بین الاقوامی عدالت (ICJ) کا فیصلہ اخلاقی فتح لیکن راحت نہ مل سکی
مسعود ابدالی
بین الاقوامی عدالت نے کہا کہ ’نسل کشی کے خلاف کنونشن کے تحت فلسطینی شہریوں کا تحفظ ضروری ہے اور اسرائیل کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی نہ کی جائے۔عدالت نے اسرائیل کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا جس کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ فیصلے میں اسرائیل کو غزہ پر حملے بند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
بین الاقوامی عدالت (ICJ) نے اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے مقدمے کا فیصلہ سنادیا ہے۔ عدالتی حکم کے مندرجات سے پہلے اس عدالت کی ہئیت پیش نظر رہے۔
بین الاقوامی عدالت، مجلس اقوام (League of Nations)کے تحت 1920 میں قائم کی گئی۔ جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو1945 میں عالمی عدالت اس ادارےکا ایک حصہ بن گئی۔ قوت نافذہ سے محروم، ICJ کے فیصلوں کو ’رائے‘ (Opinion) کہا جاتا ہے اور’رائے‘ کی بنیاد پر اقدامات کا اختیار اقوام متحدہ کے پاس ہے، جہاں ویٹو سے مسلح پانچ چودھریوں میں سے کوئی بھی فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال سکتا ہے۔
پندرہ ججوں پرمشتمل بنچ کے ہر جج کی مدت 9 سال ہے جنہیں علاقائی بنیادوں پر اقوام متحدہ منتخب کرتی ہے۔ جج کے انتخاب کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل دونوں جگہ واضح اکثریت ضروری ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد 193 ہے چنانچہ جج کے انتخاب کے لیے کم از کم 97 ووٹ ضروری ہیں جبکہ پندرہ رکنی سلامتی کونسل سے کم ازکم 8 ووٹ درکار ہیں۔
واضح رہے کہ بنچ پر بیٹھنے کے لیے جج ہونا ضروری نہیں۔ اس وقت صدر نشین امریکہ کی محترمہ جواین ڈاناہو (Joan Donoghue)کے پاس وکالت کی سند تو ہے لیکن وہ کبھی جج نہیں رہیں۔ موصوفہ سابق امریکی صدر بارک اوباما انتظامیہ کی قانونی مشیر تھیں جب 2010 میں انہیں عالمی عدالت کا جج منتخب کیا گیا۔ اسی طرح بنچ کے نائب صدر، روس کے کرل جیوورجین (Kirill Gevorgian) ایک پیشہ ور سفارت کار ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفر اللہ خان بھی اس عدالت کے جج رہ چکے ہیں جو ایک ماہرِ قانون اور سفارت کار تھے-
اس وقت عالمی عدالت مندرجہ ذیل ججوں پر مشتمل ہے
صدر نشین امریکہ کی جواین ڈاناہو، نائب صدر روس کے کرل جیوورجین، سینئر جج مراقش کے محمد بنونہ، لبنان کے نواف سلام، ہندوستان کے دلویربھنڈاری، سلواکیہ کے پیٹر ٹامکا (Peter Tomka)، فرانس کےرانی ابرام، چین کے ژو ہینجن (Xue Hanqin)، یوگنڈا کی جولیا سبوٹنڈے (Julia Sebutinde)، جمائیکا کے پیٹرک رابنسن، جاپان کے یوجی ایواساوا(Yuji Iwasawa) ، جرمنی کے جارج ناٹ (Georg Nolte)، آسٹریلیا کی ہیلری چارلس ورتھ، برازیل کے لینارڈو برانٹ اور صومالیہ کے عبدالقوی یوسف۔
اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا یہ مقدمہ جنوبی افریقہ نے دائر کیا تھا، جس کی سماعت کا آغاز گیارہ جنوری کو ہوا۔ ضابطے کے تحت کسی ملک کے خلاف مقدمے میں مدعی اور مدعا علیہ کی جانب سے بھی ایک ایک جج کو بنچ پر جگہ دی جاتی ہے چنانچہ اسرائیل کے سابق چیف جسٹس ہارون براک اور جنوی افریقہ کے نائب قاضی القضاۃ Dikgang Moseneke بنچ کا حصہ تھے۔
ابتدائی سماعت میں جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو دلائل کا موقع فراہم کیا گیا۔ استغاثہ نے اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔ مقدمے کی سماعت دو روز جاری رہی۔ اس دوران اسرائیل کو بھی دفاع کا موقع فراہم کیا گیا۔اسرائیل نے خلاف نسل کشی کے مقدمے کو ’انتہائی مسخ شدہ‘ اور ’بدخواہی‘ پر مبنی دستاویز قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔عدالت سے باہر اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ نے اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا اور عالمی عدالت میں اسرائیل کے دفاع کی تعریف کی ۔جمعہ 26 جنوری کو عدالت کی سربراہ جووین ڈانوہو نے سترہ رکنی بینچ کے پندرہ ارکان کا مشترکہ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
یہ فیصلہ درحقیقت 13:1کہا جانا چاہئے۔ اس لیے کہ یہاں صدر نشیں کی حیثیت مشیر و صلاح کار کی ہے جسکا ووٹ رائے مساوی ہونے کی صورت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے ججوں کو عدالت کی مدد اور وضاحت کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ حسب توقع و روائت اسرائیل نے اکثریتی فیصلے کی مخالفت کی جبکہ جنوبی افریقہ کے جج نے حمائت میں ہاتھ اٹھایا۔صرف یوگینڈا کی جج نے اختلافی نوٹ لکھا۔
عالمی عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا ہےکہ وہ غزہ میں نسل کشی اورنسل کشی پر اکسانے کا عمل روکنے کے ساتھ (ذمہ داروں کو) سزا دینے کے اقدامات کرے۔ اس حوالے سے اسرائیل پر قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ غزہ میں جاری انسانی جانوں کے ضیاع پر عدالت کو گہری تشویش ہے۔عالمی عدالت نے اپنے دائرہ اختیار کے بارے میں کہا کہ اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کے مقدمے ، ہنگامی اقدامات اور دوسرے امور پر ہمیں فیصلہ دینے کا اختیار حاصل ہے۔مقدمہ خارج کرنے کی اسرائیلی درخواست کو عدالت نے مسترد کردیا۔بین الاقوامی عدالت نے کہا کہ ’نسل کشی کے خلاف کنونشن کے تحت فلسطینی شہریوں کا تحفظ ضروری ہے اور اسرائیل کو یہ یقینی بنانا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی نہ کی جائے۔عدالت نے اسرائیل کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ جمع کرنے کو حکم دیا جسکے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ فیصلے میں اسرائیل کو غزہ پر حملے بند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
یوگینڈا کی جسٹس جولیاسبوٹنڈے نے اپنے گیارہ صفحاتی اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین تنازعہ کی حیثیت تاریخی اعتبار سے سیاسی ہے نہ کہ آئینی و قانونی، چنانچہ اسے سیاسی تناظر ہی میں دیکھنا چاہیے۔ اسرائیلی وزرا کے اشتعال انگیز بیانات کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ سینئر اسرائیلی حکام کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات کو جنہیں جنوبی افریقہ نسل کشی کے عزائم کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے، سیاق و سباق کے مطابق نہیں ہیں ۔ یہ بیانات فلسطینی عوام کے بجائے حماس کے بارے میں ہیں۔ یوگنڈا کی وزارت خارجہ نے اپنی جج کے فیصلے سے اعلان لاتعلقی کرتے ہوئے غزہ میں فوری، دیرپا اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔
جرمن جج جسٹس جارج ناٹ (Georg Nolte) نے اپنے پانچ صفحاتی تبصرے میں تحریر کیا کہ اگرچہ یہ کہنا درست نہیں کہ (اسرائیل کی) فوجی کارروائی نسل کشی کی نیت سے کی گئی ہے لیکن اسرائیلی حکام کی جانب سے استعمال کی جانے والی ’غیر انسانی اور نفرت انگیز زبان‘ مستقبل میں نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزیوں کے خطرے کو جنم دیتی ہے اس لیے میں اکثریت کے فیصلے کی حمایت کرتا ہوں۔
یہ فیصلہ اس اعتبار سے مایوس کن ہے کہ واضح شواہدو ثبوت کے باوجود عدالت نے اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار دینے سے اجتناب کیا۔ فیصلے کی سطر ’فلسطینی شہریوں کا تحفظ ضروری ہے اور اسرائیل کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی نہ کی جائے‘ سے حکم کے بجائے مشورہ اور سیاسی بیان کا تاثر ابھرتا ہے۔یہ بات تو امریکی حکومت اور یورپی یونین کے زعما بھی کہہ رہے ہیں۔ عدالت نے مبہم انداز میں ’ذمہ داروں کو سزا دینے‘ کی ہدایت کی ہے جو عدالتی فیصلہ کے شایانِ شان نہیں۔ عدالتیں عام طور سے سے دوٹوک انداز میں نام یا منصب بیان کرکے سزا سناتی ہیں۔ اہل غزہ کی نسل کشی کے براہ راست ذمہ دار اسرائیلی وزیراعظم ، وزیردفاع اور فوج کے سربراہ ہیں۔ امریکی صدر، برطانوی وزیراعظم اور یورپی یونین کے قائدین اس گھناونے جرم کے سہولت کار ہیں جن کا فیصلے میں کوئی ذکر نہیں۔ فیصلے کا سب سے غیر ذمہ دارانہ پہلو یہ ہے کہ جانی ومالی نقصان پر تشویش اور افسوس کے اظہار کے باوجود جنگ بندی کا حکم نہیں دیا گیا۔ اسرائیل کو جواب کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے کر تل ابیب کو اگلے تیس دن تک قتل عام کا لائسنس دے دیا گیا۔
برطانیہ نے عالمی عدالت کے فیصلے پر سنجیدہ خدشات کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم عالمی عدالت کا احترام کرتے ہیں لیکن یہ فیصلہ پائیدار جنگ بندی میں مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ حکومتی ترجمان کا کہنا ہےکہ اسرائیل کو عالمی انسانی قوانین (IHL)کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو نسل کشی نہیں کہا جا سکتا اور جنوبی افریقہ کا یہ معاملہ ICJ لے جانے کا عمل برطانیہ کے نزدیک اشتعال انگیزی ہے۔
امریکہ نے بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس جنگ میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت جاری رکھنے کا عزم دہرایا ۔ترجمان، قومی سلامتی جان کربی (John Kirby)نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا بائیڈن انتظامیہ ان الزامات کو بے بنیاد، نقصان دہ اور بعد از حقیقت سمجھتی ہے؟ تو کربی جی فوری بولے ’جی ہاں‘۔اس کے بعد ترجمان نے ICJ کے عبوری فیصلے کو دوٹوک انداز میں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ (امریکہ کو ) ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے یا وہ جان بوجھ کر غزہ کے لوگوں کو ختم کر رہا ہے ۔
عدالت کے احکامات کی روشنی میں تادیبی، تعزیری و اصلاحی اقدامات اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے اور اس فیصلے پر سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان کا ردعمل دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جنوبی افریقہ کی اس کوشش سے فلسطینیوں کے موقف کو اخلاقی فتح تو نصیب ہوئی لیکن نسل کشی کے شکار اہل غزہ کے لیے فوری راحت کی کوئی امید نہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
بشکریہ : ہفت روزہ دعوت
جواب دیں