محمد اظہر شمشاد مصباحی اجی سنتے ہیں! آپ کے بچپن کا دوست حامد آیا ہے شاہد کی بیوی نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔شاہد یہ سن کر خوشی میں دوڑتا ہوا کمرے کی طرف گیا جہاں حامد پہلے سے بیٹھا تھا۔دونوں نے فوراً ایک دوسرے کو گلے لگا کر کچھ دیر خاموش اپنے […]
اجی سنتے ہیں! آپ کے بچپن کا دوست حامد آیا ہے شاہد کی بیوی نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔شاہد یہ سن کر خوشی میں دوڑتا ہوا کمرے کی طرف گیا جہاں حامد پہلے سے بیٹھا تھا۔دونوں نے فوراً ایک دوسرے کو گلے لگا کر کچھ دیر خاموش اپنے بے چین دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کچھ دیر بعد پر سکون ہو کر دونوں بیٹھ گئیں۔ شاہد محبت بھرے لہجے میں کہتا ہے حامد! یاد ہے تمہیں ہم کس طرح بچپن میں شوخیاں کیا کرتے تھے۔ حامد ہاں!ہاں! اچھے سے یاد ہےاور تمہاری وہ کہانی بھی یاد ہے جب میں نے بگل گاؤں کے ایک لڑکے منٹو کا سر پھوڑ دیا تھا تو کس طرح تم نے الزام اپنے سر لے لیا تھا اور خوب مار بھی کھایا تھا۔شاہد مسکراتے ہوئے ہاں!ہاں! وہ بھی کیا دن تھے کس قدر خوش گوار ہوا کرتے تھے ۔حامد ہلکی اداسی کے ساتھ کہتا ہے بچپن ہی کے دن بھلا ہوا کرتے تھے بڑے ہونے کے بعد تو صرف درد و تکلیف اور پریشانیاں ہی رہ جاتی ہیں جو ختم ہونے کا نام بھی نہیں لیتی۔شاہد حیران کن لہجے میں۔ حامد! آخر کیا بات ہے میرے دوست تم پریشان کیوں لگ رہے ہو؟ حامد درد بھرے لہجے میں کہتا ہے تمہیں یاد ہے جب میرے یہاں میری بیٹی حلیمہ پیدا ہوئی تھی اور میں تھوڑا غمگین تھا تو تم نے کیا کہا تھا؟ شاہد: ہاں! یاد ہے۔ تم پریشان ہو رہے تھے کہ اس کی کفالت کی ذمہ داری کیسے ادا کرو گے بیٹیاں تو ایک ذمہ داری کے مانند ہوتی ہے برخلاف بیٹے کے جو کہ تمہاری باطل سوچ تھی اور پھر میں نے تمہیں پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری حدیث سنائی تھی جس میں ذکر تھا کہ جس نے اپنی بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی اور اس کا نکاح کر دیا تو اس کے لیے جنت ہے بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوا کرتی ہیں وغیرہ لیکن تم ان سب باتوں کا ذکر کیوں کر رہے ہو؟ شاہد نے حیران کن لہجے میں حامد سے پوچھا۔حامد: میری وہی بیٹی آج جوان ہو گئی ہے اور اس کے رشتے کی تلاش میں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں بہت سے اچھے رشتے ملیں لیکن ان لوگوں کی اتنی مانگ تھی کہ مجبوراً ہمیں نا کرنا پڑا ابھی ایک بہت اچھا رشتہ پڑوس کے گاؤں سے آیا ہے لڑکا کا ریلوے میں سرکاری جاب ہے مگر ان لوگوں کا بھی مطالبہ ہے ان لوگوں نے دو لاکھ روپے نقد مانگ رکھی ہے کھیت وغیرہ بیچ کر بھی اتنی خطیر رقم یکجا کرنا ہمارے لیے مشکل ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اگر لڑکی کی عمر کچھ زیادہ ہو جائے تو پھر اس کی شادی میں مزید دشواریاں بڑھ جاتی ہیں بس ان سب وجوہات سے غمگین ہوں۔ شاہد: اوہ! یہ بات ہے۔ تو پہلے یہ بتایے کہ آپ کو لڑکا کیسا چاہیے؟ حامد: جس کی گورنمنٹ جاب ہو یا مالی اعتبار سے خوشحال ہو۔ شاہد: تو پھر یہ بتائیں کہ ان میں اور آپ میں کیا فرق ہے؟ وہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں اور آپ بھی مطالبہ کر رہے ہیں حالاں کہ اسلام اور مسلمان ہونے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمیں ایسا لڑکا انتخاب کرنے کا حکم ہے جو دین دار ہو نہ کہ مالدار۔جو ہماری بچی کو خوشحال رکھے اس کے حقوق اسلام کے مطابق ادا کرے مگر ہمارے معاشرے نے اس سے بے رخی اختیار کر کے شادی جیسی عظیم سنت کو داغ دار کردیا اور طرح طرح کے خرافات شاملکر کے ہر ایک کو بربادی کی راہ پر لا کھڑا کیا ہے ان خرافات میں سب سے عظیم اور گھناؤنی بیماری جہیز کی لین دین ہے اس نے سب سے زیادہ ہمارے معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے آج معصوم بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے جیسے ہی ایک لڑکی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ایک طرف نوجوانوں کی اٹھتی ہوئی ہوس ناک نگاہیں تو دوسری طرف والدین کا پریشان چہرہ جس کا قصوروار وہ خود کو سمجھتی ہیں اور اگر رشتہ ہونے میں کچھ تاخیر ہو جائے تو رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی چہ می گوئیاں غرض کہ ہمارے معاشرے نے لڑکیوں کی زندگی تکلیف دہ اور عذاب بنا دی ہے جس کے قصوروار ہم سب ہیں پچھلے زمانے میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر کے یا اسے شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ جلا کر یا طرح طرح کی ایذائیں دے کر اعلانیہ طور پر ظلم و زیادتی کا شکار بنایا جاتا تھا اور اب جہیز وغیرہ کے ذریعہ پوشیدہ طور پر۔اگر چہ ساینسی اعتبار سے ہم نے کافی ترقی کر لی ہے لیکن سماجی اعتبار سے ہم اب بھی پچھڑے ہوئے ہیں۔ حامد: رنجیدہ آواز کے ساتھ ہاں!ہاں! تم نے بالکل ٹھیک کہا میں تمہاری باتوں سے متفق ہوں لیکن صرف ہمارے اور تمہارے جہیز نہ لینے دینے یہ برائی معاشرے سے تھوڑی ختم ہو جائے گی۔ شاہد: تم نےبالکل ٹھیک کہا حامد ہمارے ایسا کرنے سے یہ برائی ختم تو نہیں ہوگی لیکن ابتدا تو ضرور ہوگی اگر ہماری طرح معاشرے کے چند افراد نے اپنی ذمہ داری سمجھ کر اس خاتمے کی طرف قدم بڑھایا اور اس مذموم برائی کے خلاف عملی اقدام کیا تو اس کا خاتمہ معاشرے سے ممکن ہے۔ حامد: جی شاہد بھائی میری سمجھ میں اب پوری بات آ گئی۔ شاہد: کیا سمجھ آیا حامد؟ حامد: یہی کہ ضروری نہیں کہ ہم ایسے لڑکے کا انتخاب کریں جس کی سرکاری نوکری ہو بلکہ ایسے لڑکے کا انتخاب کریں جو دین دار،ذمہ دار اور محنتی ہو اور لڑکے والے کو چاہیے کہ ایسی لڑکی کا انتخاب کریں جو مہذب، دین دار ہونے کے ساتھ خوش باش بھی ہو۔ اور یہ بھی سمجھ آ گیا کہ اس کے خاتمے کے لیے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اگر چہ ہم ابھی کم ہیں لیکن دھیرے دھیرے اس میں بہت سارے لوگ ضرور شامل ہوں گے اور انشاءاللہ اس کا خاتمہ ہمارے معاشرے سے ضرور ہوگا ۔ شاہد: واہ! بہت خوب! تمہیں تو پوری بات اچھی طرح سمجھ آگئی۔ حامد: جی، شکریہ اب مجھے جانا ہوگا کافی تاخیر ہو گئی ہے۔ شاہد: ہاں! لیکن تم آتے رہنا اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر و احسان ہے کہ اس نے مجھے تمہارے جیسا سچا اور مخلص دوست عطا فرمایا بلا شبہ دوستی ایک عظیم نعمت ہے جو انسان کو تر و تازہ اور خوش باش بنا دیتا ہے ۔ حامد: ہاں بالکل درست فرمایا آپ نے ۔
پھر الوداع کہتے ہوئے حامد رخصت ہو جاتا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضرروی نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں