اتنا کچا رنگ کہ 100 دن میں اُتر گیا

اور چین کے صدر محترم گجرات میں آکر مودی جی سے ملنے کا فیصلہ کرچکے ہوں گے اسی گجرات میں ان کی دشمن جانی ضمنی الیکشن میں تین سیٹیں جیت کر وہ کردکھائے گی جو 13 سال سے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن کسی کو کیسا ہی لگے یہ انہونی تو ہوگئی اور اس کے باوجود ہوگئی کہ اُتراکھنڈ اور بہار کے ضمنی الیکشن کے نتائج نے بی جے پی کو اشارہ دے دیا تھا کہ لہر، ہوا، آندھی اور سنامی جس تیزی سے آتی ہیں اسی رفتار سے چلی بھی جاتی ہیں لیکن فتح کے نشہ میں چور کسی بھگوا نیتا نے اشارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور نتیجہ سامنے ہے کہ امت شاہ کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن بی جے پی نہیں جیتی تھی بلکہ کانگریس اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ہاری تھی یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام کانگریس سے اتنا اوب گئے تھے کہ اس پر آمادہ تھے کہ چاہے جو آجائے کانگریس سے پیچھا چھوٹ جائے اس فضا کو مودی جی نے اپنے حق میں کرنے کے لئے ہر اس بات کا وعدہ کرلیا جو عوام چاہتے تھے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ان کی حکومت بنتے ہی مہنگائی جو ہر انسان کا مسئلہ تھا، کم ہوجائے گی انہوں نے یقین دلایا کہ بھرشٹاچار سے نجات مل جائے گی انہوں نے اچھے دن آنے کی خوشخبری سنائی اور یقین دلایا کہ بجلی پانی اور سڑک کی کسی کو شکایت نہیں رہے گی اور سب سے زیادہ انہوں نے جس چیز کا ڈھول بجایا وہ وکاس اور گجرات ماڈل تھا۔ وہی گجرات جہاں تین سیٹوں پر اس نیم جان کانگریس نے قبضہ کرلیا جسے پورے ملک میں دھتکار دیا گیا تھا۔
ضمنی الیکشن کے نتائج نے صرف مودی جی کا قد ہی نہیں گھٹایا اس نے امت شاہ کو بھی بونا بنا دیا۔ کل تک امت شاہ مہاراشٹر میں شیوسینا کو حقارت سے دیکھ رہے تھے اور اودھو ٹھاکرے کو اگر دونوں مل کر حکومت بنانے کے قابل ہوتے ہیں تو وزیر اعلیٰ کی کرسی دینے کے لئے تیار نہیں تھے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد اس حال میں نہیں رہے کہ اودھو ٹھاکرے کو اکیلے الیکشن لڑنے کی دھمکی دے سکیں اور شرد پوار نیز پرتھوی راج چوہان بھی اب یہ سوچ سکتے ہیں کہ اگر وہ دل و جان اور ایمانداری سے الیکشن لڑیں تو بظاہر ملنے والی ہار کو جیت میں بدل سکتے ہیں۔
اترپردیش کے نتیجے نے سنیاسی یوگی آدتیہ ناتھ کی جھولی میں سے لوجہاد نکال کر ساکشی کی پگڑی میں لگا دیا ہے پوری انتخابی جنگ انہوں نے لوجہاد سے لڑی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب کسی مہم کی قیادت بی جے پی ان کے سپرد کرنے سے پہلے سو بار سوچے گی اور ہوسکتا ہے جن لوگوں نے انہیں اُٹھایا تھا پارٹی ان سے بھی کہہ دے کہ اب گھر بیٹھ کر رام رام کی مالا جپو زیادہ کود پھاند نہ کرو۔
اُناؤ کا ممبر پارلیمنٹ ساکشی نام کا ایک سنیاسی اپنے ایک جملہ کی وجہ سے موضوع بنا ہوا ہے۔ ہمارے دینی مدارس کے متعلق تنگ نظر اور کم علم اور ان کی عظمت اور کارکردگی سے جلنے والے ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ وہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور جب جب کوئی ایسی بات سامنے آتی ہے تو ہمارے علماء اور مدارس کے ذمہ دار بے وجہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ جو کچھ کہا ہے کس نے کہا ہے؟ اور جس نے کہا ہے کیا وہ ہمارے کسی مدرسہ کے چپراسی کے برابر بھی علم رکھتا ہے؟ رہا پارلیمنٹ کا ممبر بن جانا تو ہر سیاسی ذہن رکھنے والے کو یاد ہوگا کہ ایک سیشن ایسا بھی تھا جس میں پھولن دیوی ایم پی تھیں اور ایک ایم پی ایک خاتون تھی جسے چوہے والی کہا جاتا تھا اور صرف کہا ہی نہیں جاتا تھا بلکہ وہ کوئی ذات تھی اب اگر اس سطح کے ممبر پارلیمنٹ ہمارے نزدیک پارلیمنٹ سے زیادہ محترم ہمارے مدارس کے متعلق کچھ کہیں تو کیا ہمیں یہ بتانا چاہئے کہ ملک کی آزادی میں ان مدارس کا کتنا بڑا حصہ ہے؟ جبکہ یہ آزادی ان ہی مدارس کی دھول کے صدقہ میں حاصل ہوئی ہے۔ رہے ساکشی یا یوگی تو ایسے لوگ تو جانتے بھی نہیں تھے کہ آزادی کیا ہے اور لوگ قربانی کیوں دے رہے ہیں؟ ان کی زندگی تو جاہل اور کمزور عقیدہ کے لوگوں کو بے وقوف بنانا اور ان کی جیبیں خالی کرانا تھی۔ ہمارے علماء ان کو منھ لگاکر ان کی اہمیت نہ بڑھائیں اور یہ یاد رکھیں کہ ان کی پارٹی نے بھی یہ کہہ کر جان چھڑالی ہے کہ یہ ان کی اپنی رائے ہے پارٹی کو ان سے کچھ لینا دینا نہیں۔

«
»

’’17ستمبر‘‘۔۔۔یومِ نجات نہیں یومِ ماتم !

مسئلہ فلسطین کا حل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے