دنیا کو اپنی لپیٹ میں بالعموم اور عرب دنیا کو بالخصوص لیتے چلے جانے والے اس اسرائیلی پولیو کے وائرس کے تفصیلی ذکر سے پہلے اسی پولیو کا تذکرہ ہو گاجس کے پیچھے پوری دنیا، اس کی انٹیلی جنشیا،عالمی ادارے اور باخصوص عالمی طاقتیں جدو جہد کر رہی ہیں۔ خوش قسمتی سے یہ عمومی پولیو جو انسانوں کو معذور بناتا ہے یا زندگی سے محروم کرتا ہے اس کی بیخ کنی کافی حد تک ہوگئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی اپنی رپورٹ 2012 کے مطابق دنیا میں پولیو کیسز میں 99 فیصد کمی ہو گئی ہے۔ پاکستان جہاں پولیو کے وائرس سے زیادہ اس کے وائرس کا خوف پھیلایا جا چکا ہے اور اس کے خوف کی تبلیغ پر لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں اس کے بارے میں بھی عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ 2013 میں بتایا گیا ہے کہ پورے سال کے دوران پاکستان میں پولیو کے صرف 72 کیس سامنے آئے ہیں۔ یہ اچھی علامات ہیں۔ کہ کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔
لیکن دینا اور دنیا کے اداروں کو جس نئے پولیو وائرس پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے اس کا نام اسرائیل ہے۔ اس کی نمو نسل پرستی سے ہوئی ہے۔ اسرائیل ایسے مذہب کا خوشہ چین ہے جو اپنے اندر کسی کو جذب کرنے کو تیار نہیں۔ گویا یہ مذہب کی نسل پرستانہ تعبیر ہے۔ دنیا میں دوسرا ایسا کوئی مذہب نہیں جو صرف نسل در نسل آگے بڑھتا ہو لیکن یہودیت ہے۔
اسرائیلی پولیو وائرس عام پولیو کی طرح صرف بچوں سے اپنی کارروائی شروع نہیں کرتا بلکہ اس کے اہداف وسیع، پھیلے ہوئے اور ہمہ گیر ہیں۔ یہ چند کلیوں پر قناعت کرنے والا نہیں بلکہ پورے چمنستان عالم کو اپنی لپیٹ میں لینا اس کا ہدف ہے۔
یہ بچوں بوڑھوں اور عورتوں سبھی کے لیے جان لیوا ہے انہیں معذور بھی کرتا ہے، اور موت کے گھاٹ بھی اتارتا ہے ۔ لیکن صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ یہ پورے پورے ملکوں ، خطوں ، ملکوں کی حکومتوں ، سیاسی قیادتوں اور معاشروں کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لیتا ہے کہ ان کا ضمیر مفلوج کر دیتا ہے ، انسانی اقدار کو کھا جاتا ہے ، جہاں جہاں اس کو اثرات دکھانے کا موقع ملتا ہے اعلی اصولوں کو بانجھ بنا دیتا ہے، اقتدار سے چمٹے رہنے والی شخصیات اور جماعتوں کے ہاں سے سیاسی فلسفے، میرٹ، انصاف اور عدل نام کی ہر چیز کو کھرچ ڈالتا ہے۔
اسرائیلی پولیو کا وائرس اپنے ابتدائی برسوں میں کتنا موثر تھا۔ اس کا کچھ احوال فلسطین کے مرحوم مفتی اعظم امین الحسینی نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام 12 اکتوبر 1945 کو لکھے گئے ایک خط میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں یہودیوں نے برطانوی پولیس اور فوج کے کئی افسروں اور اہلکاروں کو قتل کردیا، سرکاری عمارتیں تباہ کردیں ۔ برطانوی بارود خانہ لوٹ لیا اور کئی ظالمانہ فعل کیے ۔۔۔۔۔ لیکن یہودی لیڈروں اور ان کی تظیموں کو پوری آزادی، سہولت اور امداد دی جا رہی ہے،۔
انیس صد چالیس کی دہائی میں جس اسرائیلی پولیو کے وائرس کی لپیٹ میں برطانیہ کے آنے کی نشاندہی مفتی اعظم امین الحسینی مرحوم نے کی تھی، اب اس کی لپیٹ میں پورا یورپ، امریکا اور اہم ترین عالمی ادارے بھی آ چکے ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے اقوام متحدہ کی تشکیل کے وقت ویٹو کا عنصر شامل ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ اس سے اسرائیلی پولیو کو لا علاج رکھا جائے۔ دنیا میں بالعموم اورعرب دنیا میں با لخصوص بد امنی کا ماحول پیدا کیا جائے، تاکہ وسائل کی بندر بانٹ کا امکان باقی رہے۔
براک اوباما نے سفید فام امریکیوں کے وائٹ ہاوس میں بطور پہلے سیاہ فام صدر قدم رکھا تو انہوں نے اعلان کیا تھا مسلم دنیا کے ساتھ باہمی عزت و وقار اور دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر معاملات کرنے کے نئے راستے کا راہی بننا چاہتا ہوں۔ لیکن اسرائیلی پولیو وائرس ایسا ظالمانہ ہے کہ ابھی چند روز پہلے وائٹ ہاوس میں مسلم ممالک کے سفیروں کے لیے دعوت افطار میں اوباما نے عملا بنجمن نیتن یاہو کی ترجمانی جس دھڑلے سے کی اس پر مسلم سفیر ہکا بکا رہ گئے کہ گھر بلا کر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اسرائیل پر راکٹ حملے ناقابل معافی ہیں ۔۔۔۔ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔
واضح رہے جب اوباما اس پولیو زدہ صاف گوئی سے یہ کہہ رہے تھے اسوقت تک صرف فلسطینیوں کے عورتوں اور بچوں کا جانی نقصان ہوا تھا جن کی بڑی تعداد عام شہریوں پر مشتمل ہے، زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 3000 کو چھو چکی تھی۔ اب 19 جولائی کو خبر آئی ہے کہ اوباما نے غزہ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر تشویش ظاہر کی ہے۔
انسانی اور صحافتی آزادیوں میں بھی جو دعوی امریکا کا ہے کسی اور کا نہیں ۔ لیکن پولیو زدگی کی وجہ سے امریکی سی این این نے اسرائیل میں اپنی نمائندہ ڈیانا میگنے کو اور امریکی این بی سی غزہ میں اپنے نمائندے ایمن محی الدین کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر چکے ہیں ۔ سی این این کی ڈیانا میگنے نے ان اسرائیلی عوام کے حوالے سے جمعرات کے روز ایک ایسی رپورٹ دی جس میں انہیں غزہ میں ہلاکتوں اور بمباری کی خوشی میں ہاو ہو کی محفل سجائے دکھایا تھا۔ فلسطینیوں کی اندھا دھند ہلاکتوں پر یہ اسرائیلی شہری لہک لہک کر اچھل کود کر رہے تھے۔ جمعرات کی رات امریکی وقت کے مطابق پونے بارہ بجے رات یہ رپورٹ نشر ہوئی اور سوا بارہ اس خاتون صحافی کی ذمہ داری واپس لے لی گئی۔
این بی سی کے نمائندے ایمن محی الدین نے غزہ کے ساحلی علاقے کے قریب ا ن چار ننھے فلسطینیوں کی موت کا احوال رپورٹ کیا تھا۔ جو فٹ بال کھیل رہے تھے کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والی اسرائیلی فوج کا شکار ہو گئے ۔ چند ہی گھنٹوں بعد اس صحافی کو بھی تبدیل کردیا گیا۔ محی الدین کوئی ناتجربہ کار صحافی نہ تھا بلکہ 2003 سے 2006 کے دوران عراق میں ذمہ داریاں نبھا چکا تھا اور 2011 میں اسے ٹائم میگزین نے دنیا کی 100 موثر ترین عالمی شخصیات میں شامل کیا تھا۔ لیکن اسرائیلی پولیو کا شکار ہو گیا۔
اسرائیلی پولیو کا شکار صرف اہل مغرب نہِں ہیں بلکہ اہل عرب و عجم بھی ہیں۔ مصر نے جنگ بندی کی تجویز کا کریڈٹ لیا لیکن ابھی تک رفح کراسنگ نہیں کھولی۔ نہ صرف یہ کہ غزہ کا محاصرہ کرنے میں اسرائیل کے بعد دوسرا ملک مصر بھی شامل ہے بلکہ مصر نے غزہ پر اسرائیل کے صرف زمینی حملے کی مذمت کی ہے۔ اطراف و اکناف میں بھی سرکاری طور پر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے فلسطینیوں کے ہمزبان دوست اسی عارضے کا شکار ہیں ۔ گویا ہر ایک کو اسرائیلی پولیو کے وائرس نے آلیا ہے۔ کسی کے ضمیر پر اثر ہواہے تو کسی کی زبان کھنچ گئی ، کسی کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ، کوئی خود کو مکمل مفلوج پاتا ہے، کسی کے دیدے کا پانی مر گیا، کسی کی غیرت ملی آخری ہچکیاں لے چکی نظر آتی ہے ۔ نہ فلسطینی بھائی رہے، نہ قبلہ اول کی محبت زندہ، نہ ہی عرب غیرت اور حمیت کا اظہار گویا اس پولیو نے صرف اقدار کو نہیں رشتوں ناطوں کو بھی درگور کر دیا ہے۔
یہ اسرائیلی پولیو سب سے زیادہ خطرناک ہے، اسے عرب و عجم اور مشرق و مغرب سے ختم کرنا ہو گا۔ صدر اوباما کی تبدیلی کا نعرہ بھی اس پولیو کے وائرس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ لگتا ہے امریکا کی ہر جماعت اور قیادت ایک دوسرے کو پولیو کا یہ وائرس منتقل کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ہے کوئی جو انسانی معاشرے کو اس پولیو کے وائرس سے بچانے کے لیے آگے آئے ، پہل کرے ، خود کو ہیش کرے اور اس پولیو سے نجات کی مہم کا بانی مبانی کہلائے۔ ہے کوئی ، ہے کوئی ، فلسطینی بچیاں اور بچے مرنے سے پہلے ایسی کسی مہم کا آغاز دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ویٹو کا اس اسرائیلی پولیو کے حق میں استعمال رکتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس خطرناک ترین پولیو کو کھلی چھٹی دیے رکھنے والے سبھوں کو دہشت گرد قرار دلوانا چاہتے ہیں۔ ہے کوئی کو ان کی آواز سنے اور ان جاں بلب فلسطینیوں کے مطالبے کو ویٹو نہ کر دے۔
جواب دیں