موضوع تھا ’’وزیراعظم مودی کی مسلمانوں کے دھرم گروؤں سے ملاقات اور گفتگو۔‘‘ تواضع کے بعد یہ پیشکش کہ آپ حضرات کے لئے رات کے بارے بجے بھی میرے دروازے کھلے رہیں گے سبء سے اہم تحفہ تھا۔
اللہ تیری شان کے قربان جائیے
جن کے اوپر وزیر اعظم کی مدارت اور ملاقات کا نشہ سوار تھا وہ مودی کو امیرالمومنین ثابت کرنے پر تلے تھے۔ کچھ لوگ اسے موقع پرستی ثابت کررہے تھے۔ بی جے پی کے لوگ گھوم پھر کر اسے اچھی شروعات ثابت کررہے تھے اور اویسی وہی کررہے تھے جس سے وہ مسلمانوں کے قائد اعظم بن سکیں۔ دھرم گرو کہے جانے والے مولوی صاحبان۔ مودی کا قصیدہ پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ مسلمانوں کے لئے سب کچھ کرنے پر تیار ہیں۔ انہوں نے اس بات پر دُکھ کا اظہار کیا کہ مسلمان ان سے الگ الگ رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اویسی صاحب نے دُکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا اور مودی صاحب کے اس اقدام کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کیا مودی صاحب ذکیہ جعفری سے ملنے کے لئے تیار ہیں؟ سہراب الدین کے بھائی سے ملاقات کرنا پسند کریں گے؟؟
ہمارے نزدیک دونوں کی گفتگو میں خلوص اور مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جن حضرات کو مودی صاحب کے کسی ظفر سریش والا جیسے مسلمان نے دھرم گرو کہہ کر بلایا انہیں ہمارے جیسے پچاس برس سے اخبار اور صحافت سے جڑے ہوئے انسان نے بھی نہیں پہچانا۔ ہم نہیں کہتے کہ وہ مسلمانوں کے ہمدرد یا مخلص نہیں تھے۔ نہ ہم یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ انہیں مسائل نہیں معلوم تھے اور نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا کوئی حلقۂ اثر نہیں ہوگا۔ ان میں دو چار مساجد کے امام تھے اور کسی مدرسے کے مدرّس یا کسی درگاہ کے مجاور وسجادہ نشین۔ ملک کا وزیر اعظم اگر 20 کروڑ مسلمانوں کے متعلق یہ جاننا چاہے کہ انہیں حکومت سے کیا کیا شکایات ہیں؟ یا وہ ان کی حکومت میں اپنے کو محفوظ کیون نہیں سمجھتے؟ تو یہ بات اگر جامع مسجد کے امام اور ملک کی تمام بڑی مساجد کے امام اور اجمیر میں خواجہ غریب نواز کے مزار کے سجادہ نشین اور مجاور یا تمام بڑے بڑے بزرگوں کے مزار کے سجادہ نشین بھی اگر جمع ہوجائیں تو انہیں مسلمانوں کا ترجمان نہیں مانا جائے گا۔
پہلی بات یہ کہ مسلم علماء اور اماموں کو دھرم گرو کیوں کہا گیا؟ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی گالی یا توہین کا کلمہ ہے۔ جیسے عیسائیوں کے سب سے محترم پوپ ہوتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کے دینی پیشوا کو عالم دین کہا جاتا ہے۔ مودی صاحب ہوں، صدر پرنب مکھرجی ہوں یا کوئی بھی سیاسی ذہن رکھنے والا تعلیم یافتہ ہندو وہ جانتا ہے کہ انہیں مولانا کہا جاتا ہے۔ ملک کی آزادی کی تاریخ میں جہاں کہیں ابوالکلام آزاد کا نام آیا ہے وہاں انہیں مولانا آزاد لکھا اور کہا گیا ہے اور آج تک کسی نے انہیں دھرم گروہ نہیں کہا اس لئے کہ دھرم اور مذہب میں باریک فرق ہے کسی صراحت کی ضرورت نہیں۔
اسدالدین اویسی صاحب نے بھی جو چھیڑنے کے لئے ذکیہ صاحبہ یا سہراب الدین کا نام لیا وہ بھی انفرادی مسئلہ ہے۔ اگر وہ ملنا چاہیں تو ایک وزیر اعظم کا فرض ہے کہ چاہے پانچ منٹ دیں مگر ان کی شکایت سننا چاہئے۔ مودی صاحب اگر واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کسی مسلمان سے ملنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے پاس ان کی خفیہ ایجنسیاں اتنی چاق و چوبند ہیں کہ ان کے پاس مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ہر اجلاس کی ہر تجویز اور اس میں کی گئی ہر تقریر موجود ہے۔ وہ انہیں حکم دے سکتے ہیں کہ مسلمان علماء اور دانشوروں نے اب تک جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ نکال کر دے دو۔ اور پھر وہ ان میں سے صرف دس مطالبات کو عملی جامہ پہنا دیں اور مسلمانوں سے کہیں کہ یہ تو میں نے کردیئے۔ اب مزید بتاؤ؟
جیسے جتنے مسلمان دہشت گردی کے الزام میں بند ہیں یا آئندہ ہوں ان پر پوٹا، ٹاڈا اور مکوکا نہ لگایا جائے پہلے عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ جن پر لگا ہے ان کے اوپر سے ایسے ہی اُٹھا لیا جائے جیسے ہندو دہشت گردوں کے اوپر سے اٹھالیا گیا۔ ہم کسی کو پاک صاف اور بے گناہ نہیں کہتے لیکن پولیس کو بھی یہ حق نہیں دینا چاہئے کہ وہ جسے چاہے گناہگار کہہ کر جیل میں ڈال دے۔ اب تک کم از کم ایسے سو سے زیادہ انتہائی شریف اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کو برسوں جیل میں سڑانے کے بعد باعزت بری کیا ہے انہیں معاوضہ کیلئے ایک کمیشن بناکر فیصلہ کیا جائے اور انہیں اتنا معاوضہ دیا جائے جتنا ان کا خرچ ہوا جو کروڑوں سے زیادہ ہے۔ مودی صاحب کو معلوم ہے اور نہ معلوم ہو تو ارون جیٹلی سے معلوم کرلیں کہ سپریم کورٹ کے بڑے وکیل کی فیس دس لاکھ ہے یا بارہ لاکھ کیونکہ جو باعزت رہا ہوئے ہیں ان میں اکثر سپریم کورٹ سے ہوئے۔ اور آج کے زمانہ میں دس پندرہ برس مقدمہ کا سامنا اور گھر کی بربادی یہ سب پیش نظر رکھ کر اپنے پولیس محکمہ کی مسلم دشمنی کی تلافی کریں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر اس پولیس والے کے خلاف کارروائی کریں جس نے گرفتار کیا اور ثبوت اس لئے نہیں دے سکا کہ ثبوت تھے ہی نہیں۔ پھر بھی انہیں برسوں جیل میں رکھا اور جیسے رکھا اس کی معلومات وہ خود کرلیں۔ ہم گجرات کی کوئی بات نہیں کرتے۔ اس لئے کہ وہ جذباتی ہوجائیں گے ہم فرید آباد کے اٹالی کی بات کررہے ہیں۔ وہاں ایک مسجد کیوں نہیں بننے دی؟ کیوں ہر مسلمان کا گھر جلا دیا یا لوٹ لیا؟ اور کیوں وہاں ننگا ناچ ناچا گیا کہ تمام مسلمان جان بچانے کے لئے ہفتوں تھانے میں پناہ لئے پڑے رہے؟؟؟ این ڈی ٹی وی انڈیا کے رویش کمار نے چار دن پہلے اٹالی کا دورہ کیا۔ مسجد کا ڈھانچہ دکھایا مسلمانوں کی بربادی دکھائی اور جاٹوں کی چوپالوں میں بیٹھ کر باتیں کیں۔ ان میں کالے بال والوں نے کہا کہ مسلمان اپنے گھروں میں آجائیں ہم بات ختم کردیں گے مگر کسی کی گرفتاری نہیں ہوگی۔
مودی صاحب کے بنائے ہوئے وزیراعلیٰ ہریانہ میں ہیں کیوں دونوں سن کر خاموش ہیں؟ کیوں حکم نہیں دیا گیا کہ کوئی مسلمان گاؤں سے نہیں جائے گا۔ اور جنہوں نے حملہ کیا اور سب کچھ برباد کردیا تو اب تک ان کی کیوں گرفتاری نہیں ہوئی؟ مسلمانوں کو مارنے والے ان کے مکانوں کو جلانے اور لوٹنے والے کسی جاٹ کو کیوں گولی نہیں ماری گئی؟ اور اب تک کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ اور سنگھ کے پرچارک وزیر اعلیٰ اٹالی کیوں نہیں گئے؟
مودی صاحب کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کا سب سے معتمد اور محترم ادارہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے۔ مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہو، سیاسی معاملہ ہو یا اقتصادی معاملہ ہو اس بورڈ میں ہر معاملہ کے ماہر موجود ہیں۔ اگر وزیر اعظم سنجیدہ ہیں تو وہ بورڈ کے صدارر کو لکھیں کہ وہ اپنا ایک مختصر وفد بھیجیں جس میں ایک عالم ایک وکیل ایک سیاستداں ایک معاشیات اور اقتصادیات کا ماہر ہو اور اُن کے لئے دو گھنٹے کا وقت رکھیں پھر جو وہ بتائیں اس کے متعلق دیانت داری سے کہیں کہ وہ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں؟ مسلمانوں کی کسی سیاسی پارٹی سے رشتہ داری نہیں ہے۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ اٹالی نہیں گئے تو یہ وہی ہوا جو ہر وزیر اعلیٰ کرتا آیا ہے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو۔ پھر فرق کیا ہوا؟ مسلمان اگر کھلا ہوا فرق دیکھیں گے تو وہ خود بی جے پی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے کسی بھی دھرم گرو کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مودی صاحب کا احسان ہوگا اگر وہ زخمی اور خوفزدہ مسلمانوں کے ساتھ مذاق نہ کریں اور اگر کچھ نہ کرنا ہو تو اُن کے حال پر چھوڑ دیں اور کرنا ہو تو کسی دھرم گرو کے کہے بغیر اپنے طور پر کردیں۔
جواب دیں