اتنے کم ظرف ہو کیوں تم جو بہکتے جاو

ڈاکٹر سلیم خان

جمہوریت کی مثال بے رنگ پانی کی سی ہے کہ اس کو جس شراب میں ڈالو  گھل مل جاتی ہے۔ امریکہ کے اندر اسے سرمایہ داروں نے  نیلی شراب میں ملالیا تو جاپان میں یہ پیلی شراب میں مل گئی۔ چین کے اندر اس کو سرخ شراب کے اندر ملایا گیا اور مصر میں یہ سبز جام  میں گھل گئی ۔ اسرائیل میں اس کا رنگ گلابی ہے اور ہندوستان کے اندر فی الحال زعفرانی ہوگیا ہے۔ بھارتی تہذیب کےعظیم  دانشور  منو مہاراج جب جمہوری چولا اوڑھ لیتے ہیں تو کیا کچھ ہوتا ہے اس کا نظارہ انتخابی مہم کے دوران  ملک کی عوام کررہے ہیں ۔بی جے پی چونکہ اقتدار کے نشے میں دھت ہے اس لیے مختلف مواقع پر اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے  ۔ گجرات  میں  آب رسانی کے وزیر  کنورجی باولیا   اس کی نادر  مثال ہیں  ۔ کانگریس سے رکن اسمبلی کے طور پر منتخب ہونے کے بعد  بی جے پی میں داخل ہو نے پر وزارت سے نوازے  جانے والے باولیا نے ایک دلچسپ  بیان دے کر ثابت کرد یا کہ اقتدار کا نشہ کس طرح سر چڑھ کر بولتا ہے۔

موصوف جب  کنیسارا گاؤں میں بی جے پی امیدوار کی تشہیر کرنے کے لئے  پہنچے گاؤں کی  خواتین نے  شکایت کی  کہ  صرف آدھے گاؤں کو ہی پینے کا پانی مل پاتا ہے۔ اس پر وزیر نے جواز پیش کیا ایسا اس لیے ہورہا ہے  کہ پچھلی بار صرف ۵۵فیصد گاؤں والوں نے انہیں  ووٹ دیا تھا۔یعنی جس نے ووٹ نہیں دیا اس کا پانی تک روک دیا جائے گا۔ وزیر موصوف نے  ڈھٹائی سے کہا  ’’ میں حکومت میں ہوں۔ میرے پاس آبی وسائل کی  وزارت ہے اگر ضرورت پڑی تو میں گاؤں میں پانی کی سپلائی کے لئے کروڑوں روپے منظور کر سکتا ہوں۔ آپ سب لوگوں نے مجھے ووٹ کیوں نہیں دیا‘‘۔ ملک میں جمہوریت کے علمبرداروں نے  فی الحال سفاک بادشاہوں کو شرمندہ کردیا ہے   کیونکہ وہ بھی ایسی ظالمانہ حرکت نہیں کرتے تھے  ۔ اس رویہ کو ہاردک پٹیل نے بجا طور پر ’’ بدلے کی سیاست ‘‘ قرار دیا ہے۔

کنورجی باولیا   کے احمقانہ بیان کے  تناظر میں   سب سے پہلی بات تو یہ ہے  جب کوئی امیدوار منتخب ہوجا ئے  تو وہ کسی ایک جماعت کی نہیں بلکہ پورے  حلقۂ انتخاب   کے لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ خود کا نگریس کا ہاتھ تھام کر چنے گئے تھے اس کے بعد قلابازی کھاکر کمل تھام لیا اس کے باوجود اسمبلی میں ان کی رکنیت بحال رہی  کیونکہ اپنے حلقۂ انتخاب کے نمائندہ ہیں ۔  ۲۰۱۴؁ میں بی جے پی کو اوسطاً  ۵۶ فیصد  ووٹ کا استعمال کرنے والوں میں  سے ۳۱ فیصد کی حمایت حاصل تھی ۔ یہ   کل رائے دہندگان کا ۱۸ فیصد بنتی ہے   اس کے باوجود  اس اقلیت کے ذریعہ تشکیل شدہ  حکومت  بھارت سرکار کہلاتی ہے ۔   دوسری بات یہ ہے کہ سرکار دربار چلانے کے لیے ٹیکس سارے لوگوں  سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس میں تفریق نہیں ہوتی کہ آپ نے ہمیں ووٹ نہیں دیا تو آپ ٹیکس بھی نہ دیں۔ ان گاوں والوں کو اگر پانی فراہم کیا جاتا تو حکومت اس کی قیمت وصول کرتی اور جوکم ظرف  عوام کی بنیادی ضرورت کے بارے میں سودے بازی کرے اس کو اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے۔

آدرش گجرات  میں فتح پورہ کے رکن اسمبلی  رمیش کٹارا  تو کنورجی باولیا سے دوہاتھ آگے نکل گئے اور دھمکی دے دی ’’ بی جےپی کے لیے ووٹنگ میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے ۔ ’مودی صاحب‘ نے پولنگ بوتھ  پر نگرانی کے لیے کیمرے لگوا رکھے ہیں ۔ بی جے پی کو کس نے ووٹ دیا ، کانگریس کو کس نے ووٹ دیا ، یہ سب دکھائی دیتا ہے ۔ آدھار کارڈ اور سبھی کارڈ میں آپ کا فوٹو ہے ، اگر آپ کے بوتھ سے کم ووٹ پڑتے ہیں  تو ان کو پتہ چل جائے گا کہ کس نے ووٹ نہیں ڈالا اور پھر آپ کو کام نہیں ملے گا‘‘۔ کٹارا نے تو خیر رائے دہندگان کو مودی سے ڈرایا لیکن ریلوے اور آئی ٹی کے  مرکزی وزیر مملکت  منوج سنہا  نے اس کی بھی ضرورت نہیں محسوس کی ۔ غازی  پور میں   ڈینگ مارتے ہوئے سنہا  بولے   جو بھی شخص کسی بی جے پی کارکن کی طرف انگلی اٹھائے گا ، اس کو صرف ‘چارگھنٹے ‘ میں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔کوئی بھی  بی جے پی کے کارکنوں کو ترچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا ایسی  حماقت کرنے والے  کی آنکھیں نہیں رہیں گی ۔

مثل مشہور ہے خربوزے کے ساتھ تربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ یہ متعدی  بخار بی جے پی کے ساتھ ساتھ اس کی  حلیف جماعتوں پر بھی چڑھنے لگا ہے ۔ بہار کے  سوشاسن بابو  نتیش کمار نے ایک انتخابی ریلی میں  خواتین سے اپیل کردی کہ ’’اپنے شوہر سے ووٹ دینے کے لیے کہیں اگر وہ این ڈی اے کو ووٹ دیتے ہیں تو ان کو بھر پیٹ کھانا کھلائیں لیکن اگر وہ این ڈی اے کے لیے ووٹ نہیں کرتے ہیں تو ان کو پورا دن بھوکا رکھیں‘‘۔ قومی سیاست اس درجہ گر جائے گی یہ کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک وزیراعلیٰ علی الاعلان زن و شو میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر جھگڑے لگائے  ۔ ان انتخابات نے سیاستدانوں کی اخلاقی گراوٹ کو کھول کر سب کے سامنے رکھ دیا ۔ یہ لوگ آگے چل کر  جب اقتدار کے نشے میں چور ہوجائیں گے تو کیا گل کھلائیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔  این ڈی اے کے اخلاقی انحطاط پر وزیر اعظم قدغن لگا سکتے ہیں لیکن وہ بھی  ہار کے خوف سے   اس برائی  میں لت پت ہیں۔

  اس قومی  انتخاب کے دوران الیکشن کمیشن کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں بی جے پی رہنماؤں کے خلاف سب سے زیادہ ۲۹ شکایتیں موصول  ہویں۔  اس کے بعد  کانگریس کے ۱۳  رہنماؤں، سماجوادی پارٹی  کے ۲اور ایک ایک ٹی آر ایس و بی ایس پی  کے خلاف ہے۔ ایک زمانہ تھا جب  آنجہانی اٹل جی کو گوونداچاریہ نے مکھوٹا  (نقاب) کہہ دیا اور پھر ڈر کر مکٹ (تاج) کہہ دیا۔ سیاسی مبصرین میں اس پر اختلاف بنارہے گا کہ وہ  مکٹ تھے یا مکھوٹا لیکن اگر انہوں نے اپنے چہرے پر کوئی مکھوٹا چڑھا رکھا تھا تب بھی اسے خوب نبھایا ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان پر سیاسی آزمائش نہیں آئی۔ وزیرخارجہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد پارٹی کا صدرہوتے ہوئے خود  لوک سبھا کا انتخاب ہار گئے۔  ایوان میں سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود ۱۳ دنوں بعد ان کی سرکار گر گئی ۔ اس کے ۱۳ ماہ بعد جئے للیتا نےحمایت واپس لے کر حکومت گرادی اور بالآخر سونیا گاندھی نے حکومت سے بے دخل کرکے منموہن سنگھ کو وزیراعظم بنادیا اس کے باوجود اٹل جی نے اپنا وقار برقرار رکھا ۔ مودی جی پہلی بار وزیراعظم بنے اور جیسے ہی انہیں احساس ہوا کہ اب دوبارہ انتخاب جیتنا مشکل ہے اپنی اوقات پر آگئے ۔ اسے کہتے ہیں ظرف ظرف کا فرق ۔ اٹل جی شاعر تھے وہ اگر  حیات ہوتے تودلہن بیگم کا ایک  شعر ترمیم کرکے  مودی جی کی نذر کرتے ؎

مثل گل جاو، جدھر جاو ،مہکتے جاو      

اتنے کم ظرف ہو کیوں تم جو بہکتے جاو

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

14مئی2019(فکروخبر

«
»

نمازِتراویح :چنداصلاح طلب پہلو

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے