عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا

 

    عبداللہ غازی ندوی
    مدیر ماہ نامہ پھول بھٹکل

آج سے کچھ سال پہلے جب ہمارا داخلہ مادر علمی جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے درجہ پنجم مکتب میں ہوا تھا اس وقت ہمارے استاد مولانا طیب صاحب نے ایک شعر مضمون نویسی میں یاد کروایا تھا:

وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا

استاد کے رعب سے اس طرح کے اشعار یاد تو ہوجاتے تھے لیکن اس کے معنی و مفہوم سے نابلد ہی رہتے تھے۔اور کون بچپن کی شرارتوں میں ان شعری گتھیوں کو سلجھاتا اور بال کی کھال نکالتا!
لیکن جب شعور و آگہی اور ذرا سی عقل میں پختگی آئی اور شعری نگارخانوں کو خود سے سجانے کے مواقع ملے تو اس طرح کے بہت سے اشعار کی گرہیں کھلتی گئیں اور ان کے معنی و مفہوم زندگی کے نشیب و فراز اور حوادث زمانہ میں ہی نظر آنے لگے۔

کل سے میری زبان پر اسی شعر کا ورد ہے اور اس کا عملی نمونہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
دراصل گزشتہ کل ہمارا قافلہ  بھٹکل سے پچاس کلو میٹر دور کمٹہ کی طرف رواں دواں تھا،ہمارے ساتھ برادر معظم،آفاق محتشم اور ہمیشہ کی طرح میاں شہروز تھے۔مزید یہ کہ شبیب کولا صاحب بھی سفر کو پُرلطف بنارہے تھے۔
دراصل کمٹہ میں مدرسہ محمدیہ کا ثقافتی جلسہ تھا،ہمارے کلاس فیلو اور یاروں کے یار مولانا عیسی خورشید اور ان کے ساتھیوں کے پیہم اصرار پر جلسے میں شرکت کا پروگرام بنایا گیا تھا، ذہن و دماغ میں یہی تھا کہ چھوٹا موٹا،روایتی اور عام سا جلسہ ہوگا لیکن جب اس میں شرکت ہوئی تو حیرانی ہوئی کہ مختصر سی مدت میں ہمارے ساتھیوں نے اس ویرانے کو اپنی جہد مسلسل اور سعی پیہم سے کس قدر سرسبز و شاداب  اور اپنی عملی و دعوتی فتوحات سے آباد کیا ہے۔
چشم بددور کمٹہ کے مدرسہ محمدیہ سبیل الھدیٰ کے جلسے کا منظر قابل دید تھا،ایک طرف ننھے منے معصوم بچے شروع سے اخیر تک جلسے کی نظامت کررہےتھے،نظامت کرنے والے بے باک اور ایسے نڈر گویا عمر کا بیشتر حصہ جلسوں کی نظامت میں گزرا ہو! 
شاد عظیم آبادی کے الفاظ میں

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ 
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

پھر دوسری طرف اردو،عربی تقریریں اور مکالموں کا کیا پوچھنا! سبحان اللہ سبحان اللہ۔
اقبال کی زبانی مجھے یہ کہنے دیجیے

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

پھر مزید اس منظر کو ایک مصرعے میں اس طرح پڑھتے ہیں کہ

ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

اس اجلاس کی اہم کڑی مدرسے  کے پہلے حافظ حذیفہ بن نظام کی تکمیل حفظ قرآن کی تھی۔
جو بحسن و خوبی استاد گرامی مولانا عبدالعلیم خطیب ندوی دام اقبالہ کے ذریعے انجام پائی۔
جلسہ گاہ کا منظر بھی عجیب تھا، علاقے کے عوام کا جم غفیر بھی اس میں بڑھ چڑھ کر شریک تھا،پہاڑی میدان میں اس کا اہتمام تھا،ان سنگلاخ چٹانوں میں بھی سہولت کا مکمل انتظام تھا،وضو اور نماز کے لیے بھی خصوصی اہتمام تھا۔
جلسے کے بعد مدرسہ اور اس کے نظام کو دیکھا، مقامی طلبہ کی تعداد سو فیصد ہے، طویل عرصے تک مدرسہ بند تھا لیکن ہمارے نوجوان دوستوں نے فراغت کے بعد اپنے گھر اور وطن کی تن آسانیوں اور چمن کی ٹھنڈی چھاؤں کو چھوڑ کر اس زندگی کو ترجیح دی،تعجب ہوا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی ایسے کئی خوشحال گھرانوں کے نوجوان ہیں جو پھٹی پرانی چٹائیوں پر آرام کرتے ہیں اور ملت کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لیے زندگی کا سب سے قیمتی دور کھپاتے ہیں اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ہیں۔برادرعیسی،برادر ارشار،عبدالمقیت دامودی اور حماد رکن الدین اپنے درجے کے ممتاز طلبہ میں نہ تھے،لیکن انھوں نے کم عرصے میں جس انداز سے کام کیا ہے اس سے دلوں میں بے انتہا مسرت ہوئی۔ واقعی

وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا 
یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے

ہمارے محبوب استاد مولانا الیاس صاحب دامت برکاتہم ہمیشہ ایک جملہ کہا کرتے ہیں کہ عموما وہ طلبہ میدان عمل کے شہسوار بنتے ہیں جن کی صلاحیتیں دوران تعلیم قابل ذکر نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان میں اکثر بمشکل کامیاب ہوتے ہیں۔لیکن اللہ ان کے جذبہء صادق کو دیکھ کر وہ کام لیتا ہے جس سے دنیا حیران ہو جاتی ہے۔

اس کے لیے جرآت ِ اندروں اور شوق و جنوں چاہیے اور کچھ کر گزرنے کا ولولہ اور حوصلہ بھی

کچھ کام نہیں بنتا بے جرآت رندانہ

قابلِ مبارک باد ہیں برادر عیسی  ان کے رفقاء اور ذمہ داران مدرسہ جن کی شبانہ روز محنتوں سے سرزمین کمٹہ میں علم و فضل کی باد بہاری چل رہی ہے اور برابر ان کا فیض عام ہورہا ہے۔

گزشتہ پانچ دس سال میں ہمارے یہاں طلبہ کی جو تعداد فارغ ہوئی وہ غیر یقینی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے فارغین قرب و جوار اور ملک کے عرض و طول میں پھیلنے کے بجائے اپنے ہی علاقوں میں محدود رہتے ہیں،بلکہ اسی کو سارا جہاں تصور کرتے ہیں۔

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

ضروت پہلے سے کہیں بڑھ کر ذہن سازی کی ہے،فراغت سے کہیں پہلے طلبہ کو آفاقی سوچ کا حامل بنانے کی ہے۔ورنہ عجب نہیں کہ ہمارے فارغین صرف اور  صرف اپنی ہی چہار دیواری میں محدود رہیں گے۔

«
»

رحمت،مغفرت اورآگ سے نجات کا مہینہ رمضان

قرآن میں ذوالقرنین کی داستان……کیا کہتی ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے