وہاں بہت سے مسائل آتے رہتے ہیں،کبھی قدرتی آفات مثلاً زلزلہ یا سیلاب،کبھی خودانسانوں کے ہاتھوں جیسے فرقہ وارانہ فسادات وغیرہ،جماعت ملک و ملت کے ہر مسئلہ کے حل کی طرف متوجہ رہتی ہے۔یتیمیوں،بیواؤں کی کفالت سے لے کر بازآباد کاری اور بے روزگارافراد کو فراہمی روزگار تک،امداد و وظائف سے لے کر بلاسودی قرض تک کا نظم کرتی ہے۔
تعلیم کے میدان میں جماعت کی نمایا ں خدمات ہیں۔اس ضمن میں،درس گاہوں اور کالجز کے قیام کے ساتھ ساتھ نصاب تعلیم کی تیاری،اساتذہ کی ٹریننگ ورکشاپ،اسکولوں کا معائنہ،طلبہ کو وظائف،مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری،طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیاں،تعلیم بالغان و بالغات کے مراکزاورجزوقتی مکاتب وغیرہ کے کام انجام دیے جاتے ہیں۔جماعت اسلامی نے سب سے پہلے ایسی درسگاہیں اور اسکول قائم کیے جہاں دینی و عصری تعلیم ایک ساتھ دی جاتی ہے،ورنہ اس سے پہلے امت دوطرح کے ادارے الگ الگ چلاتی تھی،ایک عربی مدرسے اور دوسرے اسکول و کالج لیکن جماعت نے عصری و دینی علوم کا حسین امتزاج پیش کیا۔جماعت کے نظام تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آج جو لوگ ملت کے لیے تعلیمی ادارے قائم کررہے ہیں وہاں دونوں طرح کے علوم کی تعلیم دے رہے ہیں۔تعلیم کے میدان میں ایک نمایاں کام یہ بھی ہے کہ جماعت نے لڑکیوں کے لیے اقامتی و غیر اقامتی درسگاہیں قائم کیں۔روایتی دین دار طبقہ لڑکیوں کی تعلیم کو ناپسند کرتا تھا۔الحمد للہ وہ بھی اب جماعت کی کوششوں کے نتیجے میں لڑکیو ں کے تعلیمی ادارے قائم کررہا ہے۔ایک کام یہ کیا جاتا ہے کہ سرکار کی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیاجاتا ہے،سرکاری نصاب تعلیم پر نظر رکھی جاتی ہے،قابل توجہ امور کو متعلقہ افرادو اداروں کے علم میں لایا جاتا ہے،چنانچہ جماعت کے توجہ دلانے پر حکومتی اداروں نے اپنے نصاب تعلیم و نظام تعلیم میں تبدیلیاں بھی کی ہیں۔

جماعت اسلامی کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس نے قرآن و سنت کواپنی اساس کار بنایا ہے۔کسی کی بات بھی اگر قرآن و سنت سے متصادم ہوگی تو جماعت میں تسلیم نہیں کی جائے گی۔امیر جماعت اسلامی ہند کو ایک عام کارکن جماعت ٹوک سکتا ہے اور جواب طلب کرسکتا ہے۔جب کہ دوسری جماعتوں میں یہ فضا مفقود ہے،وہاں ایک حضرت ہیں اور ”مستند ہے ان کا فرمایا ہوا“۔یہاں ہر شخص کی بات اور قول کو قرآن و سنت پر پرکھا جاتا ہے۔اسی ضمن میں یہ بات بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ یہاں فروعی اور جزوی اختلافات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔جماعت ان سے بالاتر ہوکر کام کرتی ہے،وہ اپنے وابستگان کو یہ بات سمجھاتی ہے کہ جزوی اور فروعی اختلافات کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر اپنی قوت صرف کی جائے۔ 
جماعت کی ایک بڑی خوبی جس نے مجھے متاثر کیا وہ یہ ہے کہ اس میں سب سے زیادہ فرد کی اپنی تربیت و تزکیہ پر زور دیا جاتا ہے۔جیسا کہ خود قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے کہ ” قوا انفسکم و اھلیکم ناراً(التحریم۔۶)۔“’اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو نار جہنم سے بچاؤ“۔جماعت میں خود احتسابی پر زور دیا جاتا ہے۔اصلاح کا عمل اپنے نفس اوراپنے گھر سے شروع کیا جاتا ہے۔جماعت کی رکنیت صرف فارم پرُکر کے نہیں دی جاتی،بلکہ پہلے اس کی فکری تربیت کی جاتی ہے،اس کو لٹریچر پڑھوایا جاتا ہے اگر وہ پڑھ نہیں سکتا تو اسے سنایا جاتا ہے،اس کے نظریات کا اسلامائزیشن کیا جاتا ہے،اسی کے ساتھ اس کے عمل کا جائزہ لیاجاتا ہے کہ وہ جس دعوت کو لے کر اٹھ رہا ہے خود اس پر کتنا عمل پیرا ہے،کیوں کہ دعوت بغیر عمل کے سمندرر کے جھاگ کی مانند ہے۔ورنہ ہم نے دیکھا ہے بعض تنظیمیں ایک رسید بنا کر ممبر شپ دے دیتی ہیں۔جماعت نے رکنیت سازی کا ایک نصاب بنایا ہے،کچھ اصول و ضوابط وضع کیے ہیں۔اس لیے کئی کئی سال رکن بننے میں لگ جاتے ہیں۔ 
جماعت اسلامی ہند کی وہ خوبیاں جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی ہیں 

جماعت میں ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے،جو فرد جماعت سے وابستہ ہوجاتا ہے اس کا ارتقاء ہوتا رہتا ہے،اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے،اس کی عملی زندگی میں نکھار پیدا ہوتا ہے،اس کی قوت کارکردگی پروان چڑھتی ہے۔
جماعت کی ایک خوبی یہ ہے کہ جماعت منظم،منصوبہ بند اور تسلسل کے ساتھ کام کرتی ہے،اس کی چار سالہ منصوبہ بندی ہوتی ہے،چار سالہ پروگراموں کو ایک سال میں اور پھر ایک ماہ کی منصوبہ بندی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔یہ پلاننگ مرکز سے مقامی یونٹ تک ہوتی ہے،مقام کے ہر فرد کو اہداف دیے جاتے ہیں،یہ منصوبہ بندی فرد کی تربیت،برادران وطن میں دعوت،اسلامی معاشرہ کے قیام،ملی و ملکی ایشوز،خدمت خلق،غرض ہر شق سے متعلق ہوتی ہے،اس منصوبہ کی روشنی میں جائزہ و احتساب ہوتا ہے۔یہی منصوبہ بندی ہمیں نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں ملتی ہے۔دیگر تنظیموں میں اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی دیکھنے کو نہیں ملتی۔
جماعت اسلامی نے جس طرح زندگی کے کسی شعبہ کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے،اسی طرح اس نے سماج کے کسی طبقہ کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔کوئی بھی تحریک نوجوانوں کے بغیر زیادہ دیر تک سفر نہیں کرسکتی،نوجوان اس کے لیے تازہ خون فراہم کرتے ہیں۔،نوجوانوں کی ترجیحات و ضروریات الگ ہوتی ہیں۔ جماعت نے اول دن سے ہی طلبہ تنظیمیں قائم کیں،ابتدا میں یہ علاقہ و ریاست کی سطح پر تھیں،بعد میں کل ہند سطح کا نظم قائم کیا گیا،جسے ہم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن  ( SIO) کے نام سے جانتے ہیں۔اسی ضمن میں بچوں کے لیے بھی چلڈرنس سرکل کے نام سے تنظیم سازی کی گئی ہے۔جس میں بچوں کو دینی اعمال کا پابند بنایا جاتاہے۔ان کے اندر مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جاتا ہے۔ان کی اخلاقی تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ جوان ہوکر تحریک اسلامی،ملت اسلامیہ اور ملک کے لیے مفید بن سکیں۔
ہمارے معاشرے کا نصف حصہ خواتین ہیں جن کوعام طور پر نظر انداز کیاجاتا ہے،لیکن جماعت اسلامی نے اول دن سے ہی خواتین کا شعبہ قائم کیا۔خواتین جماعت کے جملہ پروگرام میں کی شریک رہتی ہیں۔اس طرح وہ داعیہ اور مربیہ کا رول ادا کرتی ہیں۔خواتین کے شعبہ کی طرح جی آئی او (گرلز اسلامک آرگنائزیشن)کے نام سے لڑکیوں کی آل انڈیا تنظیم ہے۔
جماعت اپنے وابستگان کی علمی صلاحیت پروان چڑھانے کی تربیت کا نظم کرتی ہے،اجتماعات میں مشقی دروس و خطابات رکھے جاتے ہیں،مضمون نگاری کے گر سکھائے جاتے ہیں،الحمد للہ آج ہزاروں مضمون نگار اور خطیب جماعت کو میسر ہیں۔
جماعت کا ایک میڈیا سیل بھی ہے،جو ایک طرف میڈیا کی گمراہ کن خبروں پر نظر رکھتا ہے اور دوسری طرف صحیح معلومات سماج کو فراہم کرتا ہے۔تیسری طرف صحافیوں کی تربیت بھی کی جاتی ہے چنانچہ کیرالہ میں میڈیا ون کے نام سے ایک ٹی وی چینل کام کررہا ہے۔پرنٹ میڈیا میں جماعت اول روز سے ہی سرگرم ہے،تقسیم ملک سے پہلے ترجمان القرآن اور انصاف کے نام سے اخبارات و رسائل شائع ہوتے تھے،اس کے بعد دعوت کے نام سے اخبار جاری کیا گیا جو آج تک جاری ہے،ہندی میں کانتی اور انگریزی میں ریڈئینس ہے،ریاستوں سے علاقائی زبانوں میں مردو خواتین اور بچوں کے لیے اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں۔لٹریچر کی دنیا میں مرکز و ریاستوں میں دارالاشاعتیں ہیں جہاں سے مختلف بھارتی بھاشاؤں میں کتابیں شائع ہوتی ہیں،مرکزی مکتبہ اسلامی ملک کا سب سے بڑااسلامی مکتبہ ہے جہاں ٹائٹل بھی سب سے زیادہ ہیں اور کتابوں کی فروختگی بھی سب سے زیادہ ہے۔اسی کے ساتھ مفت کتابیں تقسیم کرنے میں جماعت اسلامی کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
جماعت کا ایک بڑا کارنامہ اسلامی لٹریچر کو ملک کی دیگر زبانوں میں منتقلی کا ہے،اس وقت لگ بھگ پندرہ زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ موجود ہے،یہ لتریچر صرف طبع کرکے ہی نہیں رکھ لیا گیا ہے بلکہ اسے برادران وطن تک پہنچایا گیا ہے۔شروع میں بعض دینی حلقوں کی طرف سے غیر مسلموں کوقرآن دیے جانے پر اعتراضات ہوئے۔لیکن آج وہی حلقے غیر مسلموں میں دعوت کے کام کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔
جماعت نے سیاست کے شعبہ میں بھی کئی کام کیے۔اخلاق و کردار پر مبنی سیاست کا نعرہ سب سے پہلے جماعت اسلامی ہند نے دیا۔چنانچہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس کا نوٹس لیا اور ایک ضابطہ اخلاق وضع کیا،اس کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں نے اخلاق پر مبنی سیاست کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا اگرچہ عملا ً انھوں نے داغ دار سیاست دانوں کو آگے بڑھایا،اس کے بعد جماعت نے فسطائیت کے مقابلے جمہوری اقدار کے تحفظ و بقا کی بات کہی،اس جانب جملہ ملی تنظیموں اور سیکولر پارٹیوں نے اقدام کیا۔جماعت کی کوشش رہی کہ ملک میں صاف شفاف سیاست کو فروغ حاصل ہو اور آئینی جمہوریت عملی شکل میں نظر میں آئے۔
جماعت نے ملت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا اہم کام انجام دیا۔مسلم پرسنل لاء بورڈ،مسلم مجلس مشاورت،بابری مسجد رابطہ کمیٹی وغیرہ کے قیام میں جماعت نے فعال رول ادا کیا۔جماعت نے ملی ذمہ داران سے ملاقات کرکے انھیں مسلکی و فقہی اختلافات سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف جماعت کے پلیٹ فارم پر بلکہ دیگر ملی و دینی تنظیموں کے اجتماعات میں بلا تردد دیگر مسالک کے علماء شرکت کرتے ہیں۔
اسی کے ساتھ جماعت نے ملکی ایشوز پر انصاف پسند برادران وطن کو ساتھ لے کر کام کیا،کئی شنکر آچایہ اور مٹھا دھیش جماعت کے اسٹیج پر تشریف لائے،ایف ڈی سی اے میں کئی غیر مسلم تنظیموں کے نمائندے شامل ہوئے۔ایک ایسی فضا تیار کی گئی کہ ظلم کے خلاف بلا تفریق مذہب سب لوگ آواز بلند کرسکیں۔
جماعت کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے تعلق سے انصاف پسند اور معتدل رویہ اپناتی ہے۔جماعت نے اپنے مخالفین کے لیے ہمیشہ خیر خواہانہ جذبات کا اظہار کیا،کبھی تکفیر و تفسیق کے فتوے نہیں دیے جس طرح دیگر دینی تنظیمیں کرتی رہی ہیں۔یہاں حنفی،شافعی،دیوبندی،بریلوی،ندوی،قاسمی،فلاحی، اصلاحی،عصری علوم کے ماہرین و یونیورسٹیوں کے فارغین غرض ہر مکتبہ فکر سے لوگ آئے اور جماعتی فکر میں اس طرح شیر و شکر ہوکردرج ذیل آیت کی تفسیر ہوگئے۔
”اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔“(التوبہ71)
جماعت کی ایک خوبی جس سے میں بہت متاثر ہوا وہ باطل نظام پر کھلی تنقید ہے۔حکومت وقت کے غلط اور غیر آئینی فیصلوں پر تنقید اس کا طرہ امتیاز ہے۔اگرچہ اس کی وجہ سے جماعت پر کئی بار پابندیاں لگیں،رفقاء جماعت جیل میں ٹھونس دیے گئے،ان کے اہل خانہ کو ٹارچر کیا گیا ان کے ادارے بند کردیے گئے،مگرکسی بھی رفیق جماعت نے بزدلی نہیں دکھائی،کسی نے کوئی معافی نامہ حکومت کو نہیں دیا،نہ پابندی ہٹنے کے بعد تحریک سے مستعفی ہوا۔ہر رفیق نے پامردی کے ساتھ مصائب کا مقابلہ کیا۔یہ وہ خاص خوبی ہے جس میں جماعت پورے ملک میں تنہا نظر آتی ہے۔
جماعت کی ایک خوبی اس کے ارکان و کارکنان میں اخوت و بھائی چارہ ہے،یہاں امیر و مامور ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں،ہر شخص اپنے امیر سے مل سکتا ہے،امیر ایک عام انسان کی طرح رہتا ہے،ہر شخص کا احتساب ہوسکتا ہے،امیر اپنے مامورین کا جائزہ لیتا ہے تو مامورین بھی اپنے امیر کا احتساب کرتے ہیں۔امیر اور ذمہ داران جماعت اپنے اوپر کھلی تنقید کو خوش دلی سے برداشت کرتے ہیں۔یہ ماحول ہمیں سیرت رسول اور خلفاء راشدین کی زندگی میں نظر آتا ہے،ملک میں جماعت کے علاوہ باقی تنظیموں نے اپنے یہاں امیر اور مامور کے مابین تقدس کا پردہ حائل کررکھا ہے۔سب کچھ شیخ اور حضرت کے ارد گھومتا ہے،کوئی سوال نہیں کرسکتا،کوئی تنقید نہیں کی جاسکتی۔کسی احتساب کے عمل کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔الحمد للہ صرف جماعت اسلامی واحد تنظیم ہے جس کے یہاں تنقید و احتساب ہر سطح پر موجود ہے۔
جماعت نے اپنے وابستگان کو کتاب سے وابستہ کیا ہے،جو قوم کتابوں سے اپنا رشتہ منقطع کرلیتی ہے وہ ترقی نہیں کرسکتی۔جماعت کا ہر فرد کتاب سے وابستہ ہے۔اسے روزانہ قرآن مجید ترجمہ وتشریح کے ساتھ پڑھنا ہے۔اسے سیرت و لٹریچر کا مطالعہ لازمی کرنا ہے۔اسے دوسروں کو بھی مطالعہ کرانا ہے اور ان کے درمیان کتابیں تقسیم کرنا ہے وغیرہ ۔
جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کو 75سال ہورہے ہیں۔جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ  اہل ملک کوجماعت اسلامی کا مختصر اور مکمل تعارف کرایا جائے ۔ اس لیے کہ جماعت کے بارے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں بڑی غلط فہیمیاں پائی جاتی ہیں،عجیب و غریب باتیں لوگ جماعت کے بارے میں کرتے ہیں۔جماعت اسلامی ہند اس ملک میں پرامن تحریک ہے،جس کا مقصد انسانوں کو اپنے پالنہار کے سامنے جھکانا ہے۔وہ برادران وطن سے گزارش کرتی ہے کہ وہ اسلام کاکھلے دل سے مطالعہ کریں۔وہ مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ اسلام کے سچے نمائندے بنیں،وہ ملت کے سربرآوردہ لوگوں سے کہتی ہے کہ مسلکی و فقہی اختلافات سے اوپر اٹھ کر احیاء دین کے لیے کمر بستہ ہوں،وہ برادران وطن سے التجا کرتی ہے کہ ملک میں نفرت کے بجائے محبت کا ماحول باقی رکھیں،وہ سیاسی جماعتوں سے چاہتی ہے کہ بھارتی آئین کا تحفظ کیا جائے۔وہ اہل حکومت کو ان کا فرض منصبی یاد دلاتی ہے۔جماعت اسلامی ہند ملک کے ہر طبقہ کے لیے خیر خواہی کے جذبات رکھتی ہے۔وہ بلا تفریق خدمت خلق کرتی ہے۔میری گزارش ہے کہ قارئین، جماعت اسلامی ہند کو سمجھیں اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملائیں اور ملک کو نئی اونچائیوں پر پہنچائیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔

«
»

انساں کے قول و فعل میں بڑھتا ہوا تضاد!

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی :تازہ سروے کے پریشان کن نتائج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے