عزت و احترام،عدل و انصاف،حسن سلوک ہر انسان کابنیادی حق ہے

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور

اللہ نے تمام انسانوں کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ ہر شخص کاالگ روپ، قدوقامت، مزاج طبیعت مختلف  ہے مگرجملہ مخلوقات میں انسان متنوع مخلوق ہونے کے باوجود سب سے افضل اور اشرف ہے۔ اللہ نے انسان کو بڑی صلاحیتوں سے نوازاہے، اسے حواس خمسہ عطا کیے۔ دل ودماغ دیا۔ فکر ونظر کی قوت عطا کی۔اچھے برے کی تمیز سکھائی۔ زندگی گزارنے کا سلیقہ بخشا اور تمام ضروریات زندگی کے فراہم کی ہیں۔ انسان بہتر اجتماعی زندگی گزار سکے اس لیے ہر انسان کے اندر شفقت ومحبت کے جذبات رکھے۔ دکھ درد بانٹنے کا داعیہ پیدا کیا۔اگر انسان اپنے اندر موجود نیک جذبات کو پروان چڑھائے اورایک دوسرے کے ساتھ تعاون واشتراک اور محبت وشفقت کے داعیہ کو نکھارے تو گردوپیش کے انسانوں سے مل کر ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے تمام انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر ابھارا ہے۔
اسلام یہ کہتا ہے کہ تمام انسان حضرت آدمؑ وحواؑ کی اولاد ہیں۔ اس لیے سب بھائی بھائی ہیں۔ اور تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بھائی جیسا سلوک کرناچاہیے۔ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا(بخاری)”اے اللہ کے بندو سب بھائی بھائی بن کر رہو۔“
عام انسانوں کے حقوق سے متعلق یہ ہدایت کی گئی کہ جو کچھ تم اپنے لیے پسند کرتے ہو،وہی عام انسانوں کے لیے پسند کرو۔ہر انسان اپنے لیے عزت،محبت،امن اورعدل کو پسند کرتا ہے۔اسے دوسروں کے لیے بھی یہی پسند کرنا چاہئے۔آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:لَایُؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِلنَّاِس مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ۔(مسند احمد)”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“ایک دوسری حدیث میں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے کہ”اپنے بھائی کے لیے وہی پسندکرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔“ بھائی کے لفظ سے مسلمان بھی مراد ہوسکتا ہے اور ایک عام انسان بھی۔ حدیث میں بہرحال کوئی قید نہیں ہے۔ایک بار نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کی پانچ صفات بتائیں ان میں سے ایک یہ تھی:اَحِبْ لِلنَّاسِ مَاتُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُسْلِماً۔”تم لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو،تو مسلمان ہوجاؤگے۔“
عزت و تکریم ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔یہ حق کسی بھی حال میں سلب نہیں کیا جاسکتا۔چھوت چھات اور اونچ نیچ کی تعلیم اسلام میں قطعا نہیں ہے،وہ تو محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کرتا ہے،اس کے یہاں سب اللہ کے شاہ کارہیں،نہ کوئی خدا کے سر سے پیدا ہوا اور نہ پیروں سے،اللہ کی بندگی بجالانا،اس کے آگے سر نیاز خم کرنا،ہی سب کا دھرم ہے۔ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے،تعلیم دینے،مذہبی امور کو انجام دینے کا حق حاصل ہے۔پیدائش کی بنیاد پر نہ کوئی اشرف ہے نہ ارذل،البتہ اللہ کی بندگی بجا لانے میں جو جتنا پیش پیش ہے وہی خدا کے نزدیک تر ہے۔
عام انسانوں کا یہ حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ رحم کا معاملہ کیا جائے۔ سب کے ساتھ رحمت وشفقت سے پیش آنا چاہیے۔ اگر انسان لوگوں پر رحم کرے گا تو اللہ اس پر رحم کرے گا۔ پیارے نبیؐ نے حکم دیا:اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ۔(سنن ترمذی)”تم زمین والوں پر رحم کرو۔ تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔“ یہی بات آپ نے دوسرے الفاظ میں یوں بیان کی:مَنْ لَایَرْحَمُ النَّاسَ لَا یَرْحَمُہُ اللّٰہُ۔(متفق علیہ)”جو رحم نہیں کرتا خدا اس پر رحم نہیں کرتا۔“
عام انسانوں کا یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔آپؐ نے ایک بار دلنشیں انداز اور اچھوتے اسلوب میں لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اکسایا۔آپ ؐنے ارشاد فرمایا:”ہرتر جگر کے ساتھ سلوک کرنے میں ثواب ہے۔“(شرح امام نویؒ)
اللہ کے رسولؐ نے ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور منفی رویوں سے بچنے کی ایسی تاکید کی ہے کہ اگر لوگ ان ہدایات کو عملی جامہ پہنالیں تو ہمارا معاشرہ بہت پاکیزہ اور جنت نشاں بن جائے گا۔ آپؐ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا:لَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا(بخاری)”ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو،نہ آپس میں حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے منھ پھیرو۔ اے خدا کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہوجاؤ۔“آج انسانی معاشرہ ان اخلاقی خرابیوں کا بری طرح شکار ہے۔ بغض وکینہ،حسد وجلن اور ایک دوسرے کے پیچھے پڑنا ایسے عیوب ہیں جنھوں نے معاشرہ کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔اسلام تمام انسانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان تباہ کن عیوب سے دور رہیں اور ایک دوسرے کو دور رکھیں۔یہ باطنی عیوب ہیں جن کا دوسرے انسانوں کو اندازہ نہیں ہوسکتا مگر اسلام ظاہری اچھائیوں اور خوبیوں کو اپنانے کی بھی تاکید کرتاہے۔قران کہتا ہے۔وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا۔  (البقرہ)   ”لوگوں سے اچھی بات کہو۔“یہاں ”ناس“ کا لفظ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے استعمال ہواہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام نے تمام انسانوں کے ساتھ بھلائی اور خیرخواہی کرنے کا حکم دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ لوگوں سے اچھی بات ہی کہی جائے۔ نہ صرف رویہ اچھا ہو بلکہ زبان وبیان بھی بہت عمدہ اور دلنشیں ہو۔ ہماری زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ہماری زبان اگر کھلے تو اس سے صرف پھولوں کی بارش ہو۔ایک مسلمان کو احمد فراز کے اس شعر کی تصویر ہونا چاہیے:
سناہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں 
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں 
اسلام کی انسانیت پر مبنی تعلیمات میں سے ایک یہ کہ وہ دشمنوں سے بھی حسن سلوک اور عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔قرآن میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی سے تمہاری دشمنی ہے تو اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرو۔ ارشاد ربانی ہے۔لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اِعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی(المائدہ:۸)”کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرسکو، تم انصاف کرو، یہ روش تقویٰ کے قریب ہے۔“اسلام کے علاوہ موجودہ تحریف شدہ مذاہب میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاکہ کسی دشمن کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
نبی ﷺ کا عمل تو اس سے بھی ایک قدم آگے تھا،آپ ؐ اپنے جانی دشمنوں کے حق میں دعائیں کرتے تھے۔دشمنوں کے لیے دعائیں کرنا کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔بڑے دل گردے کا کام ہے۔آج پوری دنیامیں رنگ ونسل،زبان وعلاقائیت،مذہب وملک کی بنیاد پر جوکشمکش جاری ہے جس نے بنی نوع انسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیاہے۔ انسان ان مشکلات سے اس وقت تک نجات نہ پاسکے گا جب تک وہ اسلام کے عالمگیر نظریہ اخوت کو نہیں اپنائے گا اور انسانوں کی خود ساختہ حدود کو توڑ کر انسان کی خیر خواہی کی بنیاد پر اپنے سماج کی تعمیر وتشکیل نہیں کرے گا۔موجودہ بگاڑ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنا حق تو طلب کرنا چاہتا ہے مگر دوسرے کا حق ادا نہیں کرنا چاہتا۔اگر آدمی اپنی زندگی کا یہ اصول قراردے لے کہ وہ ہر انسان کا حق ادا کرے گا خواہ کوئی اس کا حق ادا کرے یانہ کرے توحقوق کی یہ کشمکش اور جنگ ختم ہوسکتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانیں اور اس کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔
عام انسانوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ بھوکے ہیں تو کھانا کھلایا جائے،اگر وہ تشنہ لب ہیں تو سیراب کیاجائے،اگر انھیں بدن ڈھانکنے کے لیے کپڑے دیے جائیں موہ بیمار ہوجائیں تو ان کو علاج معالجے کہ سہولیات فراہم کی جائیں،یہاں تک کہ اگر وہ انتقال کرجائیں تو ان کی تدفین کی جائے۔وہ مشہور حدیث قدسی جس میں اللہ تعالیٰ بروز حشر سوال کرے گا کہ میں بھوکا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا اور بندہ کہے گا پروردگار آپ کس طرح بھوکے ہوسکتے ہیں،ساری دنیا کے رازق تو آپ ہی ہیں،تو اللہ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا۔یہاں بندے سے مراد صرف مسلمان نہیں ہے بلکہ عام انسان مراد ہے۔
عام انسانوں سے متعلق اسلام کی یہ ہدایات جو قرآن وحدیث میں ہمیں ملتی ہیں صرف نظری وفکری نہیں ہیں بلکہ نبی کریمؐاور صحابہ کرامؓ نے ان کو عملی جامہ پہناکر تمام انسانوں کی نصرت وخیر خواہی کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔ایک بار ایک یہودی خاندان کی ضرورت پر نبی کریم ﷺنے اس کو صدقہ دیا۔ام المؤمنین حضرت صفیہؓ نے دویہودیوں کو30 ہزار مالیت کا صدقہ دیا،ابومیسرہ عمرو بن میمون اور عمروبن شرحیل صدقہئ فطر سے عیسائی راہبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دورِ نبوی میں اپنے مشرک بھائی کو تحفہ بھیجا۔(بخاری)جن اہلِ مکہ نے آپؐکو اور آپؐ کے ساتھیوں کی ایذارسانی میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی تھی اور جنہوں نے آپ کو وطن چھوڑنے پر بھی مجبور کیاتھا جب آپؐ کو ان کی مصیبت اور قحط سالی کی اطلاع ملی توآپ نے ان کے لیے بڑی مقدار میں امدادی سامان روانہ فرمایا۔تفسیر کی بعض روایتوں میں ہے کہ جب مسلمان دینی اختلاف کی بنیاد پر مشرکوں کی مدد سے گریز کرنے لگے تو یہ آیت نازل ہوئی۔لَیْْسَ عَلَیْْکَ ہُدَاہُمْ وَلَ کِنَّ اللّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَلأنفُسِکُمْ۔(البقرۃ:272)”ان کی ہدایت آپ کے اختیار میں نہیں لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے ہے۔“یعنی ہدایت کے بارے میں بتایا گیاہے کہ وہ خدا کے اختیار میں ہے البتہ ان پر جو بھی خرچ کروگے اس کا ثواب بہر حال تمہیں ملے گا۔
مذکورہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام عام انسانوں کے ساتھ بھلائی، خیر خواہی،حسنِ سلوک کی تلقین کرتا ہے۔اسلام آپ سے مطالبہ کرتا ہے کہ دنیا کے تما م انسانوں کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ کیجئے۔ ہر انسان کے دکھ درد میں ہاتھ بٹائیے۔ اس کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ کر دور کرنے کی کوشش کیجیے۔ ہر کسی کو رنج وغم میں دیکھ کر خود پریشان ہوجائیے اور اس کی پریشانی دور کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیے۔ہر انسان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھئے۔ ہر ایک کی خوشی میں شرکت کیجیے۔ اپنی خوشی میں دوسروں کو شریک کیجئے۔ ہر انسان کو خوش رکھنے کی کوشش کیجیے۔ دوسروں کی کامیابی پر کڑھنے کے بجائے خوشی سے پھولے نہ سمائیے۔آئیے ہم آج عہد کریں کہ سماج میں جن لوگوں سے بھی ہماراواسطہ پڑتاہے۔ان کے ساتھ حسنِ سلوک،محبت والفت،ہمدردی وغم گساری سے پیش آئیں گے۔ ان میں سے کسی کو بھی اپنی زبان،اپنے قلم، اپنے رویہ اور عمل سے کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

عید الاضحےٰ اورقربانی کے احکام قرآن و سنت کی روشنی میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات __

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے