ڈاکٹر مرضیہ عارف (بھوپال)
ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ کا سب سے اہم باب مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک پر صدیوں حکمرانی کی تھی اس لئے انہیں انگریزوں کی غلامی لعنت کا طوق نظر آئی اور وہ اس کے خلاف صف آرا ہوگئے دیگر برادران وطن کی اکثریت کیونکہ آزادی کی نعمتوں اور غلامی کی ذلتوںسے ناآشنا تھی ان تک مسلمانوں نے حریت کا پیغام پہونچایا اور بلا لحاظ مذہب وملت ہندوستان پر صرف ہندوستانیوں کے حق کی صدا لگائی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نہ مسلمان ہی نہیں دوسرے شہری بھی انگریزوں کے جبرواستبداد کے خلاف سینہ سپر ہوگئے دوسری طرف مختلف مذاہب کے ماننے والوں اور متنوع زبانوں یا تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والوں میںاتحاد پیدا ہوا مگر جلدی ہی انگریزوں کی ریشہ دوانیوں نیز ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی نے ہندو مسلم اتحاد کی فضا کو باقی نہ رہنے دیا۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ کا اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف لازم ہوگا کہ مجاہدین آزادی کی صفوں میں ہندوستان کے مسلمان سب سے آگے تھے اور انہوں نے انگریزوں کے ظلم وستم کا سب سے زیادہ مقابلہ کیا اور وہ عظیم قربانیاں پیش کیں جو تاریخ میں آبِ زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں جو تاریخ مرتب کی جارہی ہے یا نئی نسل کو نصاب میں جو کتب پڑھائی جارہی ہیں ان کے صفحات مسلمانوں کے ذکر سے خالی ہیں اور بعض تنگ نظر مورخوں کا تو یہ خیال ہے کہ تحریک آزادی میںمسلمانوں کا کردار منفی رہا ہے اس کے ثبوت میں جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ جدوجہد آزادی میں مسلمانوںکا عمومی کردار مذہبی جذباتیت پر مبنی اور فرقہ پرستانہ تھا انہوں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ ہی نہیں کیا بلکہ ان کے آلہ کار بن کر تقسیم وطن جیسے فرقہ پرستانہ مطالبہ کے بھی وہ مرتکب ہوئے۔ اس کے علاوہ مسلم رہنما ’’ہندوستانی قومیت‘‘ کو بھی شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے رہے حالانکہ یہ کہنا جتنا غیر حقیقی اور غلط ہے اس سے زیادہ گمراہ کن بھی ہے تاریخ کا بے لاگ مطالعہ اس کی مکمل تردید کرتا ہے۔ دراصل اس سلسلہ میں شعوری یا غیر شعوری طو رپر یہ مفروضہ قائم کرلیا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو کانگریس کے خلاف تھا وہ آزادی کی لڑائی کا بھی مخالف رہا۔ جبکہ کانگریس سے الگ رہ کر بھی متعدد رہنمائوں نے جنگ آزادی میں زبردست کردار ادا کیا ہے ایسے تجزیہ نگاروںکو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ کانگریس ۱۸۸۵ء میں قائم ہوئی اور ۱۹۴۷ء تک اس کا رول ایک ایسی تحریک کی طرح رہا۔ جس میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے شامل تھے اس لئے ان عناصر کی قربانیوں کو فراموش کردینا جنہوںنے کانگریس کے قیام سے قبل اپناخون پسینہ بہایا درست نہیں ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں آزادی کی۷۶ ویں سالگرہ کے موقع پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم محبان وطن کے ان کارناموں سے آگاہ ہوں جن کے ذریعہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادی کے پرچم کو رنگ ونور عطا کیا خصوصاً مسلمانوںکے اس کردار کا تعین کریں جن کی بے مثال قیادت اور سرفروشانہ جدوجہد نے کامل آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا۔
انگریزوں کے خلاف ہندوستان میںتحریک آزادی کا آغاز اس معرکہ سے ہوتا ہے جو پلاسی کے میدان میں ہو اور جہاں والی بنگال سراج الدولہ نے سب سے پہلے انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کچل دینا چاہا لیکن سامانِ حرب کی موجودگی اور عددی اکثریت کے باوجود وہ انگریزوں کی شاطرانہ چالوں سے مات کھا گئے اور اس بہادرانہ جنگ کا فیصلہ سراج الدولہ کے وزیر میر جعفر کی غداری ونمک حرامی کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف برآمد ہوا۔
۱۷۶۴ء میں دوسری مرتبہ بنگال کے میر قاسم دہلی کے فرمانروا شاہ عالم اور والی اودھ شجاع الدولہ نے مشترکہ طور پر انگریزوں کو گھیرنا چاہا لیکن بکسر کے مقام پر شدید جنگ کے بعد بھی اس اتحاد ثلاثہ کو کامیابی نہ ملی کیونکہ اس وقت تک انگریز بنگال میں اپنے قدم جما چکے تھے۔انگریزوں کے خلاف تیسرے جہاد کا خاتمہ ۱۷۹۹ء میں ۲۲ سالہ سرفروشانہ جدوجہد کے بعد سری رنگا پٹنم میں اس وقت ہوا جب فدائے ملک وملت سلطان ٹیپو نے اپنے مصاحب میر صادق کی سازش سے جام شہادت نوش کیا۔ اس بہادر انسان نے انگریزوں کی یلغار کا کس ولولہ اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اس کا ایک ثبوت خود اس کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘
اسی شیر کی خون آلودہ لاش دیکھ کر انگریز جنرل کی زبان بے ساختہ پکار اٹھی تھی کہ:
’’آج ہندوستان ہمارا ہوگیا‘‘ لارڈمیکالے کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہندوستان میں مسلمان انگریزوں کے خلاف ابتداء میں صف آرا نہ ہوئے ہوتے اور اپنی جانوں کی بازی لگاکر ان کی سخت مزاحمت نہ کرتے تو نہایت آسانی سے پون صدی قبل ہندوستان پر ہمارا قبضہ ہوجاتا اور ۱۸۰۶ء سے ہندوستان میں انگریزوں کا جو تجارتی دور شروع ہوا بہت جلد حکومتی دور میں تبدیل ہوجاتا مگر یہ مسلمانوں کی اولوالعزمی اور مجاہدانہ جدوجدکا نتیجہ تھا کہ ہندوستان پر انگریزوں ی گرفت ۱۸۵۷ء سے قبل مضبوط نہ ہوسکی۔‘‘
ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں ولی الٰہی سلسلہ کے علماء کرام کا بھی بڑا حصہ رہا ہے حالانکہ خود حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وفات ۱۷۷۶ء میں ہوگئی تھی مگر ان کی اصلاحی اور انقلابی تحریک ان کے بعد ہی برگ وبار لائی اور اس نے برسوںسے خوابِ غفلت میں گرفتار مسلمانوں میں جذبۂ حریت کا گہرا شعور اور جہاد کا نہ ختم ہونے والا جوش پیدا کیا ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز دہلوی اور بھائی بھتیجوں نے اپنے اسلاف کی تحریک کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ علماء اور معتقدین کی وہ جماعت بھی تیار کرلی جس کے ایک بازو کے سپرد جہاد آزادی اور مسلح فوجی سرگرمیاں تھیں اور اس کے قائد سید احمد شہیدؒ اور اسماعیل شہیدؒ تھے تو دوسرے حصہ کے زیر نگیں تعلیم وتربیت کے ساتھ روحانی خدمات بھی تھیں۔ اس باکمال جماعت نے ۱۸۵۷ء سے بہت پہلے ۱۸۰۸ء میں اپنی ان سرگرمیوں کاآغاز کیا جو کچھ عرصہ بعد ہی انگریزوں کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ میں تبدیل ہوگئیں۔ اس جماعت نے ہندوستان کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دے کر عوام بالخصوص مسلمانوں میں وہ جذبہ حریت پھونکا کہ مجاہدین نے معمولی جدوجہد کے بعد بیشتر مقامات پر عارضی حکومتیں قائم کرلیں مگر اس وقت بھی انگریزوں کا سازشی ذہن کام آیا اور انہوں نے سکھوں کو اس جماعت کے خلاف استعمال کیا لہذا پہلے تو خالصہ فوج کو پیہم شکست ہوئی مگر ۱۸۳۱ء میں بمقام بالاکوٹ ایک گھمسان کی جنگ میں اسے کامیابی ملی اور مسلم مجاہدین داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے لیکن ان کی یہ تحریک پھر بھی ختم نہ ہوئی بلکہ زیر زمین ۱۸۵۷ء تک جاری رہی اور پورے ہندوستان میں مسلسل ۲۶ برس تک انقلاب اور جہاد کی آگ بھڑکاتی رہی۔
۱۸۵۷ء کا جہاد آزادی جس کو انگریزوں نے غدر کا نام دیا ہے دراصل جذبہ آزادی تھا جس سے سرشار ہوکر ہندوستانیوں اور خاص طور پر مسلمانوں نے برطانوی استبداد کے خلاف بہادر شاہ ظفر کے پرچم تلے آزادی کی لڑائی لڑی تھی ۔ اس کے برعکس میرٹھ کے فوجیوں کی منشا صرف ذاتی اغراض یا مفادات ہوتے تو وہ دہلی کا رخ کیوں کرتے اور کرتے بھی تو بہادر شاہ ظفر کو اس جہاد کی علامت نہ بناتے پھر پندرہ بیس دن کے اندر ان کے خزانے میں جہاں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی لاکھوں روپے جمع کردینا گھوڑے اسلحہ اور ہزارہا قلعہ شکن توپوں کا ذخیرہ کردینا یا عوام کا بڑی تعداد میں خود اس لڑائی میں شریک ہوجانا یہی واضح کرتا ہے کہ اول تو عوام کے دلوں میں بہادر شاہ ظفر کا بے پناہ احترام تھا۔ دوسرے وہ ان کو ہی حقیقی حکمراں دیکھنا چاہتے تھے اور ان کے زیر اقتدار اپنے آپ کو اور اپنی جملہ آزادیوں کو محفوظ سمجھتے تھے۔ یہ مسلم اکثریت پر مشتمل چند ہزار فوجیوں کی بغاوت نہ تھی بلکہ پوری قوم خصوصاًمسلمانوں کا وہ جذبہ حریت تھا جس کا لاوا ابتداء میرٹھ میں ضرور پکا تھا مگر جب ابلنے پر آیا تو کچھ عرصہ کے لئے انگریزوں کے اثر واقتدار کو بھی بہا لے گیا اگر سکھوں اور گورکھوں نے پنجاب سے انگریزوں کی مدد نہ کی ہوتی تو یقینا ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے قدم ہندوستان سے اکھڑ گئے ہوتے۔
بہادر شاہ ظفر کا اس جہاد آزادی میں یوں بھی اہم رول رہا کہ انہوں نے دوسروں کی طرح ضمیر فروشی اور قوم سے غداری کرکے سلطنت اور منصب حاصل کرنے کے بجائے مجاہدین کی سربراہی قبول کی اور اس کی پاداش میں نہ صرف اپنے جگر گوشوں کے سروں کا تحفہ قبول کیا بلکہ جلا وطنی کی زندگی کے بعد غریب الوطنی کی موت بھی برداشت کی۔
اس لڑائی میں بہادر شاہ کے علاوہ بیگم زینت محل حضرت محل ولی عہد برجیس قدر جھانسی کی رانی، تاتیا ٹوپے، جنرل بخت خاں، جنرل عظیم اللہ خاں، مولانا احمد شاہ مداری اور مولوی لیاقت علی خاں بہادر کا نمایاںحصہ رہا اور اس کے اہم مراکزابتداء میں مبارکپور، کلکتہ اور میرٹھ رہے پھر اس کا زیادہ زور دہلی، بریلی، جھانسی، لکھنؤ اور کانپور میں نظر آیا مشہور انگریز مورخ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے الفاظ میں۔
‘‘۱۸۵۷ء کے انقلاب کی بھٹی ان لوگوں کی سلگائی ہوئی تھی جو شاہ ولی اللہ کے نظریات کو عملی جامہ پہنا کر اس کی صداقت کو پروان چڑھانے کا تہیہ کئے بیٹھے تھے۔‘‘
ہنتر کی اس تحقیق کی رو سے ابتداء سے ’’رولٹ کمیٹی‘‘ کی اشاعت تک ہندوستان کی تمام باغیانہ سرگرمیاں اور حریت پسندوں کے اقدامات کی ذمہ دار اس تحریک کو تصور کیا گیا۔ جس کے افراد شاہ ولی اللہ کے سلسلہ کی درسگاہوں کے متعلم اور ان کے فلسفہ حیات کے علمبردار تھے۔ مولانا احمد اللہ شاہ، قاضی عنایت علی، نواب ججھر، صوبہ الٰہ آباد کے گورنر مولانا ولایت علی، بہادر کے گورنر مولانا یحیٰ علی، مولانا امام فضل حق، حاجی امداد اللہ مہاجرمکی، دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا ضامن علی شہید، مولانا رشید احمد گنگوہی اور دیگر بے شمار مسلمان اسی سیاسی نظریے اور تحریک کے پروردہ تھے جو شاہ ولی اللہ کے فلسفہ پر استوار تھی۔
۱۹ویں صدی کی آخری دہائیوں میں انگریزوں کا اقتدار ہندوستان میں مستحکم ہوچکا تھا مگر تمام ہندوستانیوں اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں میں غلامی کے اس جوئے کو اتار پھینکنے کی تڑپ جاری تھی اور مسلمان اپنی خفیہ علانیہ سرگرمیوں سے اس جدوجہد میںاتنے سرگرداں تھے کہ ملک کا کوئی دوسرا فرقہ ان کا ہمسر وساتھی نظر نہیں آتا تھا۔ درحقیقت مسلم قیادت اور اس کا مذہبی بازو معرکہ بالاکوٹ کے بعد قطعی ختم یا پارہ پارہ نہیں ہوا تھا بلکہ باغستان کے پہاڑی مرکز میں اس کا باقاعدہ دفتر اور تنظیم موجود تھی اور اس کے اہم رہنما مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور ہندوستان کے مختلف شہروں سے نہ صرف اس کی نگرانی کررہے تھے بلکہ اس کو بہتر طور پر فعال بھی بنا رہے تھے۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی تحقیق بھی یہی ہے کہ ’’۱۸۶۸ء میں ستلانہ مرکز پر ۹۰ ہزار کا لشکر دادِ شجاعت دے رہا تھا جس کے خوردونوش اور ضروریات زندگی کی فراہم اسی خفیہ تنظیم کے سپرد تھی جس کے ایک اہم رہنما مولانا محمد قاسم نانوتوی تھے‘‘۔
۱۹۱۸ء کے بعد ہندوستانی مسلمان بالخصوص علماء کرام نے جن تحریکات کو اپنے خون سے سینچا ان میں ’’ریشمی رومال‘‘ اور ’’خلافت تحریک‘‘ سب سے اہم ہیں۔ ’’ریشمی رومال‘‘ ایک زیرِ زمین تحریک تھی جس کے خفیہ مراکز ہندوستان کے ناندیر، پانی پت ، لاہور، کراچی، اتمان زئی، امروٹ، ترنگ زئی، ڈھاکہ اور آسام میں کئی مقامات پر قائم تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن اس کے سربراہ تھے اور دوسرے اہم ارکان میں مولانا عبیداللہ سندھی ، مولوی عزیز گل، مولوی احمد اللہ پانی پتی، مولانا ظہور محمد سہارنپوری وغیرہ تھے۔ اس تحریک کے ذریعہ ان علماء کرام نے انگریزوں کے خوفناک شکنجے میں جکڑے ہوئے ہندوستان میں خفیہ مراسلت اور رازدارانہ نام وپیام کا کام انجام دیا۔ پھر ’’جلیانوالا باغ‘‘ سانحہ سے چار سال قبل مولانا عبیداللہ سندھی کی جدوجہد سے مجاہدین کا ایک موثر مرکز افغانستان میں قائم ہوا اور انقلاب پسندوں میں ایک نئی روح دوڑ گئی نیز ’’جلاوطن‘‘ حکومت کے قیام کے لئے انقلابیوں کے تعلقات بین الاقوامی سطح پر استوار ہوگئے۔
اس کے بعد ۱۹۱۵ء میں ’’موقۃ الہند‘‘ کے نام سے جو جلاوطن حکومت قائم کی گئی اس کے عہدیداروں میں صدر راجہ مہندرپرتاپ ، وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی، وزیر داخلہ مولانا عبیداللہ سندھی اور وزیر خارجہ مولانا منصور انصاری اور وزیر دفاع ترکی کے جنرل کاظم بے بنائے گئے جن میں ایک کے سوا سب مسلمان تھے۔ اور انہوں نے افغانستان کی سرزمین کو اپنے لئے تنگ پاکر دوسرے ممالک کے بھی دورے کئے جن میں سوویت یونین ترکی، جاپان، جرمنی اور امریکہ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح ۱۹۱۸ء میں جس خلافت تحریک کا آغاز ہوا یا اس سے قبل جس جمعیۃ علماء کی تشکیل عمل میں آئی اس نے خفیہ نہیں برسرعام آزادی کی جدوجہد کا سلسلہ شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریکات اتنی طاقتور ہوگئیں کہ انگریزوں کا اقتدار ڈگمگانے لگا اور مہاتماگاندھی نے بھی اس میں شرکت اختیار کرلی۔ اس تحریک کے وسیلہ سے مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خاں، مولانا کفایت اللہ، مولانا شبیر احمد عثمانی، حسرت موہانی، نورالدین بہاری، ڈاکٹر انصاری اور آصف علی کے علاوہ ہزاروںباہمت مسلمانوں اور ان کے زیر قیادت کالج واسکول کے طلباء نے بے مثال قربانیاں پیش کیں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے عزم کی طاقت سے نہ صرف وقت کا مزاج بدل دیا بلکہ سیاست کو ایک مقدس مشن بناکر پیش کیا اور قصہ خوانی بازار سے لے کر انڈومان کے سیاہ پانیوںتک آزادی کی پوری شاہراہ کو اپنے خون کے چھڑکائو سے رنگین کردیا۔ کانگریس کو حوصلہ ان سے ملا دوسری تحریکات کا مزاج انہوں نے بدلا پھر اس ملک کے حریت پسند شاہینوں کے خوابوں کی تعبیر کی صورت میں جب آزادی ملی تو سب سے زیادہ یہی نظر انداز کئے جارہے ہیں اور ہندوستان میں انہیں آج بھی آزمائش و حق تلفی کا شکار ہونا پڑرہا ہے۔
جواب دیں