شریکِ غم: محمد سمعان خلیفہ ندوی ماں باپ کا پیارا علی، گھر کا دلارا علی، اپنے اساتذہ کی نظر میں ننھا سا پیارا سا فرماں بردار طالب علم علی… آج صبح حسب معمول اٹھا… گھر کا ماحول تھا… رمضان کے روح پرور ایام تھے… اب تک کے روزے اس نے مکمل رکھے تھے… مگر آج […]
جب لختِ جگر داغِ مفارقت دے جائے…. خالہ زاد بھائی کے بچے کے حادثے پر…. غم کے احساسات
شریکِ غم: محمد سمعان خلیفہ ندوی
ماں باپ کا پیارا علی، گھر کا دلارا علی، اپنے اساتذہ کی نظر میں ننھا سا پیارا سا فرماں بردار طالب علم علی… آج صبح حسب معمول اٹھا… گھر کا ماحول تھا… رمضان کے روح پرور ایام تھے… اب تک کے روزے اس نے مکمل رکھے تھے… مگر آج والدین نے منع کیا… اب تک روزہ رکھنے کی خوشی میں بچے کے والد نے خوش ہوکر دو روز قبل ہی اسے خوب صورت سا تحفہ سائیکل کی شکل میں دیا… ایک مکمل دن اس پر کھیلا کیا… کتنی خوشی کا احساس تھا بچے کو… جو ہر بچے کو سائیکل ملنے پر ہوتا ہے… گویا بچپن کا شاید سب سے خوب صورت دن… جب اسے سائیکل مل جائے… آج صبح سے وہ سائیکل پر گھر کے پچھواڑے میں چکر لگا رہا تھا… جہاں گھر کے سب بچے کھیلتے کودتے بلکہ خاندان کے سبھی بچے اسی وسیع باغ میں کھیل کود کر بڑے ہوئے تھے… اپنے ہم جولیوں کے ساتھ وہ بھی کھیل کود میں مگن تھا… والدہ نے دوپہر کا کھانا بھی کھلایا… مگر بچے کا دماغ سائیکل کی طرف ہی لگا ہوا تھا… اس لیے کھانے سے فارغ ہوکر پھر سائیکل لے کر بھاگا…. مگر آہ کسے پتہ تھا کہ قضا اس کا انتظار کررہی ہے… اجل اسے تاک رہی ہے… یہ ننھی سی کلی کچھ ہی دیر میں دنیا کی بہاروں سے روٹھ کر جنت کے پھول میں تبدیل ہونے والی ہے… اور اب اس ننھی روح کو جنت کے پرندوں کی شکل میں عرش الہی سے معلق قندیلوں میں رہنا ہے… کس نے سوچا تھا کہ یہی سائیکل بچے کے لیے دنیا سے رخصت ہونے کا پیغام لے کر آئی ہے… اس کی قضا اس کو آواز دے رہی ہے اور وہ کشاں کشاں اس کی طرف لپک رہا ہے… سائیکل لے کر گیٹ سے ٹکرایا… گیٹ کا ستون اس پر گر پڑا اور وہ پل دو پل میں مالک حقیقی کے پاس پہنچ گیا… اس حیات مستعار کے اتنے ہی لمحے وہ خالق کی طرف سے لے کر آیا تھا جو اس نے پورے کیے اور مالک نے اسے بلالیا اپنے پاس… جہاں ہم سب کو ایک دن جانا ہے اور اپنے کیے کا حساب دینا ہے… آہ کتنے عزیزوں کے جنازے ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھائے… کتنے پیاروں کو زیرِ زمین دفنایا… کتنے یاروں کو سپردِ خاک کیا… جس لختِ جگر کو ایک لمحے کے لیے بھی ماں باپ اپنی باہوں سے جدا نہیں کرتے اور وہ ان کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز ہوتا ہے… کتنے خواب آنکھوں میں ماں باپ نے سجائے ہوتے ہیں… خود بچے کے کتنے ارمان اور خواہشیں اس کے ننھے پیکر میں چٹکیاں لیتی ہیں مگر آہ ایک سانس کی ڈوری ٹوٹی اور سب پر پانی پھر گیا… موت کا کوئی بہانہ ہوتا ہے… لوگ کہتے ہیں ایسا ہوا ویسا ہوا… ورنہ اجل سب کی منتظر ہے… اس نے دارا کو بخشا نہ سکندر کو… نہ بڑے کو نہ چھوٹے کو… نہ وقت کے ولی کو، نہ زمانے کے فرعون کو… یہی دنیا کا دستور ہے جو خالق ومالک کا مقرر کیا ہوا ہے… ایک ایسی حقیقت جس کا انکار آج تک کسی نے نہیں کیا نہ کرسکتا ہے… مگر جب کوئی اپنا رخصت ہوتا ہے تو فطری طور پر دکھ ہوتا ہے اپنوں کی جدائی پر… عزیزوں کے فراق پر… اور خاص طور پر ماں باپ کو اپنے لخت جگر کی جدائی پر جس کرب اور درد سے گزرنا پڑتا ہے اس کی ٹیس اور چوٹ تو بس وہی محسوس کرسکتے ہیں جن پر یہ پہاڑ ٹوٹا رنج والم کا، تکلیف وغم کا… اللہ ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے… جس باپ کے لیے اس کا بیٹا نور نظر ہو، لخت جگر ہو، کسی لمحے اس کی جدائی کو وہ سہار نہ سکے… کسی موقع پر وہ اپنے چہیتے کو اپنی نگاہوں سے دور نہ کرے… اس کا دوست، اس کا رفیق… اس کا یار، اس کا غم خوار… اس کی تنہائی کا انیس… اس کی وحشت میں دل بستگی کا سامان… نگاہوں کی ٹھنڈک اور نگاہ سے اتر کر قلب ونظر کی ٹھنڈک… جس کی ایک مسکراہٹ پر دن بھر کا تھکا ہارا باپ سارے غم بھول جائے… جس کی اٹھکیلیاں اس کے نشاطِ روح کا ساماں اور جس کا قرب اس کے درد کا درماں… جس کے دم سے گھر میں بہار آئے…. جس پھول سے اس کا گھر آنگن مہکے… جنت نشاں بنے… جس کی ایک ایک ادا پر وہ جھوم اٹھے… جس کی توتلاہٹ میں اس کے لیے فرحت وانبساط کا سامان ہو… جس کی فرمائشوں اور خواہشوں پر وہ بچھ جائے… آج اسی کی جدائی کا صدمہ ہے… دل پارہ پارہ ہے… جگر لخت لخت ہے… پھر اس ماں کے دل کا حال اسی سے پوچھو جس کی نگاہیں اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے ہر وقت بے تاب ہوتی ہیں… بچہ اسی کی گود میں پرورش پاتا ہے… اسی کی آغوش میں پلتا بڑھتا ہے… کھیلتا کودتا ہے… ابھی بچپن کے دن ہیں، ننھی جان ہے… معصوم شرارتیں ہیں… پھر جوانی کی دہلیز پر اسے قدم رکھنا ہے… اور بہت کچھ آکاش سے تارے توڑ لانے ہیں… تمناؤں کا سفر طے کرنا ہے… آرزوؤں کے خاکوں میں رنگ بھرنا ہے… اپنے بڑوں اور پیش روؤں کا عکسِ جمیل بن کر اپنے خاندان اور ملک وملت کا نام روشن کرنا ہے… اور ہاں یہی بچہ ہے جسے ماں نے اپنے پیٹ میں رکھا… دکھ پر دکھ سہہ کر… تکلیفوں کو برداشت کرکے… حمل ٹھہرنے کے بعد سے لے کر پیدائش تک… اور پیدائش کے بعد سے دودھ چھڑائی تک اور پھر اس کے بعد بھی اس کی تھوڑی سی بیماری بھی ماں کو بے کل کردے.. بچے کی تکلیف پر وہ بے چین اور بے قرار ہوجائے… ماں کی آنکھوں کا تارا وہ راج دلارا… ایک لمحے کے لیے بھی جسے آنکھوں سے دور کرنا وہ پسند نہ کرے… جس کے لیے اپنے دل میں امیدوں کی دنیا بسائی… نہاں خانۂ دل میں جس کے روشن مستقبل کے خواب بُنے… آج وہی لختِ جگر نورِ نظر داغِ مفارقت دے گیا… جس کا عارضی فراق بھی ماں کو بے چین وبے قرار کردے اس کا دائمی فراق مصیبت کی ماری اس ماں کو کس کرب سے دو چار کرتا ہوگا! درد کی چوٹ اس کے قلب وجگر کو کس قدر چھلنی کرتی ہوگی!! امید معدوم ہوگئی… سہارا رخصت ہوا… اللہ اللہ! آنکھوں کا تارا اس کے سامنے دم توڑ گیا… آہ اب اس دنیا میں اس نور چشم کے دیدار سے قلب ونظر کو سکون نہیں ملنے والا… جس کی تکلیف پر وہ راتوں کی نیند اور دن کا چین قربان کردیتی تھی… آہ اب اس کے پہلو میں وہ آنکھوں کا نور، دل کا سرور نہ رہا… جس کو دیکھ کر اس کے قلبِ مضطر کو ٹھنڈک ملتی اور ساری تھکان دور ہوتی اور غم کافور… آہ وہ نشاطِ روح ونظر، تسکینِ قلب وجگر، رشکِ قمر اب اس کے پہلو میں نہ رہا… اب ایک لمحہ بھی کیا اس کا دیدار اس عالمِ ناسوت میں ممکن نہیں؟ آج اس کی جدائی ماں باپ اور گھربار کے لیے سوہانِ روح ہے…. ہائے سینہ غم سے پھٹا جاتا ہے… جگر پاش پاش ہوا جاتا ہے… دفعۃً یہ کیا ہوا کہ سارے خواب چکناچور ہوگئے… سارے ارمان خاک میں مل گئے… امیدوں کا خون ہوگیا… غم واندوہ کا ایک طوفان ہے کہ اٹھتا جارہا ہے… حسرت و افسوس کی آگ ہے کہ سلگتی جارہی ہے… کسی لمحے بجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے… کسی پہلو قلبِ مضطر کو چین نہیں… کسی کل قرار نہیں… زبان گنگ ہے… حواس معطل ہیں… اعضا سُن ہیں… اعصاب پر ایک قسم کی مایوسی طاری ہے… در ودیوار پر ایک اداسی چھائی ہے… اور پھر اسی گھر میں پہلے بھی یہ طوفانِ غم اور بارِ الم ٹوٹ چکا ہے جب اسی بچے کی دادی سے اس کا ایک اور لخت جگر رخصت ہوا تھا… آج اس کا غم پھر سے تازہ ہوگیا… آہ! ایسے میں عقل ماؤف نہ ہو… دل ودماغ معطل نہ ہوں… جگر چھلنی نہ ہو… تو اور کیا ہو؟! مگر اس طوفانِ غم اور داستانِ الم کو نبیِ رحمت روحی فداہ نے کبھی نہیں بھلایا ہے… وہ نبیِ رحمت تھے… رحمۃ للعالمین تھے… تو غم کے مارے ہوئے انسانوں کو آپ کی شانِ رحیمی کیسے فراموش کرتی؟ قضائے الٰہی پر صبر کرنے والے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھنے والے ماں باپ کو جو کچھ خوش خبریاں آپ نے دی ہیں بس انھیں سن کر سلگتے دل کو قرار آجائے اور باغ جنت کی بادِ نسیم مُسکانے لگے… ایک اطمینان وسکون کی فضا میسر ہو… جنت کی خوش خبری سے بڑھ کر ایک صاحب ایمان کو اور کیا چاہیے… جس کے پہلو سے اس کا چہیتا، پیارا راج دلارا رخصت ہوا اس کی نجات اور بخشش پر تو زبان نبوت نے مہر تصدیق ثبت کردی… خود ہی ضمانت بھی لے لی… اور کیا چاہیے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کی مغفرت کی ضمانت لے لی… ماں باپ کو داغ مفارقت دے جانے والا وہی بچہ ان کے لیے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ بنے گا… بچہ تو درکنار بچے کا ناتمام وجود بھی ساقط ہوجائے… ابھی جس سے انسیت نہیں ہوئی… الفت نہیں ہوئی… وہ تک بشارت نبوی کے مطابق اپنے ماں باپ کی مغفرت کا سبب بنتا ہے… کل قیامت میں اپنی آنول نال کے ذریعے وہ حمل اپنے ماں باپ کو کھینچتا ہوا جنت میں داخل کروائے گا… اور پھر قرآن نے بھی غم کے اس طوفان میں کس قدر ڈھارس بندھائی ہے… رحمت و مغفرت کی نوید سنائی ہے… اور ایسے صابر بندوں اور بندیوں کے ہدایت یافتہ ہونے کا اعلان کیا ہے… تنہا یہی آیت ایک صاحبِ ایمان کی دل بستگی اور تسکینِ قلب کے لیے کافی ہے… بس استحضار اس کا ہو کہ ہم سب اللہ کے ہیں اور سب کو اسی کی طرف جانا ہے… یہ استحضار کروایا بھی اسی لیے گیا کہ مؤمن ہر لمحہ اسی کو پیش نظر رکھتا ہے اور اس فانی دنیا کی عارضی بہاروں سے دل نہیں بہلاتا ہے… بلکہ ابدی دنیا کی ابدی اور سرمدی نعمتوں کی طرف لپکتا اور دوڑتا ہے… اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اللہ کی امانت سمجھتا ہے… ہر نعمت پر اس کا شکر گزار ہوتا ہے… ہر تکلیف پر صبر ورضا کا پیکر بنتا ہے… اسی لیے حدیث کے مطابق اس کے وارے نیارے ہیں… تکلیف اور خوشی ہر حال میں اسے ثواب اور اجر کا مژدۂ جاں فزا سنایا گیا… تکلیف میں صبر کے ذریعے اور خوشی میں شکر گزاری کے ذریعے وہ اس کو پانے میں کامیاب ہوتا ہے… ننھے منے علی کی جدائی پر آپ صبر کریں عمیر بھائی، بھابھی، خالہ جان، خالو اور تمام اہل خاندان… کیوں کہ صبر کا بدلہ جنت ہے… گرچہ تکلیف بہت ہے اور غم بے پناہ… مگر اجر اس سے بڑھ کر بے پناہ اور وہ بھی کس کے یہاں؟ اس رب کے یہاں جس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں… جو نواز کر نہیں تھکتا… دے کر جس کا خزانہ خالی نہیں ہوتا… بے انتہا… لامحدود نوازشیں اور بشارتیں آپ کی منتظر ہیں…. اور چہیتے کی یہ جدائی بھی وقتی اور عارضی ہے کہ جنت میں اپنے پیاروں چہیتوں کا دیدار ہوگا اور دائمی فرحت اور خوشی اہل جنت کو ہوگی کہ آدمی کا پورا خاندان اور پوری نسل ایمان پر ثابت قدمی اور اسی پر دنیا سے رخصت ہونے کے نتیجے میں اس کے ساتھ جنت میں جمع کردی جائے گی… اللہ تعالی ہم سب کے لیے جنت کی بہاریں مقدر فرمائے… جانے والے پیارے کو جنت کا پھول بنائے… اپنے ماں باپ اور اہل خانہ کی مغفرت کا ذریعہ بنائے اور غم کے مارے ہوؤں کو صبر کی توفیق عطا فرمائے…
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں