اسرائیلی حکومت نے گزشتہ دو ہفتے میں غزہ پر فضائی بمباری اور ٹینکوں سے زمینی گولہ باری کرکے اب تک 500 بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں جبکہ 3300 فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ میں حماس کے زیر اثر علاقہ شجائیہ اسرائیلی فوج کا ٹارگٹ بنا ہوا ہے۔ ہزاروں فلسطینی نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ فضائی بمباری سے پانی کی سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیلی افواج نے وحشیانہ بمباری کرکے ایک ہی دن میں 100 فلسطینی مسلمان شہید کردئیے ۔ یہ تاریخ کا بدترین دن تھا جب اسرائیلی دہشت گردوں نے خون کی نئی تاریخ رقم کی۔ حماس کے مجاہدین نے دست بدست لڑائی میں 18 صہیونی فوجی ہلاک کردئیے ہیں۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس کے مجاہدین نے سرنگوں کے ذریعے اسرائیلی علاقوں میں حملے کیے ہیں جن سے چار اسرائیلی باشندے ہلاک ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں حماس کے مجاہدین راکٹوں سے حملے بھی کررہے ہیں۔اسرائیل کئی بار انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کے برعکس درندگی اور جنونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کا خون بہا چکا ہے۔ اسکی جارحیت اس قدر وحشیانہ ہوتی ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اسرائیل تو مسلمانوں کاازلی دشمن ہے اور طویل عرصے سے مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے مگر افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے لیڈر خاموش ہیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے خون کا آخری قطرہ بہانے کا دعوی کرتے ہیں مگر عملی طور پر خون کا پہلا قطرہ تو کیا پسینہ بہانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ترکی کے لیڈر طیب اردگان نے اسرائیلی حکومت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسرائیلی قیادت کو اکیسویں صدی کا ہٹلر قراردیا ہے اور تین روز کا سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی سفارتی سطح پر قابل ستائش کوششیں کررہے ہیں انہوں نے روس کے صدر پیوٹن سے بھی فون پر بات کی ہے جبکہ عالم اسلام کے دیگر لیڈر خاموش ہیں اور اپنی اپنی مصلحتوں کا شکار ہیں۔ عرب لیگ اور او آئی سی کے رہنما واجبی بیانات جاری کررہے ہیں اور کھلے الفاظ میں مذمت کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔ جماعت الدعو کے امیر حافظ محمد سعید نے ایک افطار ڈنر میں مسلمان ملکوں کے اکثر حکمرانوں کو امریکہ کے ایجنٹ قراردیا انہوں نے کہا کہ عالم اسلام میں آج بھی اس قدر قوت موجود ہے کہ مجاہدین اسلام روس کی طرح امریکہ کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ اگر عالم اسلام کے لیڈر متحد ہوجائیں تو امریکہ اور اسرائیل مسلمان ملکوں کیخلاف جارحیت کرنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ عالم اسلام متحد اور منظم ہوکر ہی مسلمانوں کیخلاف سازشوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
بیسیویں صدی کے مسلمان رہنما قوم پرست تھے۔ سامراج کیلئے ان کو خریدنا ممکن نہ تھا۔ قائداعظم نے جرات اور بے باکی کے ساتھ فلسطینی کاز کی حمایت کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے ہر سالانہ اجلاس میں فلسطین کے بارے میں قرارداد منظور کی جاتی۔ قائداعظم نے فلسطین کے مفتی اعظم امیر الحسینی کے نام ایک خط میں تحریر کیا۔
پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان عربوں کے قومی مقاصد کے حصول کیلئے دلی طور پر آپ کے ساتھ ہیں ہم آپکے ساتھ کھڑے ہونگے اور ہرممکن مدد کریں گے۔(پاکستان ٹائمز 13 ستمبر 1947])
ذوالفقار علی بھٹو شہید بھی فلسطین کاز کے بے باک ترجمان تھے۔ وہ عالم اسلام کے معاشی اور عسکری اتحاد کیلئے مسلم بلاک بنانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کررہے تھے۔ دوسرے قوم پرست لیڈروں میں شاہ فیصل، سوکارنو، ناصر مصدق، بومدین، عرفات، امام خمینی شامل ہیں۔ اکیسویں صدی میں مسلمان ملکوں کے اکثر لیڈر سامراج کے حلیف ہیں۔
عالم اسلام خاموش ہے۔ اس بے حسی کی ذمے داری سیاسی اور مذہبی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے جو ذاتی مفادات کی خاطر امریکہ اور اسرائیل کو ناراض کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں البتہ غیر مسلم ممالک لندن ، پیرس، ویانا، فرینکفررٹ میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں عوام شریک ہورہے ہیں۔ ثابت ہوا غیر مسلم ممالک میں جمہوری آزادیاں موجود ہیں۔ اکثر مسلم ملکوں کے حکمران اور مذہبی و سیاسی لیڈر بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ اور اسرائیلی لابی کے دباؤ یا زیر اثر آچکے ہیں۔ عالم اسلام کے مسلمانوں کو اپنی سوچوں اور رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور ایسے لیڈروں کو قیادت کیلئے منتخب کرنا ہوگا جن میں اسلامی حمیت موجود ہو اور وہ سامراج کے آلہ کار بننے کیلئے تیار نہ ہوں۔ امریکہ نواز مذہبی اور سیاسی لیڈروں اور دیگر امریکی ایجنٹوں کو عالم اسلام سے باہر نکالنا ہوگا تاکہ عالم اسلام اپنی کھوئی ہوئی ساکھ اور وقار دوبارہ حاصل کرسکے۔اسرائیل نے امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد کو مسترد کردیا ہے۔
عزت کا معیار جہاں سرمایہ ہو
قوموں نے کردار تو کھونا ہوتا ہے
جواب دیں