جمہوری نظامِ حکومت میں سیاست نے ہمیشہ سرمایہ دار کے اثاثہ پر اقتدار کی جنگ لڑی اور جنگ جیت کر اقتدار میں آنے کے بعد سرمایا داروں کی کمائی کا انتظام بھی کیا ہے۔ اس معاملہ میں ملکی اور عالمی سیاست کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں سوائے اس کے کہ ملکی سطح پر مُدّازیادہ ترنسلی، لسانی، تہذیبی، مذہبی، یا مسلکی ہونے کی بنا پر فرقہ واریت کا ہوتا ہے اور عالمی منظر نامہ پر تشدّد اور دہشت گردی کا ۔البتہ عوامی اور عالمی امن و ترقّی کا ڈھول دونوں ہی منزل پر زور داری کے ساتھ پیٹا جاتا ہے جس کے شور کو ماحول ساز ابلاغی ذرائع ہر گوشۂ گوش و نظر تک پہچانے کی پوری قیمت سیاست اور سرمایا سے وصول کرتے ہیں۔ قومی اور عالمی صطح پر آج جو بہت سے منافع خور خبری چینل ،رسالہ اور اخبار سیاست و سرمایہ کے دیے ہوئے رنگ سے فرقہ واریت اور دہشت گردی کی گمراہ کُن تصویر بنا کر عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ فرائض سے رو گردانی کرنے والے اور اپنے ناظرین، قارین اور سامعین کے قومی اور عالمی گناہ گاران ہیں۔یہ بات بھی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ منافع پرست سرمایہ دار سے قرض لے کر ابلاغی ذرائع کا منہ بھرنے والی اقتدار کی بھوکی سیاست مختلف مذہبی دلالوں کو خریدنے میں بھی پیسوں کی کوئی پروا نہیں کرتی اور سیاست سے موٹی رقم پا کر بندھوا بیانی کرنے والے یہ ضمیر فروش دلال اس سلسلہ میں کس حد تک گرتے چلے جا رہے ہیںیہ کہنے کی بات نہیں ہے ۔ عصر کے منظر نامہ پر جو عالمی صورت پیشِ نظر ہے اُس میں سیاست نے دہشت گردی کو مذہبی مُکھوٹا پہنا کر زر خرید ابلاغی ذرائع کے حوالے کیا ہے تاکہ دہشت گردی کے اس بھیانک سیاسی اور کاروبار کٹھپتلی نا چ کو اقوامِ عالم کے دل و دماغ میں حقیقت کی طرح بیٹھا کر اپنا اُلّو سیدھا کیا جا سکے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو ترقّی پسند، تعلیم حامی، مہذّب، مساواتی، امن و انسانیت کا اگوا اور جمہوریت کاعالمی پرچم بردار کہنے والی سیاسی اور کاروباری طاقتیں خلیج میں امکانی جمہوریت کی ملوکی سرکوبی پر نہ صرف پُر اسرار طور پر خاموش معاون ہیں بلکہ ملوکی طاقتوں کے ذریعہ دہشت گردی کو فروغ دلوا رہی ہیں اورقیامِ امن کا ناٹک بھی کر رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں سیاسی اور کاروباری مفاد کے لئے دہشت کے معاملہ کو بڑی چالاکی سے مذہبی اور مسلکی تصادم کے طور پر پیش کرنے کی شرم ناک سازش بھی کی جا رہی ہے۔ دہشت کی آڑ میں سستی قیمت پر گیس اور تیل دوھ کر ذخیرہ کرنے والے اوراسلحے بنانے بیچنے والے جن کی ترقّی کے لئے دہشت گردی ریڑھ کی ہڈّی ہے وہ اسے حقیقت میں کبھی ختم نہیں کرنا چاہیں گے۔اسی لئے جب کسی دہشت گرد تنظیم کی شدّتوں کے خلاف عالمی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں تو اُس تنظیم کو ایک نئی تنظیم سے تبدیل کر کے یہ طاقتیں خاتمے کے فرضی کارنامے پر آپ اپنی پیٹھ تھپ تھپا لیتی ہیں۔جب کہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اب تک دہشت گرد تنظیمں ختم یا محدود ہونے کے بجائے لا محدود اور عام ہوئی ہیں۔آج دہشت گردی کے حوالے سے دائش تک کا تنظیمی سلسلہ یہ بتانے کے واسطے کافی ہے کہ دہشت گردی نے اب تک نام بدل بدل کر سفر کیا ہیں اور اب تک بجائے دہشت گردی کو ختم کرنے یا اُس پر قابو پانے کے صرف دہشت گرد تنظیموں کی تحلیل و تشکیل کا سیاسی کھیل ہوتا رہا ہے۔آخر اس معاملہ میں اس کو ہٹاؤ اُس کو لے آؤ کی ترکیب سے کب تک عالمی سیاسی و کاروباری فائدہ اُٹھایا جاتا رہے گا اور کب تک اقوامِ عالم کو دھوکا دیا جائے گا اورکب تک مذہب و مسلک کی آڑ میں انسانی خون سے ہولی کھیلوائی جاتی رہے گی ؟انسانیت ایک بہت بڑی انسانی خوبی ہے اور بہت سے لوگ جو خدا اور مذہب کو نہیں مانتے وہ بھی انسانیت اور انسانی قدروں کو تسلیم کرتے ہیں۔انسانیت مذہب کو ماننے اور نہ ماننے والوں کا ایک مشترک محور ہے اور انسانیت کے اس محور سے بے تعلقی اختیار کرنے والے لوگ ہی حریس و بُوالہوس عالمی سیاسی دماغ کے ایسے زر خرید غلام ہیں جو فکر و وجود سے دہشت گردی میں ملوث ہیں جن کا در اصل نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ ہی کوئی ملک ۔صرف طریقہ عبادت یا صورت کی بنیاد پر کچھ مذاہب اور امن دشمن عناصر اگر خود کو کسی خاص مذہب سے بیان کرتے ہیں تو وہ اُس مذہب پر مزید ظلم کر رہے ہیں۔ یہ لا مذہب بے ملک اور امن دشمن دہشت گرد عالمی سیاسی و کاروباری گٹھ جوڑ کے پیدا کردہ و پروردہ ہیں۔کل ملا کر دہشت گردی کی حقیقت اس کے علاوہ آج کچھ نہیں کہ فلسطین حامی ایران کو گریٹر اسرائیل کے راستے کا روڑا سمجھنے والا اور نیوکلیر سمجھوتے پر اپنا دباؤ قائم نہ رکھ پانے والا ناملک اسرائیل ایران کی بڑھتی ہوئی قبولیت کا جمہوری و مسلکی ڈر ملوکی سعودی اور قطر کے دماغ میں بیٹھا کر اُنہیں کے ذریعہ سے سیریا ، عراق، لبنان، بحرین، یمن اور پاکستان میں دہائیوں سے دہشتگردی انجام دلوا رہا ہے۔ابھی بہت دنوں کی بات نہیں ہے جب امریکہ نے بھی اپنی حریف عالمی طاقت روس کو کمزور کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے واسطے دہشت گرد تنظیم کا سیاسی استعمال کیا تھا اور پھر کام نکل جانے کے بعد اُس کے خلاف لام بند ہو کر خاتمہ کا ناٹک بھی برسوں کیا ۔دہشت گردی کے خلاف یہ حکمتِ عملی بھی سوائے امریکہ اور کس کی ہو سکتی ہے کہ اپنے معافق طالبان کو گُڈ طالبان اور مخالف طالبان کو بیڈ طالبان کے نام سے دنیا میں مشہور کیا جائے حالانکہ یہ کہنابالکل ویسا ہی ہے جیسے کوئی ظالموں کو اپنے نقتہء مفاد و ذرر کی بنیاد پر اچھے ظالم اور بُرے ظالم کا نام دے۔عالمی سیاست میں دہشت گردوں کے استعمال کو اکثر ممالک میں انتخاب کے دوران گران پیشہ گروہوں کے ہونے والے سیاسی استعمال سے بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ جس طرح گران پیشہ گروہ ملکی انتخاب میں نا قص کردار ادا کرتے وقت دھونس دھمکی، مار ڈھاڑ اور فرقہ واریت پھیلانے کا کام کرتے ہیں اُسی طرح عالمی صطح پر دہشت گرد موجود اور ممکن عالمی سیاسی و کاروباری کے اشارے پر کام کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ عالمی سیاسی و کاروباری سطح پر موجود و ممکن دونوں ہی طاقتیں اپنے اپنے طور پر عالمی گران پیشہ دہشت گردوں کا استعمال کرتی ہیں۔اس سلسلہ میں ایک قابلِ غور بات یہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین جہاں پر اسرائیل پر ایک غیر علانیہ دہشتگردی کا سیاسی شطرنج کُھل کر کھیل رہا ہے اور جہاں بے شمار بے گناہ شہریوں کی جانیں ایک مدّت سے تلف ہو رہی ہیں وہاں ایران کو چھوڑ کر انسانی حقوق کے پرچم بردار ، جمہوریت کی پاسدار عالمی طاقتیں یو۔این۔او ، مسلم برادریت کے ہمنوا، اسلامی ممالک ملوکی سعودیہ ،قطر یہاں تک کہ تمام خوں ریزی کرنے والا بدنامِ عالم دائش بھی کوئی پیشرؤ نہیں کر رہا ہے۔اسرائیل کے خلاف نہ سہی فلسطین کی ہمدردی میں بھی بولنے کی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہوتی ،جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران کو چھوڑ کر یہ تمام ہی ادارے اور طاقتیں اسرائیل کے ماتحت ہیں۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ عالمی کاروباری بازار کے ایک بہت بڑے حصہ پر آج اسرائیل کا قبضہ ہے اور اپنے قبضہ کو قائم رکھنے اور اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے اُسے تمام ممالک میں وہ سرکاریں اور حکومتیں درکار ہیں جو اُس کے کاروبار میں معاون رہیں۔اس سلسلہ میں وہ ممالک میں سیاست و اقتدار کو اپنے گرفت میں لیتا چلا جا رہا ہے ، ایک طرح سے آج بہت سے ممالک میں درپردہ طور پر اسرائیل ہی کی حکومت چل رہی ہے جسے ملک تمہارا حکم ہمارا کہنا غلط نہ ہوگا ۔ایسی صورت میں آج جب ارضِ عالم کے بہت سے ممالک کی حکومتوں اور اُن کی سیاستوں ، عالمی منصوبہ کار شعوبوں ، عالمی سیاسی اداروں ، عالمی ابلاغی ذرائع اور عالمی بازاروں پر اسرائیل کا خونی پنجہ مضبوطی کے ساتھ دھنسا ہوا ہے تو دنیا سے مسلکیت ،فرقہ واریت اور دہشت گردی کسیے ختم ہو سکتی ہے؟ہمارا ملک پیشتر میں فلسطین حامی تھا۔جس کا جھکاؤ بعد میں آئی سیاسی تبدیلیوں کے زیرِ اثر اسرائیل کی طرف ہوا۔افسوس کی بات ہے کہ آج ہماری یہ گنگا جمنی تہزیبی جنّتِ امن کو گزشتہ تین دہائی سے فرقہ واریت کی طرف ڈھکیلنے کی سیاسی کوشش کی جا رہی ہے اور آپسی میل ملاپ کے قائل عوام میں ایک دوسرے کا خوف بیٹھانے کا گھنونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے والی طاقتیں خود بھی جانتی ہیں کہ اُن کو اس سلسلہ میں وقتی فائدے کے علاوہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں کیونکہ بھائی چارہ اور ہم آہنگی ہندوستان کے خمیر میں ہے۔ مگر ہم پھر بھی کسی قسم کی غفلت نہیں برت سکتے جب کہ ہزاروں کروڑ غیر ملکی روپہ ہمارے یہاں فرقہ واریت کو بڑھانے کے لئے خرچ ہو رہے ہیں اور نفرت کی تخم ریزی کرنے والے اسرائیلی اور سعودی ایجنٹوں کی آوا جاہی لگی ہوئی ہے، جن کا کام اقلیت اور اکثریت کے درمیان فاصلہ اور اقلیت کے بیچ مسلکی دوری پیدا کر کے فرقہ واریت کی اُس آگ کو بھڑکانا ہے جو دہشت گردی کا بیج ہے تاکہ قائدانقلابِ ایران امام خمینی سے لے کر رہبر خامنائی تک پہونچی اتحاد بین المسلمین کی تحریک دھیمی پڑ جائے۔اس کام کو انجام دینے کے لئے اسرائیل اور سعودی نے صرف شیعہ سنّی اختلاف کی سازش ہی نہیں کی بلکہ سنّی اور شیعہ دونوں کے مسلک میں اندرونی انتشار پیدا کرنے اور پھوٹ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔دنیا بھر میں پانچ الگ الگ میٹنگ کرنے کے بعد لکھنؤ پہونچنے والے اسرائیلی اور سعودی وفد کی شیعوں کے ساتھ میٹنگ جو کہاخباروں میں زیرِ بحث ہے اس کی سنجیدگی اور پیچیدگی کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جہاں شیعوں میں اس مبہم میٹنگ کی وجہ سے بیچینی ہے وہیں میٹنگ کے کچھ ہی دنوں بعد امام خمینی سے متعلق ایک اخبار کی غیر ذمہ دار حرکت پر حیرت ہے اور ایران میں مسجد ڈھائے جانے کی افواہ پر افسوس بھی۔ ممکن ہے کہ یہ اچانک پیدا ہونے والی تبدیلیاں اسرائیلی اور سعودی وفد کی آمد کا نتیجہ ہے لہٰازا ان باتوں کو دیکھتے ہوئے لکھنؤ میں اسرائیلی ، سعودی وفد کے ساتھ میٹنگ کرنے والے تمام شیعہ افراد کے ناموں کا انکشاف ہونا بے حد ضروری ہو گیا ہے۔(یو این این)
جواب دیں