ترتیب: عبدالعزیز
عیادت کا مفہوم بہ لحاظ مرض: عیادت کیلئے کسی سخت مرض کی خصوصیت بھی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب کوئی شخص صاحب فراش ہوجائے، تب اس کی عیادت کی جائے۔ محض معمولی مرض میں بھی عیادت کرنی چاہئے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ”میری آنکھ کی ایک تکلیف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی“۔ (ابوداؤد، باب فی العیادہ من الرمد، کتاب الجنائز)
عیادت کی فضیلت: جیسا کہ اوپر گزرا، عیادت کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ رب العالمین اس سے خوش ہوتا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک اتنا اچھا اور قابل قدر عمل ہے کہ اس کیلئے وضو کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہاکہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا اور اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی حصولِ ثواب کی نیت سے تو وہ جہنم سے ستر سال کی مسافت کے برابر دور کر دیا جائے گا۔ میں نے کہا اے ابو حمزہ خریف کے کیا معنی؟ انھوں نے کہا: اس کے معنی ”سال“ کے ہیں“۔
”ستر سال کی مسافت“ کا ذکر یہ بتانے کیلئے ہے کہ وہ دوزخ سے بہت دور کر دیا جائے گا“۔ (ابو داؤد، باب فضل العیادۃ علی وضو)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جو شخص کسی مریض کی عیادت شام کو کرتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہوئے نکلتے ہیں، یہاں تک کہ صبح ہوجائے اور اس کو جنت میں ایک نیا باغ ملے گا اور جو شخص کسی مریض کے پاس صبح کو آتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہوئے نکلتے ہیں، یہاں تک کہ شام ہوجائے اور اس کو جنت میں ایک نیا باغ ملے گا۔ (ابو داؤد، باب فضل العیادۃ علی وضو)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی مریض کی عیادت کرتا ہے اس کو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے تم اچھے اور تمہاری چال اچھی اور تم نے جنت میں اپنے لئے ایک خاص محل بنالیا۔ (ترمذی، ابن حبان، ابن ماجہ)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ جنت کے پھل چنتا رہتا ہے، یہاں تک کہ واپس آجائے۔ دریافت کیا گیا ’خرفۃ الجنۃ‘ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’جنت کے پھل‘۔ (مسلم کتاب البر، بات فضل عیادۃ المریض)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کی موت کا وقت نہیں آیا ہے پھر اس نے سات بار یہ دعا کی: ”میں اللہ سے جو عرشِ عظیم کا رب ہے، دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں شفا دے“۔ تو اللہ اس کو اس کے مرض سے شفا دے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الجنائز، معجم 8، باب الدعاء للمریض عندالعیادۃ)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ کوئی شخص عیادت کو جائے تو مریض کیلئے دعا کرے۔ دعا کی جو شرطیں اور آداب ہیں ان کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کیلئے آئے تو اس کو کہنا چاہئے، اے اللہ اپنے بندے کو شفا دے۔ یہ تیرے کسی دشمن کو قتل کرے گا یا تیری خوشنودی کیلئے کسی جنازے میں شریک ہوگا۔ (ابو داؤد، کتاب الجنائز، معجم 8، باب الدعاء للمریض عندالعیادۃ)
اس حدیث میں مریض کے آئندہ ہونے والے کسی عمل صالح کا حوالہ دے کر دعا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس طرح کی احادیث متعدد ہیں۔ ان سب کو جمع کرنا مقصود نہیں۔
مریض سے دل خوش کن باتیں: مریض کے سامنے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جن سے اس کا دل خوش ہو۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو موت کے بارے میں اس کی فکر کو دور کردو، اس لئے کہ یہ بات اس کے دل کو خوش کرے گی“۔ (ترمذدی ابو اب الطب معجم 35، باب تطیب نفس المریض)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مریض سے کہا جائے کہ آپ فکر نہ کریں، انشاء اللہ آپ اچھے ہوجائیں گے۔ آپ زندہ رہیں گے۔ تعلیم یہ دی گئی ہے کہ مریض کے سامنے اس کے دل کو خوش کرنے والی باتیں کی جائیں۔ ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں یا اس کے فکر و اندیشہ میں اضافہ کرنے والی ہوں۔ مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ عیادت کرنے والے شاید بے شعوری کی حالت میں اس تعلیم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں کسی کی عیادت کیلئے جاؤں اور اس سے کہوں کہ میرے فلاں عزیز اسی مرض میں مرے تھے؟ آپ غو کریں کہ اس بات سے مریض کا دل خوش ہوگا یا اس کے فکر و اندیشہ میں اضافہ؟
مریض کو خوش کرنے کی ایک عملی تدبیر یہ بھی بتائی گئی ہے:
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”عیادت مریض کی تکمیل یہ ہے کہ تم میں کا کوئی شخص اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر یا یہ فرمایا کہ اس کے ہاتھ پر رکھے اور پوچھے کہ مزاج کیسا ہے؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل تمہارے درمیان مصافحہ ہے“۔ (جامع ترمذی، ابواب الاستئذان، باب ماجاء فی الصافحۃ معجم 31)
اس عمل سے مریض سمجھتا ہے کہ عیادت کرنے والا شخص اس کا ہمدرد اور بہی خواہ ہے اور واقعی یہ چاہتا ہے کہ مریض کو صحت حاصل ہوجائے۔ اس خیال سے اس کا دل خوش ہوتا ہے۔
مریض سے دعا کی درخواست: پریشان حال لوگوں کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ حالت مرض میں مومن صابر کی طرف اللہ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے، اس لئے اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مریض سے دعا طلبی کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مریضوں کی عیادت کرو اور ان سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دعا کریں کیونکہ بیمار کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب، بحوالہ طبرانی)
جس شخص کے گناہ بخش دیئے گئے ہوں، اس کی دعاؤں کی مقبولیت کی توقع بڑھ جاتی ہے۔
مریض کے پاس بلا ضرورت دیر تک بیٹھنا صحیح نہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیادت ’فواقِ ناقہ‘ کے برابر ہونی چاہئے اور سعید ابن المسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ عیادت کا افضل طریقہ یہ ہے کہ عیادت کرنے والا جلد اٹھ کھڑا ہو۔ (مشکوٰۃ الصابیح، کتاب الجنائز بحوالہ بیہقی)
دوبار اونٹنی کا دودھ دوہنے کے درمیان کی مدت کو ’فواقِ ناقہ‘ کہتے ہیں۔ اس حدیث میں جو تعلیم دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عیادت کے موقع پر بلا ضرورت دیر تک مریض کے پاس بیٹھنا صحیح نہیں ہے۔ بعض اوقات اس سے خود مریض کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض اوقات اہل خانہ کو زحمت ہوتی ہے۔ البتہ اگر مریض خود خواہش مند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )
12جون(فکروخبر)
جواب دیں