پھر یہ کہ اس میں نہریں جاری کردیں، پھر راستے بنادئے ، تاکہ تم راہ پاسکواور(اِسی طرح) ستاروں سے بھی وہ علاماتِ سمت پاکررہنمائی حاصل کرتے ہیں۔پھر کیا جو خالق ہے، اس کے جیسا ہوسکتا ہے، جس نے کبھی کچھ بھی پیدا نہ کیا ہو؟ کیا تم سوچتے نہیں! اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کوگننا چاہو تو کبھی نہ گن سکو گے، بے شک اللہ غفور الرحیم ہے۔ ‘‘
وہ اپنی تخلیقات کا ایک ایسا زبردست پروگرامر ہے جس میں کسی عیب یا خطا کی کوئی گنجائش نہیں۔کیوں کہ ہر شے کے ذمہّ اُس نے کچھ کام بھی مختص کر رکھے ہیں جن سے یک سرِ مو انحراف کا کسی کو یارا نہیں ۔ستاسی ویں سورۃ کی پہلی تا تیسری آیات میں اِس حقیقت کی طرف اِشارہ موجود ہے:’’آپ اپنے ربِ اعلیٰ کے نام کی تسبیح بیان کرتے رہیں ،اُس رب کی جس نے ہر شے کی تخلیق کے ساتھ اِسے تناسب اور کاملیت عطا کی اور اسی نے ہر شئے میں اس کے فرائض ودیعت کردئے، اور ان فرائض کی ادائیگی کیلئے انکی رہنمائی بھی کی۔‘‘
زمین ہو یا آسمان،سورج ہو یا چاند، بادل ہو یا بجلی، حشرات الارض ہوں یا وحشی جانور، مچھلیاں ہوں یا پرندے، غرض کہ ہر مخلوق کو انتہائی کاملیت کے ساتھ اور نہایت متناسب ڈھنگ سے،کمال درجے کی جسامت اورغایت درجے کے حجم،رنگوں اورساخت کے بہترین انتخاب کے ساتھ وجود بخشااور جب تخلیق معرضِ وجود میں آئی تو یہ ایک ایسی کامل، خوبصورت اور بریُ الخطاء شے تھی جس پر عقلِ انسان حیران رہ گئی۔تخلیق کے نقشہ میں کوئی خرابی،نہ رنگ میں کسی قسم کی عدم دل پذیری، نہ ساخت میں کوئی ٹیڑھا پن۔کہیں کوئی کمی نہیں، کہیں کوئی عیب نہیں۔ انگورکا سائز الگ ہے تو تربوز کی جسامت الگ۔ مرغ کی ساخت مختلف تو ہاتھی کی اور ، مور کے پنکھ میں رنگوں کی دنیا آباد کردی تو کوے کو ایک ہی رنگ کا تحفہ عنایت کیااور خوبصورتی میں دونوں کی انفرادیت باقی رکھی۔ آسمان میں گھٹتے بڑھتے چاند کا منظر جدا تو اُفق پر طلوع اور غروب ہوتے سورج کے حسن و جمال کی دنیا الگ۔کس کس تخلیق کی دلنشینی کا ذکر کیا جائے۔ کاغذ کے پہاڑ ختم ہوجائیں گے، سمندروں کے پانی کے مقدار کی سیاہی ناکافی ثابت ہوجائے گی اور رب تعالیٰ کی تعریف، حمدو ثناء اور اسکے کمالات کے تذکرہ میں کہنے کے لیے پھر بھی اتنا کچھ باقی رہ جائے کہ اِس کا تذکرۂ مکرّر پھر ایسی ہی صورتحال پیدا کردے اور حمد و ثنا کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو پائے گا۔
ذرا طویل پہاڑی سلسلوں کو دیکھیے کہ ان میں ہمارے لئے کس قدر نشاناتِ عبرت موجود ہیں۔ ربِّ کائنات نے ہمیں خبر دی کہ پہاڑوں کو زمین کے توازن قائم رکھنے کی اُس نے ہدایت کی ہے تاکہ انسان پرسکون طور پر اپنی زندگی کے فرائض ادا کرنے میں مصروف رہ سکے۔ پھر ان ہی پہاڑوں میں انسانوں کے لیے اُس نے معدنیات اور منرلسMinerals کے خزانے محفوظ کر دئے۔ ان ہی پہاڑوں کے اندر سے پانی کے چشمے جاری کردئے اوریہی وہ چشمے ہیں جو آگے بڑھتے ہیں اور بلا خیز ندیوں کی شکل اختیار کرکے ہزاروں کیلومیٹر تک بہتی چلی جاتی ہیں اورانسانی آبادیوں اور انکی کھیتیوں کوسیراب کرتی چلی جاتی ہیں۔پھر ان ہی پہاڑوں کو گھنے جنگلات کے سلسلوں سے سجا دیا گیا اور یہ جنگلات قوت کا سر چشمہ بن گیے۔ عمارتی لکڑیوں کی فراہمی ہوکہ سازو سامان کی نقل و حرکت کے لیے بننے والے بکسوں کے لیے درکار لکڑی ،اِن ہی پہاڑوں سے دستیاب ہوتے ہیں۔ پھر جڑی بوٹیاں بھی تو ان ہی جنگلات سے حاصل کی جاتی ہیں۔پھر وہ پہاڑ جن پر جنگلات نہیں ہوتے ،اِن کے رنگوں کے ذریعے زمانۂ قدیم ہی میں انسانوں کو اشارہ دیا کہ کہاں کس قسم کی معدنیات مدفون ہو سکتی ہیں۔عصرِ حاضر میں اللہ تعالےٰ نے انسانوں کو سائنسی علوم سے کیا نوازا کہ اب وہ مصنوعی سیارچوں کے ذریعہ زمین کی گہرائی میں پوشیدہ خزانوں سے تک واقف ہونے لگے ہیں۔سیارچوں کی آنکھوں سے انسان کو زمین پر موجود پہاڑوں کے رنگوں کا منظر نظر آتا ہے اوراِن ہی رنگوں کی بنیاد پر اُسے زمینی خزانوں کی شاہ کلید میسر آتی ہے۔ پہاڑوں کے اِن ہی رنگوں کے بارے میں پینتیسویں سورۃ کی ستائسویں آیت میں یہ تذکرہ موجود ہے:’’۔۔۔ اور پہاڑوں میں بعض کے رنگ سفید ، بعض سرخ دھاریوں والے اور بعض مختلف رنگوں کے بھی اور بعض گہرے سیاہ ہوتے ہیں۔‘‘
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کہیں برف کی سفیدی اوڑھے بلند و بالیٰ پہاڑہیں تو کہیں درمیانی اونچائی کے پہاڑسامانِ عبرت لیے سطحِ زمین پر ایستادہ نظرآتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں جنگلی جانوروں کی نہ صرف موجودگی ہے بلکہ ان کی تعداد میں ایک تناسب بھی قائم ہے ۔ حشرات الارض کی شکل میں نوع بہ نوع قسم کی مخلوقات بھی زمین میں پھیلا دی گئیں اور اس سارے نظامِ کوہستانی کے پس منظر میں ایک ہی محرک کارفرما کہ زمین کو اور زمین کے ماحولیات کوایک توازن سے آشنا کرایا جائے جس کا ذکر ہم ابھی مذکورہ آیت میں پڑھ آئے ہیں۔ان پہاڑوں کو مخصوص تناسب کے ساتھ کم یا زیادہ بلندی دے کر ہزاروں میل تک ان کے سلسلے دراز کر دئے۔جب سمندروں سے مانسونی بادل اُٹھتے ہیں تو ہوائیں انہیں اپنے دوش پر لیے ان پہاڑوں سے جا ٹکراتی ہیں اور انہیں الگ الگ سمتوں میں پھیلا دیتی ہیں تاکہ زمین کا کوئی گوشہ بارش کی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے۔پھر اِن سلسلہ ہائے کہسار میں ہر دو پہاڑوں کے درمیان ایک مناسب فاصلے پر درّے بھی رکھ دئے گیے، تاکہ انسانی قافلے زمین میں اپنارزق تلا ش کر نے میں آسانی سے نقل و حرکت کر سکیں اور پہاڑوں کی رکاوٹوں کے احساس سے بری ہو کر زمین میں اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ اِن پہاڑوں میں غاروں کی گنجائش پیدا کی تاکہ پُر خطرحالات میں لوگ انہیں جائے قرار بنا سکیں۔سولویں سورۃ کی اکیاسیویں آیت میں اِس کا تذکرہ ملتا ہے: ’’اوراے انسانو، (تم دیکھتے نہیں کہ) اللہ نے تمہارے لئے جو چیزیں بنائی ان میں تمہارے لئے سائے اورسائبان بنائے اور اسی نے پہاڑوں میں بھی تمہارے لئے غار اور درّے بنائے۔!‘‘
ہمالیائی کوہستانی سلسلوں اور آلپ کے پہاڑی سلسلوں میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ ہزاروں میل طویل ہیں اور کئی کئی ممالک سے ہوتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کے بھی کئی ذیلی سلسلے پائے جاتے ہیں۔ سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلندالگ الگ اونچائیوں والی چوٹیاں ہوتی ہیں۔مگر ان میں بھی انسانی سفر کے لئے درّے موجود ہیں ،وادیاں ہیں۔اگرانسان اپنی عقلِ سلیم کو استعمال کرے،تو اپنے رب کے کرم اور فضل کو پہچان سکتاہے۔جس طرح ان پہاڑ کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، مختلف اونچائی ہوتی ہے، اسی طرح انکی اندورنی بناوٹ بھی مختلف ہوتی ہے۔ ان میں مختلف پرتیں Layers ہوتی ہیں۔خود زمین کے اندر بھی کئی طرح کی مختلف پرتیں ہوتی ہیں۔ یہ پرتیں بھی بڑے بڑے پہاڑوں کی مانند ہوتی ہیں۔ سطح زمین کے نیچے کی Plate مسلسل حرکت کر رہی ہے۔سائنسی زبان میں اسے Earth Crust کہا جاتا ہے۔ اسکی وجہ سے بھی پہاڑوں کی بلندی اور تہہ بنتی ہے۔یہ عمل ایک ایسی دھیمی رفتار سے جاری رہتا ہے کہ عام طورپرنہ ہم اسے دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔زمین کے پیٹ میں اب بھی ایک طرح کی جہنم دہک رہی ہے۔ہمارا رب لاوے کی شکل میں قیمتی معدنیات وہاں سے ہمارے لئے آتش فشاں کی صورت میں برآمد کرکے عطا فرماتا ہے۔ کبھی کبھی زمین کی پرتوں کے سفر اور ایک دوسرے سے ٹکراؤ کے اثرات،زمین کے اوپر بسنے والوں پر پڑتے ہیں۔سمندروں کی سطح کے نیچے کی زمین میں بھی یہ عمل جاری رہتا ہے۔ وہاں بھی زلزلے آتے ہیں۔اس کا اثر بھی زمین کے اوپر آباد مخلوق پر پڑتا ہے۔ ان پہاڑوں کو اونچائیوں سے سرفراز کرنے والا رب ہمیں اپنی کتاب میں اپنی ہستی کی پہچان کرواتے ہوئے ایک نایاب ہدایت دیتا ہے۔ستراویں سورۃ کی اڑتیسویں آیت میں ارشاد فرما یا گیا:’’ اورتم زمین میں اکڑ کر نہ چلنا ،بے شک تم زمین کو نہ تو پھاڑ سکتے ہواور نہ ہی تم پہاڑوں کے برابر خود کو بلند کر سکتے ہو۔ ‘‘
غرض کہ ماحولیات کا یہ سارا نظام جس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر زمین پر کثیر تعداد میں آباد انسان ہی مستفید ہو رہے ہیں،آخر کس قوتِ باحشمت کا برپا کیا ہوا ہے؟کون ہے وہ جس نے اِس سارے نظام کی تخلیق فرمائی اور کس نے اِس پورے منظر نامے کی منصوبہ بندی کی ہے؟کیا اِن سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے خالق کو کسی مقام پر جاکر ڈھونڈنا پڑے گا؟ کیا یہ بے پناہ نشانیاں اِس ضرورت کو باقی رہنے دیتی ہیں کہ خالق کو ڈھونڈ کر ہی اُس کی عظمت کا اعتراف کیا جائے۔!ہر گز نہیں۔
کون ہے ان پہاڑوں کو بلندیوں کا تحفہ عطا کرنے والا؟ کون ہے وہ جو زیرِ زمیں پہاڑوں کو چلانے کی قدرت رکھتا ہے جو بظاہر جامد و ساکت نظر آتے ہیں؟ کون ہے وہ جس کی گرفت میں زمین کے اندر اور باہر کے ایک ایک ذرے کی حرکت ہے ؟ ایک باشعور انسان کوجس نے اپنی عقل کے دروازوں کو۔۔۔ وا۔۔۔ رکھا ہے، پکار اُٹھنا چاہیے کہ یہ نظام اُس واحد خلاق العلیم کا برپا کردہ ہے جس نے اِس کائنات کی تخلیق کی ہے اور اِس کائنات کے زمین جیسے ذرے پر انسان کی تخلیق فرمائی۔!! دانا وبینا انسان ضرور پکار اٹھے گاانتہائی قوتوں والا ایک زبردست مالک ہے جس کا کوئی شریک نہیں، جس کو چیلنج کرنے کی کسی میں مجال نہیں،جس نے اِس نظام کو پل پل سنبھالے ہوئے ہے،جسے ہر شے کی خبر ہے،نہ اس سے کوئی چھپ سکتا ہے ،نہ اس کی پکڑ سے بھاگ سکتا ہے۔سزا کا مستحق ہو تونہ سزا بچ سکتا ہے اور جزا کا مستحق ہوتو نہ انعام سے محروم رہ سکتا ہے۔تو پھر کیوں نہیں ہم اُس کی بارگاہ میں اپنے سر کو جھکا دیتے،اپنے دل و دماغ،اپنے جسم و روح، اپنے ایمان و عمل کے ساتھ!کیا ہم نہیں دیکھتے کہ کائنات میں موجود ناقابلِ یقین ہئیت رکھنے والے اجسام ہی نہیں ، پوری کائنات مالک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہے اور رب تعالےٰ کی تابعِ فرمان ہے ۔۔۔!بائیسویں سورۃ کی اٹھارویں آیت ہمارے سامنے ہے:’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے آگے کس طرح (وہ سب اشیاء )سجدہ ریز ہیں جو آسمانوں اور زمین میں( اپنا وجود رکھتے ہیں) اور کس طرح آفتاب و ماہتاب اور کوہ و شجر اور(ہر نوع کے متحرک) جاندار(بھی اپنے معبودِ حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں) اورلوگوں کی کثیر تعداد بھی( اُس کی بارگاہ میں اپنی جبینیں جھکائے ہوئے ہے) ، پھر(اپنی جبینوں کو سجدوں کی سعادت دینے والوں میں) اُن لوگوں کی اکثریت بھی(شامل ہے) جن پر عذاب (کی مہر) ثبت ہو چکی ہے ۔اور اللہ جسے ذلیل کردے تو اُسے( مقامِ) تکریم عطا کرنے والا کوئی نہیں ہے، بے شک اللہ جو چاہتا ہے کر گزرتاہے۔‘‘
ساڑھے پانچ فٹ کے ایک انسان کو’’ عقل‘‘ نامی ایک ایسے Device کے ساتھ دنیامیں بھیجا گیا ہے جس کے استعمال سے وہ نہ صرف زندگی کے ہر نشیب و فراز سے واقف ہوجاتا ہے بلکہ سمندروں کی گہرائیوں ، پہاڑوں کی اونچائیوں، ہواؤں کے بہاؤ کو نا پنے لگتا ہے اور اِن کی حسبِ کیفیت اِن سے اپنے رویوں کا تعین کرتا ہے اور اپنی زندگی کو محورِ تعیش عطا کرکے اپنی عقل پر اِترانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔پھر وہ رفتہ رفتہ اِسی عقل کو ،عقل دینے والے کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں پر لگا دیتاہے۔لیکن اُس کی عقل کی حقیقت تب کھلتی ہے جب وہ اپنے اختیارات کا حدود آشنا ہو جاتا ہے اوریہ مقام وہ ہوتا ہے جہاں سے پلٹنا اُس کے بس کی بات نہیں ہوتی یعنی وہPoint of No Retuپر پہنچ جاتا ہے۔اِس لیے کہ سمندر بپھر جاتے ہیں، پہاڑ آتش فشاں بن کر لاوا اُگلنے لگتے ہیں، ہوائیں آندھیوں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اور بگولے اِنسانی عقل ہی کو نہیں خود انسان ہی کو اُڑا لے جانے کے لیے تیار رہتی ہیں، پاؤں تلے زمین کھسکنے لگتی ہے۔ اُس کی قوت و حشمت اور قابلیت و صلاحیت بے حقیقت ہو جاتی ہے۔تب اُسے اپنی بے بسی کا احساس ہونے لگتا ہے، وہ سارا شرک بھول کر ایک ہی خالق و مالک کے آگے جھکنے پر آمادہ ہوتا ہے اور اِسی بحران میں وہ شرک کو بھولنا چاہتا ہے اور خلوص کے ساتھ صرف اپنے خالق کو پکارنے لگتا ہے۔لیکن بقول شاعر
جب زمین پھٹتی ہے آتا ہے سمندر میں اُبال تب تو فرعون بھی اقرارِ خدا کرتے ہیں
پھر ہوتا کیا ہے! اِس سے پہلے کہ سرکش انسانی عقل اپنی بے بسی کا رونا روئے ، یہی عقل، انسان اور انسانوں کے شرک و سرکشی سمیت فنا ہو جاتی ہیں۔ نارمل حالات میں اپنے رب کے ساتھ آخر ہمارا وہ تعلق کیوں نہیں برقرار رہتا جو بحران کی حالت میں عود کر آتا ہے؟ جیسے ہی حالات نارمل ہوجائیں تو کیوں ہم بے راہ رو ی اختیار کر لیتے ہیں؟ ہم اپنے مالک سے ویسا ہی خوف کیوں نہیں محسوس کرتے جو بحرانی حالات میں اُس کے غضب کے سبب ہم پر طاری رہتا ہے؟ کیوں ہم دوبارہ اپنی تعیشانہ طرز زندگی میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں اور پھر اپنے خالق سے وہ ربط باقی نہیں رہتا جو رہنا چاہیے۔؟ یہی استفسار ہے جو ہمیں ستراویں سورۃ کی سدسٹھویں آیت میں ملتا ہے جس میں خود ہمارا رب ہم سے پوچھتا ہے:’’اور جب بحرِ(مطلاطم)میں تمہیں کوئی مصیبت گھیر لیتی ہے تو(تمہارا یہ طرز عمل ہوتا ہے کہ تم) اُن سب(معبودانِ باطل) کونظر انداز کر دیتے ہوجنہیں تم نے(عام حالات میں اپنی حاجت روائی کے لیے) پکارا تھا،مگر(اپنی نجات کے لیے) صرف اُسی(ربِّ واحد سے فریاد کرتے ہو ) ،پھر جب وہ تمہیں (طوفانوں سے) بچا کرخشکی کی طرف لے آتاہے تو(تمہارا طرز عمل بدل جاتا ہے اور) تم(اُسی ربِّ حقیقی سے) اعراض برتنے لگتے ہو،(سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ) انسان بڑا ناشکرا واقع ہوا ہے۔‘‘
سمندر پر ایک نگاہ ڈالیے، حد نظر تک پانی ہی پانی،دوسرے کنارے کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں۔ سر پر جوآسمان ہے اُس پرایک نگاہ ڈالیے،اِس کی بھی کوئی حد نظر نہیں آتی۔ اوپر آسمان کی بے نیازِ حدود اونچائیاں اور نیچے سمندر کی اتاہ گہرائیاں۔ایسے میں کسی ہوائی پرواز کے دوران ہوائی جہاز میں کسی خرابی کی خبر مسافروں کے درمیان پھیل جاتی ہے توان کی ذہنی کیفیات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔جب بچنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی اور امید کی ہر کرن موہوم ہو جاتی ہے، تب انسان سراسیمگی کے عالم میں کتنی لگن اورکس قدر اخلاص کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے! لیکن جیسے ہی حالات نارمل کی طرف لوٹتے ہیں تو وہ بھی دھیرے دھیرے اپنی پرانی روش پر آ نے لگتا ہے۔لیکن ایک باشعور انسان کا یہ شیوہ نہیں ہوتا۔ وہ ہر صورتحال میں۔۔۔راحت ہو کہ مصیبت۔۔۔ اپنے رب کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ضروری نہیں کہ صرف ہوائی پرواز یا سمندری سفر میں ہی ایسی صورتحال پیدا ہو جائے، بلکہ زمین پر کسی وقت بھی انسان سے تمام دنیوی سہارے چھن سکتے ہیں بجز خدائے لاشریک کے سہارے کے۔ایسے میں انسان لامحالہ اُسی خدائے واحدہ‘ لاشریک کو پکارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
آج نت نیے جدید سائنسی آلات جیسے کمپاس کی موجودگی میں انسان کے لیے اپنی سمتِ سفر معلوم کرلینا اور منزل مقصود پر پہنچ جانا دشوار نہیں رہ گیا ہے۔لیکن اِن ایجادات سے پہلے بھی انسان اپنے سفر کی ان دشواریوں پر قابو پا چکا تھا ۔رب تعالےٰ نے آسمان پرآفتاب و مہتاب اور سیاروں اور ستاروں کی جو انجمن سجا رکھی ہے وہ اُس کے بہت کام دیتی تھی ۔دن میں سورج کے طلوع اور غروب کے قدرتی منظر سے اور رات میں چمکتے ستاروں کے ذریعہ اپنی سمتِ سفر معلوم کرکے ایک مسافر طویل فاصلے طے کرلیتا اور اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ جاتا تھا۔حتیٰ کہ طویل سمندری وصحرائی اسفار بھی وہ اِن ہی قدرتی مناظر کی مدد سے بڑی کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیتا تھا۔یعنی زمانہ کوئی بھی کیوں نہ ہو اور انسان کسی زمانے کا کیوں نہ ہو، اُس کی نقل و حرکت میں جب خدائی رہنمائیاں شامل حال رہی ہیں توظاہر ہے، وہ سفر جو دنیا سے ہوتے ہوئے ، آخرت کی منزل کی سمت کیا جاتا ہے، اِس سفر کی کامیابی کا انتظام بھی رب تعالےٰ نے کر ہی دیا ہے، یعنی ایک طرف اندرونی سسٹم کے ذریعہ انسان کو ضمیر واختیار کی آزادی اور اچھے برے کی تمیز عطاکی اوردوسری طرف بیرونی طور پر نبیوں، رسولوں اور کتابوں کے ذریعے اُس کی حقیقی منزل کا پتہ بتایا گیا، تاکہ انسان اپنی آخرت کے سفر کو صحیح سمت میں جاری رکھ سکے ۔اپنے رب کے اِن عظیم احسانات و انتطامات کے بعد اب ہمارا یہ فرض بننا چاہیے کہ ہم اپنے رب کی رضا کا راستہ چن لیں اور کتابِ ہدایت ۔۔۔القرآن۔۔۔ سے اپنا رشتہ جوڑلیں،اُسوۂ حبیبِ ؐ کبر یا کو اپنا لیں،احکاماتِ اِلٰہی کی روشنی میں اِس راہ کے آداب سے واقف ہو جائیں اور منزلِ آخرت پر شاداں و فرحاں پہنچ کر عیشِ دوام سے ہم آغوش ہو جائیں۔یہی حقیقی منزل بھی ہے اور یہی حقیقی منزل رسی بھی ہے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ان حقائق پر غور کرکے ہم اپنے غرور وتکبر کے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیں،اپنی ذات کی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی تمام ترقابلیتوں اور صلاحیتوں کی چوٹیوں کو اپنے رب اعلیٰ کے آگے سجدہ ریز کروا کے دم لیں،اس سے قبل کہ وہ وقت آجائے جب یہ قوی ہیکل پہاڑروئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھر رہے ہونگے اور ہنگامۂ حشر برپا ہوچکا ہوگااور مہلت عمل ختم ہو چکی ہوگی۔!!
جواب دیں