جہیز لینے والے مرد کیا شرعی طور پر ”کُفو“ (میچِنگ) ہوسکتے ہیں؟

       ڈاکٹر علیم خان فلکی

    صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد      9642571721  

جہیزاور بارات کی نحوست نے دین اور امّت کو کتنا نقصان پہنچایا، آیئے ایک نئے زاویہ سے جائز لیتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان بزرگوں کے لئے غورطلب ہے جو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیوں کے فریضے ادا کرکے اب پوتا پوتی اور نواسے نواسیوں کی شادیوں کے انتظار میں ہیں۔ یہ لوگ نماز روزے اور عمرے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں، امت کی ترقی کے لئے بڑی پیاری پیاری باتیں کرتے ہیں۔ امت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا بہت زبردست تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں خود اِن لوگوں نے رسم و رواج کو قائم رکھنے کی کوشش میں اسلام کے احکاماتِ نکاح کو کتنا نقصان پہنچایا، بلکہ تباہ کرکے رکھ دیا۔
شادی کے لئے دوسرے مذاہب یا کلچرز میں اتنا کافی ہے کہ مرد، مرد ہو یعنی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہو۔ چاہے وہ بوڑھا ہو، شرابی ہو، چورہو، جہاں بھی لڑکی کے ماں باپ اس کو شادی کرکے دے دیں، عورت کو اسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، مرنے تک اسی کو بھگوان سمجھ کراُس کی پوجا کرنی ہے، جس گھر میں عورت کی ڈولی جائے وہاں سے اس کا ڈولا اٹھنے تک اسی گھر میں قید رہنا ہے، جیسا بھی سلوک اس کے ساتھ کیا جائے برداشت کرنا ہے۔ لیکن اسلام نے عورت کو اس جہنّم سے باہر نکالا اور عورت کو جینے کی آزادی دی۔ اس کو شوہر کے انتخاب کا حق دیا، مہر فِکس کرنے کا اختیار دیا، سب سے بڑا اختیار یہ دیا کہ جب تک شوہر اس کے ساتھ انسانیت اور پیار سے رہے، وہ اس کا ساتھ دے سکتی ہے، اگر مرد نے اپنا رویّہ بدلا اور اس کو کمزور سمجھ کر اس کا استحصال کرنا شروع کیا تو عورت اس سے فوری خلع لے سکتی ہے۔ اسی طرح، جس طرح اگر عورت اگر سرکشی کرے تو مرد اس کو طلاق دے سکتا ہے۔ اسلام نے اس قدر شاندار اصول دیا ہے کہ جب تک پیار ہے ساتھ رہو، ورنہ خوشی خوشی الگ ہوجاؤ، اور اپنی زندگی نئے سرے سے بسالو۔ عورت کو یہاں تک آزادی دی گئی کہ مرد اگر طلاق دیتاہے تو اسے قاضی کے سامنے وجہ بیان کرنی ہوگی، لیکن اگر عورت خلع چاہتی ہے، اور قاضی کو سبب بتانا نہیں چاہتی  تو قاضی عورت کو مجبور نہیں کرسکتا۔ سبحان اللہ۔ کیا دنیاکا کوئی قانون عورت کو اتنا بڑا مقام دے سکتا ہے؟ لیکن افسوس، صد افسوس کہ ہم نے ساتویں صدی میں کلمہ پڑھ کر اسلام تو قبول کیا تھا، لیکن ہمارے ذہن جو کل تک برہمن شاستر کو ماننے والے تھے، آج تک وہی ہیں۔ ہم نے عورت کو وہ مقام ہی نہیں دیا جو اسلام نے دیا تھا۔ عورت کو جتنے اختیارات اسلام نے دیئے تھے، وہ سارے کے سارے جہیز کی رسم نے ایک ایک کرکے چھین لیئے۔ آج عورت وہیں کھڑی ہے جہاں اسلام سے پہلے کھڑی تھی۔ جب عورت کو معلوم ہے کہ اس کی شادی کے لیئے ماں باپ کو گھر بیچنا پڑتا ہے، کیا وہ مرد کی ذرا سی بھی نافرمانی کرنے، طلاق یا خلع لینے کی ہمت کرسکتی ہے؟ وہ سوائے ایک لونڈی بن کر رہنے کے اور کچھ نہیں کرسکتی۔ اس کو پتہ ہے کہ اگر مرد سے الگ ہوگی تو پھر دوسرے مرد سے شادی کے لئے اس کے ماں باپ کے پاس بیچنے کے لئے کچھ نہیں ہوگا۔
شادی کے لئے اسلام نے عورت سے زیادہ مرد پر قابلیت ثابت کرنے کی شرائط رکھی ہیں۔ اس کا صرف بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہونا کافی نہیں ہے۔ عورت سے نکاح کے لئے مرد میں جو قابلیتیں درکار ہیں اس کو ”کفاء ت“ کہتے ہیں۔ یعنی Matching

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے