جب جج ہی رو رہے ہوں تو ہم کیا ہمارا رونا کیا؟

تو ملک کے 20 کروڑ اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ رتھ یاترا کے ذریعہ پورے ملک میں آگ لگانے والے ایل کے اڈوانی کو اور ان کو جو اپنی قیادت میں پانچ لاکھ سے زیادہ ہندو دہشت گردوں کو اُکساکر لائے تھے اور ان کو جو دن بھر تخت کے منچ پر کود کودکر نعرے لگاتے رہے کہ ایک دھکا اور دو اور ان کو جنہوں نے دوسرے دن سینہ پر ہاتھ مار مارکر کہا تھا کہ ہاں ہم نے اس بابر کے ڈھانچہ کو گروایا تھا جو ہندوؤں کی غلامی کا نشان تھا اور ان لاکھوں میں سے جن کی شناخت ہوسکے ان سب کو ان کے جرم کے مطابق ضرور سزا دلادی جائے گی۔
جسٹس لبراہن کو یہ رپورٹ تیار کرنے میں اس لئے 17 برس لگے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں، افسر شاہی اور پولیس جتنی رکاوٹیں ڈال سکتے تھے ڈالتے رہے اور لبراہن صاحب توسیع کے الزام میں ہم جیسے کمتر درجہ کے لکھنے والوں اور نکڑ سبھا کے مقرروں کا نشانہ بنتے رہے اور جب اس 17 برس کی جان کھپا دینے والی محنت کے بعد ایک ہزار صفحہ کی رپورٹ حکومت کی خدمت میں پیش کردی کہ اب مرکزی حکومت کو انصاف کرنا ہے تو معلوم ہوا کہ ؂ خواب تھا جو کچھ بھی دیکھا جو لکھا افسانہ تھا۔ جسٹس لبراہن کے یہ الفاظ کہ ’بی جے پی کے جو لیڈر بابری مسجد کے گرانے میں شامل تھے آج آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں اور راجستھان کے گورنر وہ کلیان سنگھ ہیں جو اس حادثہ کے ہیرو تھے۔ رپورٹ میں لبراہن صاحب نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے کئی سینئر رہنماؤں کو ملوث بتایا ہے لیکن ووٹ اور نعرے کی سیاست کی وجہ سے مجھے امید نہیں کہ کوئی کارروائی ہوگی اور انہوں نے یہ کہہ کر اور رپورٹ میں لکھ کر آج کے وزیر داخلہ کا منھ بند کردیا ہے کہ اپنی رپورٹ میں ہندو دہشت گرد کا لفظ سب سے پہلے انہوں نے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا ہے کہ انہیں امید نہیں کہ اس رپورٹ پر کچھ بھی عمل کیا جائے گا۔‘
بابری مسجد کے ہی ردّعمل میں پورے ملک میں مسلمان سڑکوں پر آئے تھے اور 10 دسمبر 1992 ء اور 06 جنوری سے 20 جنوری 1993 ء کے درمیان مسلمانوں کو گھیر گھیرکر ممبئی میں قتل کرنے کی تحقیقات مہاراشٹر حکومت کی طرف سے جسٹس سری کرشنا کے سپرد ہوئی تھی اس تحقیقات سے یہ پتہ لگانا تھا کہ اس خونریزی اور بم دھماکوں کے درمیان کوئی تعلق تھا؟ اور کیا فساد کے ردّعمل کے طور پر یہ دھماکے ہوئے تھے۔ یہ تو کمیشن نے کہا ہے کہ ان تاریخوں میں 900 سے بھی زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ یہ سری کرشنا صاحب کی معلومات پر مبنی رپورٹ ہے۔ ورنہ مرنے والے مسلمانوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے جج صاحب کو ایسے کسی ایک مرنے والے کی بھی خبر کون دیتا جسے اس کے رشتہ دار لاد پھاندکر ٹرین میں لائے اور وہ بغیر دوا اور غذا کے مرگیا؟ ممبئی سے جو جو ٹرین شمالی ہندوستان آئیں وہ لکھنؤ رُکیں یا پٹنہ چلی گئیں یا گورکھ پور میں رُک گئیں یا کان پور میں آدھی خالی ہوگئیں ان کا بتانے والا کون تھا؟
اس پورے ایک مہینہ تک جو کچھ ہوتا رہا وہ فساد نہیں تھا بلکہ اُترباسی مسلمانوں سے بمبئی کو نہیں ممبئی کو خالی کرانے کے لئے تھا اور اسی لئے اس میں سب سے بڑھ کر حصہ لینے والوں میں شیوسینا تھی گوپی ناتھ منڈے کی پارٹی تھی وی ایچ پی اور بجرنگ دل تھا اور پولیس خود تھی اسی لئے جسٹس سری کرشنا کو لکھنا پڑا کہ ممبئی میں ہوئے فسادات میں یہی ہوا کہ جو متاثر تھے انہیں مجرم بناکر پیش کیا گیا ایسے میں ظاہر ہے کہ وہی ہوگا جو ریاستی حکومت کی مرضی ہوگی۔ پولیس نے جس لگن اور قابلیت بم دھماکوں کی تحقیق میں دکھائی۔ افسوس یہی ہے کہ فسادات کے معاملہ میں اتنی نہیں دکھائی۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ریاستی حکومت کے سسٹم سے ناراض اور دُکھی ہوکر باہر سے مدد لے کر بم دھماکے کئے۔
جسٹس لبراہن اور سری کرشنا نے کتنے دُکھ کے ساتھ یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی 17 برس کی محنت کا حاصل صرف یہ ہوا کہ انہیں ریٹائر ہونے کے بعد بے روزگاروں کے خانہ میں رکھ کر ان سے منشی گیری کرالی اور جو لاکھوں روپئے خرچ کیا گیا وہ صرف اس لئے کہ ملک کے 20 کروڑ مسلمان سانس روکے اور منھ بند کئے رپورٹ کا انتظار کرتے رہیں، ان سابق ججوں کو کس قدر ذلیل کیا گیا ہے جن کے قلم سے اگر کسی کو سزائے موت کا حکم دے دیا جاتا تھا تو اسے سپریم کورٹ اور صدر یعنی مرکزی حکومت ہی بدل سکتی تھی۔ ان ہی ججوں کی 17 برس کی محنت کے بعد آئی ہوئی رپورٹ کو کوئی ردّی خریدنے والا ہی خرید سکتا ہے۔ جبکہ اُن کے ماتحت نوکروں جیسے سی بی آئی والوں کی تیار کی گئی رپورٹ پر کسی کو پھانسی، دس کو عمرقید، معذور خواتین پر بھی کوئی رحم نہیں۔ ان ججوں کی اس سے زیادہ بے عزتی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اسی لئے لبراہن صاحب کہہ رہے ہیں کہ سچ کی قیمت ادا کردی اور کرتا رہوں گا اور کرشنا صاحب اپنی جگہ اپنی بے وقعتی کا رونا رو رہے ہیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کو فیصلہ کرلینا چاہئے کہ ان کو اب اس ملک میں جسے انہوں نے اپنا ملک سمجھ کر رہنے کا فیصلہ کیا تھا اب فلسطینی مسلمانوں کی طرح رہنا ہے جن کا ان کے پروردگار کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آٹھ برس پہلے ہر دس پندرہ دن کے بعد جو گجرات میں مسلمان نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس الزام میں مارے جارہے تھے کہ وہ مودی کو مارنے آرہے تھے۔ کیا اب ان کی نسل ختم ہوگئی؟ یا مودی نماز روزہ اور اللہ کی عبادت کرنے لگے؟ اور 18 مہینے سے جب سے مودی صاحب نے تاج پہنا ہے انڈین مجاہدین بھی ختم ہوگئے۔ اب نہ ان کا جہاد ہے نہ بم دھماکے اور نہ قرآنی آیت سے سجا لیٹر پیڈ؟ اور کیا یہ سب اس لئے نہیں تھا کہ مسلمان اس ملک کو جسے اب شیوسینا کھل کر سامنا میں 100 فیصدی ہندو ملک کہہ رہی ہے ہندو ملک سمجھ کر رہیں اور اپنی حدیں مقرر کرلیں؟
یعقوب میمن کی پھانسی پر اب گرد پڑنا شروع ہوگئی ہے۔ اس کے متعلق نہ ہم نے کبھی کہا کہ وہ غلط ہے اور نہ کسی کو کہنے کا حق تھا۔ لیکن اسے کیا کریں کہ اب تک تو ’را‘ کے سابق افسر بی رمن کے اس مضمون کے اقتباس ہی گردش کررہے تھے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ یعقوب نے تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ بہت تعاون کیا تھا اس لئے اسے بڑی سزا دینے سے سوچا جانا چاہئے اور اب ایک انکشاف نے ایسا دہلادیا ہے کہ وہ یعقوب کی مغفرت کی دعا کے لئے انہیں بھی ہاتھ اُٹھانے پر مجبور کردے گا جو اس کشمکش میں تھے کہ وہ بم دھماکوں کا ذمہ دار تھا یا نہیں؟

باکس میں
اب 13 واں دھماکہ
مسٹر شیام کیشوانی یعقوب کے وہ وکیل ہیں جنہیں سب سے پہلے مقدمہ سونپا گیا تھا انہوں نے اے. بی. پی. نیوز کو بتایا کہ سی بی آئی کو جب پتہ چلا کہ یعقوب نے مجھے وکیل کیا ہے اور یعقوب کی ضمانت کی درخواست نہیں دی تو سی بی آئی کے ایک بہت بڑے افسر مسٹر چٹوال نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور کہا کہ کمال ہے آپ نے اب تک ضمانت کی درخواست نہیں دی؟ تو میں نے کہا کہ پہلی پیشی یا پہلے دن کون ضمانت کی درخواست دیتا ہے تھوڑا وقت گذر جانے دو تو میں ضمانت کی درخواست دے دوں گا۔ تو مسٹر چٹوال نے کہا کہ نہیں نہیں یعقوب نے انڈین اتھارٹیز کی جو مدد کی ہے وہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ہماری جو اپنی خفیہ ایجنسیاں ہیں وہ گذشتہ 45 سال میں اس کا دس فیصدی بھی کام نہیں کرپائیں جو یعقوب نے ایک دن میں کردیا۔
اس نے بتایا کہ پڑوسی ملک میں ہندوستان کے خلاف کام کس طرح کیا جاتا ہے؟ تم اس کی ضمانت کی درخواست دو ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔
مسٹر کیشوانی کا کہنا ہے کہ میں نے دوسرے دن ہی ضمانت کی درخواست دے دی۔ جب سرکاری وکیل آئے تو انہوں نے بھرپور مخالفت کی اس وقت جوئل نگم وکیل نہیں تھے۔ میں نے واپس آکر چٹوال کو فون کرکے کہا کہ تم جوکر تو نہیں ہو؟ تم اس دن مذاق کررہے تھے یا تم نے آج مذاق کیا؟ انہوں نے کہا سوری مسٹر کیشوانی راتوں رات دہلی کے آرڈر بدل گئے۔

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے