کوئی چھ سال قبل اس ٹن شید کی جگہ جب پختہ مسجد کی بنیاد رکھی گئی تو چند لوگوں نے محض مذہبی تعصب کی بنا پر اس پراعتراض کیا۔ دوافراد ستیش کمار اوریوگندر عدالت چلے گئے۔ ان کا دعوا تھا کہ آراضی گاؤں پنچایت کی ہے۔ مسلمانوں کو صرف قبرستان کے لئے دی گئی تھی۔ اس پر مسجد نہ بنائی جائے۔
31؍مارچ کو ایڈیشنل سول جج ونے شرما کی عدالت نے پانچ ،چھ سال کی سماعت کے بعد آراضی کے سرکاری ریکارڈوں،پیش کردہ ثبوتوں اورشخصی شہادتوں کی بنیاد پر فیصلہ دیا کہ آراضی وقف بورڈ کی ہے۔ اس پر مسجد پہلے سے موجود ہے ۔ اس کی توسیع جائز ہے۔ اس کے بعد گاؤں سرپنچ کی ایماء پرمعاملہ ایس ڈی ایم کے یہاں گیا۔ چنڈی گڑھ سے محکمہ مال کے افسران آئے۔ریکارڈوں کا معائنہ کیا اورمدعیان کے اعتراض کے خلاف رپورٹ دی۔ چنانچہ ایس ڈی ایم نے مسجد کی تعمیر کی اجازت دیدی۔ رخنہ اندازی کا اندیشہ تھا ۔ چنانچہ تعمیر کا کام پولیس کی نگرانی میں شروع ہوگیا۔ لیکن کچھ فتنہ پردازوں نے، جو بھاجپا کے گن گاتے ہیں اورپارٹی کے کارکن کہلاتے ہیں، پورے علاقے میں مسجد مخالف مہم چھیڑ دی۔ چنانچہ 25مئی کی شام کوکوئی ساڑھ پانچ بجے، جب دن کا کام ختم ہوگیا اورپولیس والے وہاں سے چلے گئے، ایک گروہ نے مسجد پر ہلہ بول دیا۔ اس وقت لوگ عصر کی نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ لیکن حیرت ہے کہ کسی نے ان کی مزاحمت نہیں کی۔مسجد کے بعد شرپسندوں نے مسجد سے متصل مسلمانوں کی املاک کو، جن میں ایک دوکان اورسترہ مکان شامل تھے، لوٹا اورآگ لگادی۔اس کاروائی میں بمشکل آدھا گھنٹہ لگا۔مسلمان گھروں کو کھلا چھوڑ کر نکل بھاگے اور بلبھ گڑھ تھانے میں جاکر پناہ لی۔اس دن سے کوئی دو سو، ڈھائی سوافراد وہیں پڑے ہیں۔ تشدد کے واقعات میں تین افراد شدید طورپر اورکچھ معمولی زخمی ہوئے ۔ کئی موٹر سائکلوں، کاروں اورایک گودام کو بھی آگ لگادی گئی۔
ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس سازش میں وہاں تعینات تھانیدار بھی ملوّث تھا۔حملہ آوروں میں شامل بعض عورتوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان کو دو گھنٹہ دئے گئے تھے۔ پولیس جلدی کیوں آگئی؟بہرحال تھانیدار کو لائن حاضرکردیا گیا ہے۔گاؤں میں سی آر پی ایف لگادی گئی ہے اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعہ سے نریندر مودی کو سبکی محسوس ہوئی ہے۔ وہ ایک ہی دن پہلے ایک بار پھر کہہ چکے تھے کہ ’لسی فرقے کے خلاف تعصب یا تشدد برداشت نہیں کیا جائیگا۔‘ یہی بات انہوں نے اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد یکم جون کو بھی دوہرائی ہے۔یہی بات کل(5جون) انہوں نے اماموں کی تنظیم کے بانی صدر مولانا جمیل الیاسی مرحوم کے صاحبزادے عمیرالیاسی کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک تیس رکنی وفد سے کہی جس میں قاری محمدمیاں مظہری ،مولاظفرجنک پوری اور فیروزبخت احمد وغیرہ شامل تھے۔(مکمل خبرانڈیا ٹومارو پورٹیل پر)۔
چنانچہ ایک خبریہ ہے کہ مرکز متاثرہ افراد کی بازآبادکاری کے لئے ساڑھے تین کروڑ روپیہ دینے پرآمادہ ہے۔ غالباً مرکزی حکومت کے اشارے پر ہی سرکاری اورسیاسی سطح پرمسئلہ کو حل کرنے اور ہندو۔ مسلم مفاہمت کی کوششیں کی جاری ہیں۔یہ روش اس کے برعکس ہے جو یوپی کی سماجوادی سرکار نے مظفرنگر واقعات کے بعداختیار کی تھی۔ بہرحال مفاہمت کے پہلو کا ذکر بعد میں آئیگا۔
مذہب کی بنیاد پر عناد ودشمنی اورتعصب کا یہ اکلوتا واقعہ نہیں ہے ۔ ماضی میں اور حال میں اس کی بہت مثالیں مل جائیں گی۔بھاؤنگر(گجرات) میں وی ایچ پی اورآرایس ایس کارکنوں نے ایک ہندو پوش علاقے میں بوہرہ مسلم تاجر کو اس کی کوٹھی میں رہنے نہیں دیا۔ ممبئی میں ایک خاتون نے شکایت کی کہ اس کواس لئے ایک سوسائٹی سے نکال دیا گیا کہ وہ مسلمان ہے۔ایک ہیرا صنعت کار نے ایک مسلمان کو لکھ کر دیدیا کہ اس کو ملازمت اس لئے نہیں دی جاسکتی کہ وہ مسلمان ہے۔وی ایچ پی نے ہری دوار میں مارگ درشک منڈل کی حالیہ بیٹھک میں اعلان کیا کہ اجودھیا کے ارگرداضلاع میں کوئی مسجد یہ مسلم مذہبی علامت قائم نہیں ہونے دیں گے۔وغیرہ۔ ہرچند کہ انفرادی سطح پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں میل جول اوررواداری عنقا نہیں ، لیکن اجتماعی معاملات میں ہندو ہوں یا مسلمان ، سب میں فرقہ ورانہ اور مسلکی بنیادوں پر تعصب کی فضا گہراتی جارہی ہے۔ آزادی سے پہلے قومی سیاست میں ہندو۔مسلم محاذ آرائی کا جو عنصرشامل ہوگیا تھا، بدقسمتی سے بعد کی حکومتوں کے رویہ سے اس کی شدت بڑھی ہے۔خاص طور سے جہاں بھی کسی مسجد کی توسیع یا تعمیر ہوتی ہے، فرقہ ورانہ منافرت پھیلائی جاتی ہے۔ بقول سہیل انجم ’آرایس ایس اور اس کی بغل بچہ تنظیموں‘ نے ملک کی فضا کومکدرکرنے کی مہم چلارکھی ہے۔ جناب غلام محمد (ممبئی) نے ’اکونک ٹائمز‘ میں ’کے کی دارووالا‘ کے مضمون "Why BJP needs to change the mindset of its members against minorities” پراپنے تبصرے میں کہا ہے’’ آر ایس ایس نوے سال سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس رہی کہ ہندستان پر صرف ہندوؤں کا حق ہے۔‘ ‘بیشک یہ سارافساد اسی کا ہے۔ لیکن آر ایس ایس اوراس کے سنپولیوں کواپنا فرقہ ورانہ کھیل کھیلنے میں جو کامیابی ملی ہے اس میں ’سیکولر‘سرکاروں کے کردار کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہرچند کہ فرقہ ورانہ کشاکش کا زور انگریزوں کی وراثت ہے لیکن جناب انورعلی ایڈوکیٹ کے بقول آزادی کے بعدجوسرکاریں قائم ہوئیں انہوں نے اعلان شدہ سیکولر پالیسی پر عمل نہیں کیابلکہ وہ’عملًا ہندو سرکاریں ‘ رہیں۔ہندونوازی اوراقلیتوں کو نظرانداز کرنے کا رویہ تو روزاول سے ہی شروع ہوگیا تھا، لیکن لال بہادرشاستری، اندرا گاندھی ،راجیو گاندھی اورسب سے بڑھ کر نرسمہاراؤ کے دورمیں یہ رجحان برہنہ ہوگیا۔بھاجپا کاتو کہنا ہی کیا! اس کا اٹھان توآرایس ایس کے سائے میں، اس کے سیاسی بازو کے طور پر ہوا ہے۔بشمول وزیراعظم ان کی کابینہ کے اکثروزیر اورنو منتخب گورنر، وزرائے اعلا سیوم سیوک ہی ہیں۔ان کے نزدیک ’ہندووادی‘ ہونا ہی ’راشٹرا وادی ‘ ہونا ہے۔ان کی پتنگ ہمیشہ فرقہ پرستی کی لہروں پرہی بلند ہوتی ہے۔بیشک ان کا نظریہ آئین کی روح سے انحراف ہے اوراب اس رو میں کلدیپ نائر جیسے لوگ بھی بہہ گئے ہیں جو ایک زمانے میں کانگریس کے ’نرم ہندتووا‘ کے سخت ناقد تھے۔ یہ حقائق اپنی جگہ مگر گزشتہ چند ماہ کے دوران نریندرمودی کا غیر مبہم الفاظ میں کم از کم پانچ مرتبہ یہ اعلان کہ ’ہماراآئین ہر شہری کو مذہبی آزادی کی گارنٹی دیتا ہے اوراس پر کوئی سوال نہیں کھڑا کیا جاسکتا۔‘ ان کا پارٹی لیڈروں کے قابل اعتراض بیانات کا دفاع نہ کرنا اور یہ کہناکہ :’ اس طرح کی بیان سخت بدبختانہ اور نامناسب ہیں۔‘ اوران کا بارباراصرار کے ساتھ یہ کہنا :’ کسی فرقہ کے خلاف تشدد اور تفریق کو برداشت نہیں کیا جائیگا‘ کیا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ کم سنی سے وہ آرایس ایس کے سانچے میں ڈھلتے چلے آئے ہیں، لیکن ایک سوال ضرورابھرتاہے کہ کیا ’ گجرات فساد کے مجرم مودی‘ کے یہ بیانات کسی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں یا نہیں؟ گزشتہ روز عمیرالیاسی کے ساتھ مسلم شہریوں کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد ان کے دفتر سے جاری پریس رلیز کوبھی شامل کرلیجئے، جس میں انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اگررات کے 12بجے بھی ان کو پکارا جائیگا تو وہ متوجہ ہونگے؟ یہ کیا کوئی فریب ہے یا قومی سیاست کا ایک لازمی تقاضا ہے جو مودی کی زبان سے باربار ظاہر ہورہا ہے؟ ہم مودی کے طرفدارنہیں، بلکہ چاہتے ہیں کہ خوش گمانی یا بدگمانی سے بلند ہوکر حقیقت پسندی کے ساتھ سیاسی تجزیہ کیا جائے۔اس پہلو پر غیرجانب دار ہوکر غورکیا جائے۔ ممکن ہے کوئی خیر کا پہلو اس میں نکل آئے۔
ایک سوال ذہن میں یہ بھی آتا ہے کہ مسلم پرسنل بورڈ کے جے پوراجلاس میں بن بلائے ظفر سریش والا کے آجانے پر جس طرح کے جذباتی ردعمل کا اظہار ہوا،کیا وہ حکیمانہ تھا؟ اس ذیل میں قبل اسلام حضرت عمرؓ کا واقعہ یاد آتا ہے جب وہ شمیر برہنہ لے کر رسول اللہ کی تلاش میں نکلے تھے۔آپ ؐکے دروازے پردستک دی تو فرمایا، دروازہ کھول دو اور آنحضور نے کھڑے ہوکر خندہ پیشانی ان سے پوچھا تھا ’عمر کس ارادے سے آئے ہو؟‘یہ جانتے ہوئے بھی جان کا دشمن ہے، دروازے سے دھتکار کے واپس نہیں کردیا تھا۔مولاناسید رابع حسنی صاحب نے یہ اچھا کیا تھا کہ سریش والا لکھنؤ آئے تو ان کو ملاقات کا موقع دیا۔ ان کی بات سنی۔ اپنی کہی۔ اس سے مودی کے مداح سریش والا مولانا کے بارے میں کچھ اچھا ہی تاثر لے کر اٹھے ۔جے پور کی جس مجلس کا یہ واقعہ ہے اس میں مولانا محترم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ کاش ان کا انفرادی عمل اس اجتماع میں بھی دوہرایا جاتا ۔اپنا خصوصی اختیاراستعمال فرماتے اوران کو بیٹھنے کی اجازت دیدیتے تاکہ ایک کھڑکی کھلی رہتی۔مودی نے یہ کھڑکی بند نہیں کی ہے لیکن اس سے جو لوگ رابطہ میں آرہے ہیں، ان پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے ، لیکن شاید وہ ملت کی نمائندگی کا حق ادانہیں کرسکیں گے۔
خیر یہ تبصرہ تو برسبیل تذکرہ آگیا۔ بات ہم اٹالی کی کررہے تھے۔ ا س ہفتہ انگریزی ہفت روزہ ’ریڈئنس ‘ کے لئے اپنے تجزیہ میں اس کالم نویس نے یہ جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اٹالی جیسے واقعات کی اصل زد فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی فضا پر پڑتی ہے اورفرقہ ورانہ لائنوں پر تقسیم اورگہری ہوتی ہے۔ یہ تقسیم ملک کے لئے مفید نہیں۔اس کی زد (مسلم اورعیسائی ) اقلیت پر زیادہ پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کا خصوص دعوت دین ہے۔جس کے لئے سازگارماحول درکار ہے۔ اس وقت جب کہ اسلام اور مسلمان ہرطرح سے نشانے پر ہیں، ہمارے سامنے ایک نمونہ صلح حدیبیہ کا ہے۔ہرچند کہ ا صحاب رسول کی نظر میں معاہدہ دب کر کیا گیا، مگرقران نے اس کو فتح مبین (سورۃ فتح:۱) قراردیا۔اس کی بدولت دعوتی کام کیلئے سازگارماحول بنا۔ لیکن جب دین کی دعوت غیروں تک پہنچانے کا بنیادی مقصدہی نظروں سے اوجھل ہوگیا ہواورمقصد حیات صرف دووقت کی روٹی، نماز روزہ،اپنی دفاع اور’حقوق‘ کی لڑائی رہ گیا ہوتو پھر کسی فتح مبین کی ضرورت کیونکر اولیت حاصل کرے؟ بہرحال ذہن میں یہ سوال کھٹکتا ہے کہ کیااپنے ملی مصالح کے پیش نظر اس اسوہ رسولؐ میں جو صلح حدیبیہ سے روشن ہے، ہمارے لئے کوئی رہنمائی نہیں؟ آج جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں، شب برأت کی گونج ہے۔ استقبال رمضان کا عشرہ شروع ہوچکا ہے ، جس میں ہم قرآن کی سماعت و تلاوت کرتے ہیں، سیرت رسول ؐکا ذکر خطبوں میں سنتے ہیں، مگرکیا صرف ذکرکرلینا کافی ہے؟
اس وقت اٹالی میں عجیب صورت حال ہے۔ اس شدید گرمی میں ہماری خواتین اور بچے گھر سے بے گھرکھلے میدان میں پڑے ہیں۔گاؤں میں منعقدہ ایک پنچایت نے یہ پیش کش کی ہے کہ مسجد دوسری جگہ بنالی جائے، جس میں پورا گاؤں ساتھ کھڑاہوگا۔ مسلمان آ کر اپنے گھروں میں آباد ہوجائیں۔ ان سے کوئی بیربھاؤ نہیں رکھا جائیگا۔ سرکار نقصان کی تلافی پر آمادہ ہے ، اس میں کوئی رخنہ نہیں ڈالاجائے گا۔لیکن مسلمانوں کو یہ منظور نہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ پہلے خطاکاروں کو گرفتار کیا جائے اور مسجد وہیں بنے ۔ بیشک مطالبات حق بجانب اورقانون کی رو سے جائز ہیں۔ لیکن غورکرنے کی بات ہے کہ اگربفرض محال یہ مطالبات مان بھی لئے گئے توکیا اس صورت میں گاؤں کا ماحول خوشگواری سے ہم آہنگ ہوسکے گا؟ مسجد کی تعمیر اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ کیااس کو کچھ دنوں کیلئے موخرنہیں کیا جاسکتا ؟ بیشک خطا کاروں کو سزا ملنی چاہئے۔ لیکن سزاکیسی ہو؟ ایک صورت تو یہ ہے وہ جیل میں ڈالے جائیں،ان پر مقدمہ چلے،عدالت میں قصور ثابت ہو اورسزا ملے۔ لیکن اس دوران میں کیا رنجش ختم ہوجائیگی؟نہیں ، بلکہ اوربڑھ سکتی ہے۔ ماحول اورمکدرہوسکتا ہے۔ گویا اس ذہنیت کی جیت ہو گی، جس کا یہ سب کیا دھرا ہے۔ یہ اس ذہنیت اورنظریہ کی شکست نہیں ہوگی جس نے مسلم مخالفوں کے اندرہوا بھر دی ہے۔
سزا کی دوسری صورت یہ ہے کہ فرقہ پرستی کو شکست دی جائے اورکوئی ایسی تدبیر کی جائے کہ گاؤ ں اور گردنواح میں مسلم آبادی کے اکھڑ ے ہوئے قدم جم جائیں اور ماحول کا خوف وتکدر دور ہو جائے۔ دونوں صورتوں کے اثرات پورے ملک پر دوررس ہونگے۔چنانچہ مناسب ہوگا کہ اٹالی کے مسلمان اپنے سخت موقف پر ٹھنڈے دماغ سے از سر نوغورکریں۔ دورتک سوچیں اور پوری قوم کو یہ پیغام دیں کہ ہم شر نہیں چاہتے۔ شر کودبانے کے لئے مصالحت کوترجیح دیتے ہیں، چاہے اس کے لئے اپنی ناک ہی کیوں نہ نیچی کرلینی پڑے۔بیشک یہ ملک اورملت کے لئے ایک قربانی ہوگی اورقربانی سے آدمی چھوٹا نہیں ہوا کرتا۔ ایک طرف ہماری انا اور ناک کا سوال ہے، دوسری طرف وہ انداز فکروجرأت ہے جس کی مثال ہمیں حدیبیہ میں ملتی ہے۔ہم اپنے لئے کس کو منتخب کریں؟
جواب دیں