جب فرعون کی نعش دریافت کی گئی ،

حنوط شدہ نعشوں کو انگریزی زبان میں (Mummies)کہتے ہیں۔قاہرہ کے عجائب خانے میں پڑی بیشتر ممیاں مصر کے ’’ویر البحری‘‘نامی علاقے سے ملی تھیں۔ مسلمانوں کی لیے ان ممیوں میں خصوصی اہمیت ہے ،کیونکہ قاہرہ میوزیم میں پڑی فرعون ’’منفتاح‘‘کی نعش یعنی ’’ممی ‘‘قرآن حکیم کی حقانیت کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔
عام خیال ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے جس فرعون کے محل میں پرورش پائی اسی سے بعد میں ان کی مڈبھیڑ ہوئی تھی ،مگر تاریخی حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ خیال غلط ہے ،اس غلط فہمی کی وجہ شاید لفظ ’’فرعون ‘‘ہی بنا۔حقیقت یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کا واسطہ دو فراعنہ سے پڑا ۔ رعمیسس اول بہت ظالم اور سفاک شخص تھا۔ نجومیوں کی ہدایت پر اس نے حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیلیوں کے گھروں میں اگر لڑکا جنم لے تو اسے قتل کر دیا جائے تاکہ وہ اس کے تخت وتاج کے لئے خطرہ نہ بن سکے ۔ حکمت الہی کے تحت حضرت موسی علیہ السلام قتل ہونے سے بچ رہے۔ یہی نہیں اللہ نے فرعون کی بیوی کے دل میں رحم پیدا کر دیا اور اس نے حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش خود کی تھی۔
رعمیسس اول کی موت کے بعد اس کا بیٹا منفتاح(Mineptah)رعمیس دوم تخت نشین ہوا۔اسکا دور 1225 -1215-ق م ہے۔ فرعون منفتاح اپنے باپ کے ڈیڑھ سو بچوں میں سے تیرہویں نمبر پر تھا۔ وہ بھی باپ کی طرح انتہا ئی سفاک اور شقی القلب تھا ۔اس نے بنی اسرائیل سے بیگار لینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔اور ان پر تشدد کی انتہا کر دی تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون سے کوئی ذاتی لڑائی نہ تھی ،انہوں نے کبھی فرعون کے اقتدار پر قبضے کی معمولی سی کوشش بھی نہ کی تھی ۔انکا مطالبہ صرف اس قدر تھا کہ فرعون بنی اسرائیل پر ظلم بند کردے ،اور خدائے واحد پر ایما ن لے آئے ۔ فرعون ان باتوں کی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام کا سخت دشمن بن گیا تھا ،بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلانے کے لئے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا تعاقب کیا ۔جب یہ لشکر دریا کے کنارے پہنچا ،تو اسکی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے اللہ تعالی کے حکم سے انہیں راستہ دے دیا ،اب فرعون بمعہ اپنے ظلم اور ساتھیوں کے غرق ہوگیا ،فرعون نے جب موت کو سامنے دیکھا تو خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کا اقرار کرنے لگا۔ سورۃ یونس میں ہے (ترجمہ )اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں ،اس معبود پر جس پر اسرائیل ایمان لاچکے ہیں ،کہ سوائے اس کے کوئی دوسراعبادت کے لائق نہیں‘‘مگر فرعون کا اقرار قبول نہ کیا گیا، یہی نہیں قرآن پاک میں فرعون کو خطاب کرتے ہوئے فرما دیا گیا (ترجمہ )’’کہ آج ہم تیرے بدن کو بچالیں گے ،تاہم تجھ سے آئندہ لوگ عبرت حاصل کر تے رہیں۔‘‘
حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے لشکر کا تعاقب کرتے ہوئے فرعون اور اسکے چیلے امراء اور جرنیل غرق ہو گئے تھے ۔فرعون کی موت پر اس کے پجاریوں پر بجلی ٹوٹ گی۔ پورے ملک میں سوگ کی کیفیت تھی ،دویا تین دن بعد پانی نے اللہ کے حکم سے فرعون کی نعش کو اگل دیا ،جسے دریا کی تیز لہروں نے کنارے پر پھینک دیا۔ لوگوں کو پتہ چلا تو وہ نعش اٹھا لائے ۔ اپنے حاکم کو پہچان کر انہوں حسب روایت اس کی نعش کو حنوط کر کے ایک قدیم فرعون ’’آمن ہیتب ثانی ‘‘(Amen Heteb-ii)کے مقبرہ کے تہ خانے میں دفن کر دیا گیا۔مورخین کا خیال ہے چونکہ یہ بحرانی دور تھا،اس لئے ہو سکتا ہے فوری طور پر منفتاح کا مقبرہ تعمیر کرنا ممکن نہ ہوا ۔اور اسے پرانے مقبرے میں ہی دفن کر دیا گیا ،یہ ممیاں اور ان کے مقبرے کئی سو سال محفوظ رہے ۔
قدیم اہل مصر نہ صرف اس حقیقت سے نہ واقف تھے بلکہ فرعون کی غرقابی کے واقعے سے ہی انکاری تھے اسی لئے تو قدیم مصری لٹریچر میں اس قسم کے کسی واقعہ کا کوئی تذکرہ نہیں وہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں مصریوں کی شکست کا ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتے تھے ۔ہو سکتا ہے یہ ان کے نزدیک قومی حمیت کے خلاف بات ہو ۔
قرآن حکیم کے نزول کے بارہ ساڑھے بارہ سو سال تک بھی فراعنۂ مصر کی نعش منظر عام پر نہ آئی تھیں۔ مفسرین کو اس دور میں فرعون کے متعلق آیت مبارکہ کی تشریح میں کچھ دشواری پیش آتی ہوگی۔غیرمسلموں کو بھی اپنی بد باطنی کے اظہار اور کتاب ہدیٰ پر اعتراض کا موقعہ ملتا ہوگا۔ مگر وقت نے قرآن حکیم کی صداقت ثابت کر دی ۔اور کتاب برحق نے اپنے نزول کے کوئی چودہ سو سال بعد ایک ایسا معجزہ دکھادیا ۔جس سے اسلام اور قرآن مجید کی حقانیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔
فراعنہ کی نعشیں کیسے ملیں؟یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ ’’ممیوں‘‘تک پہلے پہل رسائی کسی ماہر آثار قدیمہ نے نہیں ،بلکہ ایک سادہ سے مصری شخص احمد عبد الرسول نے حاصل کی تھی۔ اس دریافت پر اسے جیل بھی بھگتنی پڑی ۔ہوا یوں کہ 1871ء میں یہ خفیہ راستہ مصری نوادرات چورالغورنیہ سے تعلق رکھنے والے احمد عبد الرسول نے اتفاقیہ طور پر تلاش کیا ،وہ بیسویں صدی کے آغاز تک زندہ رہا۔
دو سوسال سے مختلف اقوام کے محققین مصر کی قدیم تہذیب کی کھوج میں مصروف رہے ۔ اس عرصہ میں سینکڑوں مقابرات دریافت ہوئے ۔ جن سے ہزاروں ممیاں ملیں ماہرین چاہتے تھے کہ انہیں کوئی مکمل مقبرہ مل جائے ۔تاکہ اس کی مدد سے قدیم مصری ادوار پر روشنی پڑ سکے ،مگر انہیں اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑ تا ،جب وہ یہ دیکھتے کہ کسی زمانے میں لٹیرے مقبرے کے کسی دوسرے مقبرے کا بیرونی منظر یہاں سے ممی دریافت ہوئی راستے سے داخل ہو کر مقبرے میں لوٹ مار کر چکے ہیں۔
’’شاہوں کی وادی ‘‘میں کھدائی کا کام جاری تھا۔یکم جون 1886ء کو کھدائی کے دوران لکڑی کا ایک تابوت بر آمد ہوا ۔ اس پر کچھ ایسی عبارت کندہ تھیں ،جن سے ظاہر ہوتاتھا۔کہ یہ رعمیسس ثانی کی نعش کا تابوت ہے۔ اس کے باوجود آثار قدیمہ کے بعض ماہرین کو اس میں شک ہوا کہ نعش واقعی فرعون کہ ہے ۔ آخر تابوت کا ڈھکنا الگ کیا گیا۔ اور نعش کے اوپر والے کپڑے کو ہٹایا گیا تو اصل کفن جس سے نعش کا سینہ ڈھانپ رکھا تھا۔روشنائی سے نمایاطور پر ’’رعمیسس دوم‘‘کا نام لکھا ہوا پایا گیا ،اس موقع پر خدیو مصر توفیق پاشا موقع پر موجود تھا۔
ایک مغربی ماہر آثار قدیمہ لاوٹ نے 1893ء میں کھدائی کر کیا منوفس دوم کے مقبرے کی دریافت کی جہاں منفتاح کی نعش ودیگر تیرہ ممیوں کے ہمراہ ملی۔ منفتاح کی نعش اس کے باپ کی نعش ملنے کے گیارہ سال بعد بر آمد ہوئی ۔قبل ازین کسی کو اس کی مدفن کا علم نہ تھا ،اس کی ممی فرعون رعمیسس کی نعش ملنے کے گیارہ سال بعد دریافت ہوئی 1898ء میں ’’بادشاہوں کی وادی ‘‘میں کھدائی کا سلسلہ جاری تھا کہ آثار قدیمہ کے ایک مغربی ماہر مسٹر لوویٹ (Lovet)نے اپنے پانچ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شاہ ہیتب ثانی کا مقبرہ کھولا تو اس کے ایک ذیلی کمرے سے ایک تابوت ملا۔تابوت کا چوبی ڈھکنا اٹھایا گیا تو ممی کے کفن پر واضح طور پر فرعون منفتاح کا نام لکھا ہواپایا گیا۔ آثار قدیمہ کے ایک ماہر سر گرفٹن ایلیٹ لکھتا ہے کہ فرعون منفتاح کی نعش کی پٹیاں کھولی گئیں تو دیکھنے والے حیران رہ گئے کہ اس کے جسم پر نمک کی ایک تہہ جمی ہوئی تھی جب کہ دوسرے کے جسم پر نمک کی تہ کا نام ونشان تک نہ تھا۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اس نے حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش کی تھی ۔سمندر میں غرق رہنے کی وجہ سے فرعون کی نعش پر نمک کے ذرات کی تہ جم گئی ہو گی ۔حنوط کرنے والے ادویہ نے اس کے جسم کے ساتھ ساتھ نمک کی اس تہہ کو بھی محفوظ کر لیا ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نعش کے ناک پر نشان ہے ۔ لگتا ہے کسی سمندری جانور نے فرعون کی غرقابی کے بعد اس کی نعش کو کھانے کی کوشش کی ،مگر چونکہ حکم خداوندی تھا اس لئے وہ ایسا نہ کر سکا ،اور بحر قلزم کے پانی نے اسے باہر اگل دیا۔
ممیاں قاہرہ یونیور سٹی کے میڈیکل ا سکول میں پڑی رہیں۔ اس کے بعد 1947ء میں انکشاف ہوا تھا کہ فرعون رعمیسس دوم کی ممی خراب 
ہو رہی ہے۔ تاہم ان کی نمائش جاری رہی ۔کچھ عرصہ بعد میوزم کا ’’ممی روم ‘‘عوام الناس کے لئے بند کر دیا گیا۔ صدر نوادرات نے آخری بار ممیوں کو دیکھا ،اور رعمیسس کی ممی کی ’’مرمت ‘‘کے احکامات جاری کئے ، سادات کے قتل کے بعد میوزیم کی تزئین نو کا کام رک گیا۔ بعد ازاں ممی کو بڑی احتیاط اور اہتمام کے ساتھ فرانس لے جایا گیا ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ فرعون کی نعش کو ہوا یا ڈے پر وہی پروٹول کول دیا گیا،جو کسی ملک کے حکمرا ں کو دیا گیا ہے ۔اس کا استقبال کیا گیا ،اور سلامی دی گئی تھی۔ فرانسیسی ماہرین نے ممی کا جدید مشینوں کی مدد سے معائنہ کیا۔ وہیں معلوم ہوا کہ ممی کو اسی اقسام کی پھپھوندیاں لگ چکی تھیں۔ڈکٹرو کے ایک بورڈ نے جس میں ڈاکٹر موریس باکا ئلے بھی شامل تھے ،ممی کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات تجویز کئے چنانچہ جون 1979ء میں فرانس کے جوہری توانائی کے کمیشن نے تین ہزار سال پرانی ممی کو شعاع بینر(نیوکلیئر ریڈی ایشن)کے ذریعے محفوظ کرنے کے اقدامات کئے ،یہ اپنی نوعیت کا واحد تجربہ تھا ،اس لئے ماہرین کو کافی غور وخوض کے بعد اس کا ’’علاج ‘‘کرنا پڑا۔
فرعون منفتاح کی ممی ملنے پر مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ،کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے قرآن حکیم کا اعجاز دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں بعض متعصب غیر مسلم ماہرین نے یہ شوشہ چھوڑاکی یہ وہ فرعون منفتاح نہیں اورنہ حضرت موسی علیہ السلام کا دشمن تھا ،اور نہ ان کے تعاقب میں غرق ہوا تھا۔ یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ قرآن حکیم کا زادہ معجزہ دنیا کے سامنے آئے ۔ تاہم سائنسی تجربات اور مشاہدات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ۔کہ وہی منفتاح فرعون ہے جس کی نعش کر عبرت کے لئے محفوظ رکھنے کا تذکرہ قرآن حکیم میں موجود ہے۔
مصر کی حکومت نے فرعونوں کی ممیوں کا سائنسی انداز میں معائنہ کرنے کے لئے بیرون ممالک سے جن سائنسدانوں کو بلایا ان میں فرانس کے ڈاکٹر مویس بوکائلے ایک تھے۔ نعشوں کے مشاہدکے بعد انہوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک فرعون ایسا ہے ۔جس کی موت پانی میں ڈوبنے سے واقع ہوئی تھی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ اس واقعہ کا قرآن میں ذکر موجود ہے تو یہ بات سن کر وہ بہت حیران ہوئے ۔اور قرآن مجید کا مطالعہ شروع کر دیا ،وہ جوں جوں قرآن پاک پڑھتے جاتے ،اس کے خدائی کلام ہونے کے قائل ہوتے گئے ۔انہیں قرآن مجید میں سائنسی اعتبار سے کوئی تضاد ی خامی نظر نہ آئی ۔ آخر کار عمیق مطالعہ اور گہرے غور وخوض کے بعد وہ مسلمان ہوگئے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے ’’بائبل،قرآن اور سائنس ‘‘کے تعاون سے ایک معرکتہ الآرا کتا ب لکھی ۔اور ثابت کیا تھا کہ قرآن کتاب حق وصداقت ہے۔ مئی 1993ء میں ان ساڑھے تین ہزار سال پرانی ممیوں کو مستقل طور پر قاہرہ کے عجائب گھر کے روم نمبر56میں نمائش کیلئے رکھ دیا گیا۔اس کے لئے پال کمیٹی انسٹی ٹیوٹ لاس اینجلس نے خصوصی شوکیش تیا رکیا۔جس پر دو لاکھ ڈالر شوکیس لاگت آئی۔

«
»

قصہ در دسنانے پر مجبور ہیں ہم

ہماری وصیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے