جاہلوں، گنواروں اور بدوؤں کا جنون جنگی ہوتا ہے نفرت کا کینسر ہندستان کو اندر اندر کھائے جا رہا ہے

تحریر: مانینی چٹرجی ۔۔۔ ترجمہ و تبصرہ: عبدالعزیز

’’سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے 14فروری کے پلوامہ میں خودکش حملے میں 40سی آر پی ایف کے جوانوں کے مارے جانے کے بعد کہا ہے کہ ہندستان اور پاکستان میں جنگی جنون بڑھ گیا ہے اور جنگ کی باتیں آئے دن ہورہی ہیں۔ انھوں نے کہاہے کہ جنگ کی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو جاہل، گنوار اور نرا دیہاتی ہوتے ہیں۔دونوں ملکوں میں ایٹمی ہتھیار کی طاقت ہے اس وجہ سے میں سمجھتی ہوں کہ جنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ہے‘‘۔ 
میرے خیال سے ان کا کہنا سو فیصدی صحیح ہے کہ جنگ دونوں ملکوں کیلئے کوئی اوپشن (Option)نہیں ہے، لیکن محبوبہ مفتی کی دوسری بات صحیح نہیں ہے کیونکہ جو لوگ جنگ کی باتیں کر رہے ہیں اور جن کے اندر جنگ کا جنون پایا جاتا ہے وہ تعلیم یافتہ، صاحب اختیار اور عہدیدار ہیں۔ پلوامہ حملہ میں فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد کی ہلاکت پر غصہ پیدا ہونا فطری بات ہے اور یہ بات قابل فہم بھی ہے۔ پاکستان کی عسکری تنظیم ’جیش محمد‘ کا خود کش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنا بھی غیر فطری نہیں ہے۔ ایسی قبیح ذہنیت اور غیظ و غضب کے لوگ پاکستان ہی کے اشارے پر کرتے ہوں گے۔ ایسے لوگ جو اقتدار کی کرسی پر فائز ہیں اور صائب الرائے ہیں ان کیلئے ضروری تھا کہ وہ اس پختہ جمہوریت میں قومی پیمانے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے۔ ہندستان میں اس سے پہلے بھی اشتعال انگیزی اور غیظ و غضب کا مظاہرہ ہوا ہے اور پاکستان کے خلاف جنگ کا جنون بھی پیدا ہوا ہے۔ خاص طور پر 1971ء میں، لیکن کافی تیاری اور احتیاط کے ساتھ۔ لیکن گزشتہ دس روز سے جو اشتعال انگیزی اور جنگی جنونیت ہندستان میں پیدا ہوئی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ملک کی مختلف جگہوں پر کشمیری طالب علموں اور تاجروں پر حملے بھارتیہ جنتا پارٹی اور ان کے وابستگان کے ذریعے ہوئے ہیں۔ یہ جنگی جنون کی ناقابل بیان مثال ہے۔ یہاں تک کہ 22فروری کو سپریم کورٹ کو بھی تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایت دینی پڑی کہ وہ فوراً ان لوگوں پر ایکشن لیں جو کشمیریوں اور اقلیتوں پر حملے کر رہے ہیں، دھمکی دے رہے ہیں اور سماجی بائیکاٹ کی بات کہہ رہے ہیں۔ سماج سیوک نریندر مودی نے بھی سپریم کورٹ کے بعد اپنی چپی توڑی ہے اور کہا ہے کہ ہماری جنگ کشمیر یا کشمیریوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ کشمیر کو بچانے کیلئے ہے۔ جولوگ اس حملے کے خلاف بول رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں انھیں غدارِ وطن کہا جارہا ہے اور جو لوگ پاکستان کی مخالفت میں اتر پڑے ہیں وہ بھی ناپختہ اور تنگ ذہنیت کے شکار ہیں۔
مثلاً کرکٹ کو ہی لے لیجئے، کرکٹ ایک کھیل ہے جس کے شیدائی دونوں ملکوں میں پائے جاتے ہیں ۔ بدقسمتی سے برصغیر ہندو پاک میں اس کھیل کی وجہ سے بھی تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان اور ہندستان کے مابین کھیل کے بارے میں پہلے بھی تناؤ پیدا ہوا تھا لیکن کرکٹ ایسوسی ایشن سے پاکستان کے مشہور کھلاڑیوں کی تصویریں کلبوں سے ہٹانے کی بات نہیں ہوتی تھی۔ یہ بہت عجوبہ قسم کا احتجاج ہے کہ بمبئی کے مشہور کرکٹ کلب نے 1992ء کے پاکستانی کرکٹ کھلاڑی عمران خان جو عالمی کپ جیت کر لائے تھے اپنے ملک کیلئے اور اب وہ وزیر اعظم پاکستان ہیں ان کی تصویر کو لیپ پوت کر برباد کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ کلب کے سکریٹری نے فرمایا کہ سی سی آئی کھلاڑیوں کی انجمن ہے لیکن کھیل سے پہلے قوم ہے۔ ہم لوگوں نے پلوامہ کے فوجیوں پر حملے کے دوسرے دن میٹنگ بلائی اور حملے کی مذمت کی اور یہ بھی فیصلہ کیا کہ تصویر کو ڈھانپ (Cover) دیا جائے۔ ہم لوگ جلد ہی فیصلہ کریں گے کہ تصویر کیسے ہٹائی جائے۔ بمبئی کے بعد کرناٹک، پنجاب، راجستھان اور ہماچل پردیش جیسی ریاستوں کے کلبوں سے پوٹریٹس (شبیہ) ہٹا دی گئیں۔ گزشتہ سال جون کے مہینہ میں ایسی بچکانہ حرکتیں پاکستان کے خلاف میچ نہ کھیلنے کیلئے کی گئی تھیں۔ کھلاڑی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔
بی سی سی آئی ایک قدم آگے چلا گیا ہے کہ آئی سی سی کو خط لکھا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کو ورلڈ کپ سے باہر کیا جائے اور ان تمام ملکوں کا بائیکاٹ کیا جائے تو انتہا پسندی کو ہوا دیتے ہیں۔ کمیٹی کے ایڈمنسٹریٹر ونود رائے نے اس انتہا پسند ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم لوگوں نے یہ قدم اس لئے اٹھایا ہے تاکہ قوم کے جذبات کی ترجمانی ہوسکے۔ ہم لوگ کرکٹ کمیونٹی سے قریب نہیں ہیں، ہم لوگ قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر دنیا کے دوسرے ممالک یہی کچھ کرنے لگیں تو بی سی سی آئی کی حرکت کامیاب ہوگی۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے ہندستان کے اس فیصلے کو غلط قرار دیا ہے کہ پاکستانی شوٹرس کو جو دہلی آنے والے تھے ان کو ویزا دینے سے انکار کردیا ہے۔ آئی او سی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی اصول و ضابطے کے خلاف ہندستان نے یہ کام کیا ہے جو ایک طرح سے سیاسی مداخلت کے مترادف ہے۔ اس کے نتیجے میں بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی او سی کی انتظامیہ بھی یہ فیصلہ لے چکی ہے کہ ہندستان کے این او سی کو ختم کر دے گی اور ہندستان کی سر زمین پر آئندہ کسی دوسرے ملک کے کھلاڑی کے کھیلنے پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا ہے کہ آئی او سی نے تمام ملکوں کو خط لکھ دیا ہے کہ ہندستان میں کوئی میچ یا کھیل نہ کھیلیں جب تک کہ ہندستان دیگر ملکوں کے کھلاڑیوں کے کھیل کو اپنے ملک میں ہونے سے روکتا ہے۔ 
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق صدر اور مودی حکومت کے وزیر نیتِن گڈکری نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان کو پانی کی سپلائی بھی روک دی جائے گی۔ ہم لوگ مشرقی ندیوں کا پانی دوسری طرف منتقل کر دیں گے اور یہ پانی جموں و کشمیر کے لوگوں کو کام آئے گا۔ ورلڈ بینک ’انڈس واٹر ٹریٹی‘ کا ضامن ہے اس لئے بین الاقوامی نمائندگی پر اگر کوئی اثر پڑتا ہے تو پوری دنیا میں اس کا رد عمل ہوگا۔ جس کی وجہ سے ہندستان کی دھمکی باقی نہیں رہے گی۔ ان چیزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنی قوم کو کتنا بدل دیا ہے، یہاں تک کہ ہندستان و پاکستان میں جنگ ہوئی ہے تو پانی کی سپلائی کو روکا نہیں گیا ہے۔ دونوں ملکوں میں غریب، کسان، مزدور رہتے ہیں۔ پانی کی سپلائی کو روکنا کس قدر غیر انسانی فعل ہوسکتا ہے ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اور یہ ملک جسے ہم ہندستان کہتے ہیں دنیا جانتی ہے کہ یہ گوتم بدھ اور مہاتما گاندھی کی سر زمین ہے۔ ہندستان میں پانچ سال سے ایسی ذہنیت پیدا ہوئی ہے کہ اقلیتوں پر حملہ کیا جارہا ہے اور جو اس کے خلاف بات کر رہے ہیں ان کو غدار ٹھہرایا جارہا ہے۔ ہم میں کوئی ایسا نہیں ہے جو ہماری حکومت سے کہے کہ وہ سرکار اور عوام میں تمیز کرے۔ نہ کوئی ایسا ہے کہ اس پر انگشت نمائی کرے کہ سرکار ایسے لوگوں اور خاص طور پر میڈیا کے لوگوں اور اسپورٹس کے نمائندوں کی کیوں ہمت افزائی کر رہی ہے۔ اگر اس کو چور دروازے سے اس طرح کا کام نہیں کرنا ہے تو پاکستان سے اپنے سفارتی تعلقات کو کیوں نہیں توڑ لیتی ہے۔ ان تمام کھلاڑیوں میں ایک نوجوت سنگھ سدھو ہی ایسے کھلاڑی ہیں جن کو قدرت نے ہمت عطا کی ہے کہ انھوں نے پلوامہ حملے کی مذمت کی لیکن اس حقیقت کو بھی ظاہر کیا کہ جہاں جنگ کی بات ہوتی ہے وہاں بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہئے۔ مٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے پوری قوم کو بدنام نہیں کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی کسی خاص شخصیت پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے۔نوجوت سنگھ سدھو کی اس بات کا لوگوں نے مذاق اڑایا اور اسے نظر انداز کردیا۔ بہت سال پہلے اسے غداری کا عمل قرار دیا جاتا تھا۔ 
یونین منسٹر اور سوشل میڈیا کے جنگجو جو فیس بک میں نظر آتے ہیں وہ نہ ان پڑھ ہیں نہ گنوار ہیں جو سدھو کو غدارِ وطن ٹھہراتے ہیں اور ان کے ٹی وی شو کے بائیکاٹ کی دھمکی دیتے ہیں۔ حکمراں جماعت اور سنگھ پریوار اس بیہودہ حرکت کو قومی جذبات سے تعبیر کرتے ہیں۔ پلوامہ حملے کا بدلہ معصوم اور بے گناہ کشمیریوں سے لینا چاہتے ہیں۔ یہ ہندوتوا کی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہندوتوا کے حامی سرحد پار کے لوگوں سے اور اپنے لوگوں سے نفرت کا سلوک اور پرچار کرتے ہیں لیکن اپنے لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانا آسان ہے بہ نسبت سرحد کے پار لوگوں پر ۔ اب اپنے لوگوں پر بہت سی چیزیں لادی جارہی ہیں اور ان سے زبردستی کہا جارہا ہے کہ وہ کیا کھائیں، کیا پہنیں اور کس کی عبادت کریں۔ حکمت عملی کے تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی کے اقتدار پسندوں سے سو طرح کی جنگ کی کرسکتے ہیں اور ان کا خون بہا سکتے ہیں لیکن زیادہ خطرناک ہے اپنے لوگوں سے لڑا جائے، نفرت کی جائے ۔ یہ پاگل پن کا جنون ہے کہ اپنے لوگوں کو دھمکی دی جائے۔ ایسی چیزیں ہمارے اندر بیمار ذہنیت کا پتہ دے رہی ہیں اور ہمارے اندر نفرت کا کینسر پھیل رہا ہے جو ہمیں دن بدن گھلا گھلا کر کھوکھلا کر رہا ہے‘‘۔ (دی ٹیلی گراف، 25 فروری 2019ء) 
تبصرہ: مانینی چٹرجی ہندستان کی معروف اور قابل قدر خاتون صحافی ہیں اور اس وقت ملک کی صورت حال کو بے خوف و خطر پیش کرتی ہیں اور ہندستان کے کثیر الاشاعت انگریزی اخبار ’دی ٹیلیگراف‘ میں مہینے میں تین چار مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں بھی جس طرح ملک کی جنگی جنونیت پر انگلی اٹھائی ہے وہ قابل توجہ اور قابل غور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں کئی سالوں سے کشمیری کے مسئلے کو لے کر انتہا پسندی کا مظاہرہ ہورہا ہے اور پاکستان ایک پروکسی وار بھی کئی سال سے لڑ رہا ہے۔ جو لوگ انتہا پسند ہیں وہ حکومت پاکستان اور فوج سے بھی نبرد آزما ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ امریکہ جیسا سامراجی ملک پاکستان کا آقا بنا ہوا تھا اور اس کے ہی اشارے پر بہت سے کام ہوتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں آرمی ، امریکہ اور اللہ تین طاقتیں کام کر رہی ہیں۔ حالانکہ امریکہ ہی سب کچھ کر رہا تھا اور جب بھی کسی نے امریکہ کو آنکھ دکھانے کی کوشش کی اس کے اقتدار اور ا س کی جان پر آگئی۔ اور ہر اقتدار پسند پاکستان میں امریکہ کے بل بوتے پر حکومت کرنا چاہتا تھا، الا ماشاء اللہ ۔
’پاکستان تحریک انصاف‘ کے بانی اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فوج کی وجہ سے ان کو اقتدار ملا ہے لیکن اقتدار پر فائز ہونے سے پہلے اور اس وقت کی جو ان کی باتیں ہیں اس میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جو لوگ انتہا پسند ہیں ان کی تعداد بیس پچیس ہزار سے زیادہ نہیں ہے اورپاکستان کی فوج سات لاکھ سے زیادہ ہے۔بظاہر ان کو ختم کرنا آسان ہے لیکن جو لوگ فدائین ہیں اور اللہ کے راستے میں جان دینا چاہتے ہیں کوئی آرمی، کوئی فوج ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ افغانستان میں روس اور امریکہ جیسی دو بڑی طاقتوں کو ایسے لوگوں سے ہار ماننی پڑی۔ پہلے روس کو افغانستان سے اپنی فوج کو ہٹانا پڑا اور افغانستان سے لڑنے کے نتیجے میں روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور روس جسے دو بڑی طاقتوں میں سے ایک کہا جاتا تھا وہ طاقت بھی باقی نہیں رہی۔ اس کا نظریہ بھی ماسکو میں پریشان حال رہا۔ اب امریکہ کی فوج بھی افغانستان سے واپس جارہی ہے۔ ہم اگر پاکستان میں امریکہ کے عمل دخل کو ختم کرنے پر کامیابی ہوگئے اور میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ اپنے ملک پاکستان میں امریکہ کی ہر قسم کی مداخلت کر دیں تو انتہا پسندی یا دہشت گردی یا جہادی گروپ خود بخود ختم ہوجائے گا کیونکہ ان کی سب سے بڑی دشمنی امریکہ سے ہے اور امریکہ کا ناجائز بچہ اسرائیل سے ہے۔ آج ایران میں کوئی دہشت گردی نہیں ہے محض اس وجہ سے کہ امریکہ اور روس دونوں کو ایران میں اپنے ملک سے راندۂ درگاہ کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے سفارت خانوں کو بھی بند کر دیا ہے۔ ان کے سفارت خانوں کو وہ جاسوسی کا اڈہ بتاتے ہیں۔ ’انڈیا ٹوڈے‘ کے پروگرام ’کنکلیو‘ میں ڈیڑھ سال پہلے مشہور صحافی راہل کنول کے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے یہی باتیں کہی تھیں اور وعدہ کیا تھا کہ تین مہینے میں وہ دہشت گردی ختم کر دیں گے۔ جس وقت وہ یہ کہہ رہے تھے ان کو شاید حکومت کے نشیب و فراز اور سیاہ و سفیدی کا کوئی تجربہ نہیں تھا کہ اس میں کتنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ میرے خیال سے وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں لیکن جو انتہا پسند تنظیمیں پاکستان میں ہیں ان کو یکلخت ہٹانا یا ان پر پابندی عائد کرنا ان کیلئے آسان کام نہیں ہے، کیونکہ ان تنظیموں کا بھی ڈانڈا آئی ایس آئی سے ملا ہوتا ہے۔ اس لئے ہندستان کے جو بہت اچھے صحافی اور تجزیہ نگار ہیں ان کی یہ بات اگر مان لی جائے کہ عمران خان کو بھی کچھ موقع دیا جائے تو شاید ہندستان و پاکستان میں حالات معمول پر آسکتے ہیں۔ 
ہندستان کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں ایک تعصب پسند، فرقہ پرست پارٹی برسر اقتدار ہے، اس کو پاکستان اور مسلمان کی مخالفت اور دشمنی ہی راس آتی ہے اور اسی کے بل بوتے پر ہی اس کی حکومت ہوئی ہے اور سامنے لوک سبھا الیکشن بھی ہے جس کی وجہ سے مودی جی کبھی نہیں چاہیں گے کہ دونوں ملکوں کے حالات معمول پر آئیں۔ پاکستان کیلئے بھی ضروری ہے کہ ہندستان کی جو اس وقت صورت حال ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے ملک کی انتہا پسند تنظیموں پر کڑی نظر رکھے تاکہ دہشت گردانہ حملے نہ ہونے پائیں۔ نریندر مودی کا بھی یہی حال تھا جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے چار پانچ سوالات تھے جو منموہن سنگھ سے کرتے تھے کہ ہندستان کی کمزور حکومت کی وجہ سے ہندستان میں دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں اور سرحد پار سے دہشت گردی کا سلسلہ بند نہیں ہورہا ہے۔ نکسلائٹ بھی ہمارے فوجیوں کو آئے دن موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں جبکہ ہماری فوج ہے، ہمارے پاس طاقت ہے، خفیہ محکمہ ہے، سرحد پر پہرہ ہے، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ دھماکہ خیز مادہ آر ڈی ایس کہاں سے آتا ہے اور خطرناک ہتھیاروں کی سپلائی کہاں سے ہوتی ہے۔ ریزرو بینک بھی حکومت کے قبضے میں ہے پھر یہ دہشت گردوں کو پیسے کہاں سے ملتے ہیں؟ ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ آتے ہی سب کچھ بند کر دیں گے۔ ابھی کئی دنوں سے فیس بک میں ان کی یہ تقریر سنی جارہی ہے اور یو ٹیوب میں بھی سنی جاسکتی ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے ان کے دور حکومت میں دہشت گردی، نکسلی حملے دس گنا کیوں بڑھ گئے ہیں۔ کیا وہ اپنی کمزوری، لاچاری، بیوقوفی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ میرے خیال سے نریندر مودی کو بھی اگر ملک سے محبت ہے تو وہ بھی سوچیں اور عمران خان کو بھی موقع دیں جس طرح نواز شریف کے بلائے بغیر پاکستان چلے گئے تھے تو آج ان کو یہ سب کچھ کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ وہ یہی ایک ہے کہ ان کا ووٹ کم ہوجائے گا۔ ان کے ووٹرس ان کی مخالفت کرنے لگیں گے اور من کی بات میں وہ اپنی منمانی کرنے کا وعدہ جیسا کہ انھوں نے حالیہ ریڈیائی تقریر میں کی ہے نہیں کرسکیں گے۔ مختصراً یہ ہے کہ سیاسی لیڈروں کی غلط حکمت عملی سے فوجی اور سیویلین دونوں مارے جارہے ہیں اور دونوں ملکوں میں غریبی بڑھ رہی ہے۔ سرحد پر تناؤ ہے۔ یہ سب اچھے سیاست داں، اچھے مدبر ہی سے ختم ہوسکتا ہے۔ نریندر مودی جیسے سیاستدانوں سے توقع نہیں کی جاسکتی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
26؍فروری2019(ادارہ فکروخبر)

 

«
»

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی

آتنکی حملے کیوں ہوتے ہیں؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے