اسرائیل اور حماس : امریکی سیاست کا دھرم سنکٹ

 

 ڈاکٹر سلیم خان

مظاہروں میں یہود بھی شریک۔ بھارت کے اسرائیل نوازوں کے لیے واشنگٹن سے ایک سبق
ڈونلڈ ٹرمپ نے حزب اللہ کو ’ویری اسمارٹ‘ قرار دیا۔ سابق امریکی صدر کے غیر متوقع تبصرے سے نیتن یاہو کو نفسیاتی صدمہ
نیویارک ٹائمز نے جنگ کے دسویں دن یہ خوشخبری دی کہ موسم کی خرابی کا بہانہ بناکر اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنی زمینی کارروائی ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سچائی تو یہ ہے حماس کا خوف اور فلسطین کے اتحادیوں کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکہ سے بڑا اسرائیل کا کوئی حامی نہیں ہے ۔
حالیہ جنگ کے دوسرے ہی دن امریکہ نے نہ صرف جنگی تعاون کا اعلان کیا بلکہ یکجہتی کا اظہار کرنے کی خاطر اپنے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو بھی تل ابیب روانہ کردیا ۔ وہاں پر براہ راست نشر ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران انٹونی بلنکن نے اپنے بیان سے سب کو چونکا دیا ۔ تل ابیب میں وہ بولے، ’’میں ریاستہائے متحدہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کے علاوہ ایک یہودی کے طور پر بھی آپ کے سامنے آیا ہوں۔‘‘ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی خاطر بلنکن اپنا شجرۂ نسب پیش کرتے ہوئے کہا ،’’میرے دادا، موریس بلنکن، روس میں قتل و غارت سے بچ کر بھاگ گئے۔ میرے سوتیلے والد، سیموئیل پسار، حراستی کیمپوں سے بچ گئے‘‘ –بلنکن نے مشرقی یورپی ظلم و ستم اور ہولوکاسٹ کے مراکز آشوٹز، ڈاچاؤ، مجدانیک جیسے کانسنٹریشن کیمپس کا حوالہ تو دیا مگر وہ یہ بھول گئے کہ جس اسرائیل کی وہ حمایت کررہے ہیں اس نے غزہ کو ایک تعذیبی مرکز میں تبدیل کردیا ہے۔ اس لیے انہیں وہاں موجود فلسطینیوں سے ہمدردی ہونی چاہیے۔
سیاستداں تو خیر سفاک ہوتے ہیں مگر یہ حقیقت قابلِ توجہ ہے کہ بائیڈن اور بلنکن کے امریکہ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف جو مظاہرے ہوئے اس میں یہودی بھی شامل تھے ۔ ایک طرف تو وطن عزیز میں یوگی اور سرما جیسے لوگ اسرائیل کی مخالفت کرنے والوں پر مقدمات درج کرکے چائے سے گرم کیتلی والا معاملہ کررہے ہیں تو دوسری جانب خود امریکہ کے اندر مظاہرے ہونے لگے ہیں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں نہ صرف مسلمان اور عیسائی بلکہ خود یہودی بھی شامل ہورہے ہیں۔ صہیونی بربریت کے خلاف سراپا احتجاج یہودیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے نام پرغزہ میں ظلم و ستم نہ کیا جائے ۔ سرزمینِ امریکہ پر مظاہرین نے غزہ میں اسرائیلی درندگی کوبند کرنےکی مانگ کی۔ یہودیوں نے ’یروشلم کو آزاد کرو‘ کے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اسرائیلی حکومت یہودیوں کی نہیں بلکہ صہیونیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہودیت اور صہیونیت میں ویسا ہی فرق ہے جیسے ہندودھرم اور ہندوتوا کے درمیان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ملک کے بہت سارے ہندو فلسطینیوں کے ساتھ ہیں وہیں سرکار پوری طرح حکومتِ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے اور یہی منظر امریکہ میں بھی نظر آتا ہے۔
مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کی خاطر امریکہ میں ہونے والے مظاہروں کے بیچ امریکی وزیرِ خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کرکے اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہودی مملکت کے لیے امریکی مدد و حمایت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ جو پیغام لے کر وہ اسرائیل آئے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے آپ خود اتنے مضبوط ہوں کہ اپنا دفاع کرسکیں۔ لیکن جب تک امریکہ موجود ہے، آپ کبھی بھی تنہا نہیں ہوں گے‘‘۔ اسرائیل کو دی جانے والی اس نصیحت میں بین السطور یہ پیغام بھی پوشیدہ ہے اپنے قیام کے 75سال بعد بھی اسرائیل اپنا دفاع کرنے کے معاملے میں خودکفیل نہیں ہوسکا بلکہ امریکی مدد کا محتاج ہے۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اس بار اس کامقابلہ مصر، شام اور لبنان سے نہیں بلکہ غزہ سے ہے جو علاقہ ، آبادی اور اسلحہ کے معاملے میں اسرائیل سے بہت کمزور ہے مگر پھر بھی دس دنوں سے اسرائیلی فوجیں اندر داخل ہونے کی ہمت نہیں جٹا پارہی ہیں ۔
امریکہ ویسے تو ہمیشہ ہی اسرائیل کا کٹر حامی رہا ہے مگر اس کےسابق صدور میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اس حوالے سے خاص امتیاز حاصل ہے کیونکہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ساری مساجد کو بند کرنے کا وعدہ کرکے اپنی مسلم دشمنی کا ثبوت دیا تھا اور پھر اسرائیل کے دارالخلافہ کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر نے کی بھی کھل کر حمایت کی تھی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حماس کے تازہ حملے نے انہیں بھی اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو پر تنقید کرنے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے اسرائیلیوں کی ہلاکت کے لیے یاہو کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ حماس کی جانب سے ہونے والے حملے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چہیتے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے سے نیتن یاہو کو بری طرح زد پہنچی ہے۔ویسے اپنی سیاست چمکاتے ہوئے ٹرمپ یہ بھی بولے کہ اگر وہ صدر ہوتے تو اسرائیل کو اس کے لیے تیار رہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ ٹرمپ واشنگٹن میں بیٹھ کر کیا کرلیتے یہ تو خود انہیں پتہ نہیں ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا جب اسرائیل اپنی تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگ میں مصروف ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ 2024 کے امریکی صدارتی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے لیے مضبوط ترین امیدوار ہیں اور خود کو اسرائیل کا سب سے بڑا حامی قرار دیتے آئے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کی اکثریت نے اسرائیل سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔ ایسے وقت میں اسرائیلی قیادت پر ٹرمپ کی کڑی تنقید کو وائٹ ہاؤس اور صدارتی نامزدگی کے ری پبلکن امیدواروں نے مسترد کر دیا لیکن اس کی پروا کیے بغیر ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے موجودہ اسرائیلی قیادت کے ساتھ اپنے ’ناخوش گوار تجربے‘ کو بیان کرکے وہ راز افشاء کر دیا کہ جس سے پتہ چل گیا کہ بڑھ چڑھ کو بولنے والا نیتن یاہو ایران سے کس قدر خوفزدہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق جب ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس مشن میں اسرائیل کو بھی امریکہ کا ساتھ دینا تھا۔ ان کے بقول اس منصوبے پر مہینوں سے کام ہو رہا تھا لیکن جب سب کچھ طے ہو گیا تو کارروائی سے ایک دن پہلے انہیں کال موصول ہوئی کہ اسرائیل اس حملے کا حصہ نہیں بنے گا۔
سابق صدر نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اس آپریشن میں عدم شرکت کی وجہ آج تک نہیں بتائی گئی اس لیے انہیں نیتن یاہو سے بہت مایوسی ہوئی ۔ ٹرمپ نے بعد میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ذریعہ اس کارروائی کا کریڈٹ لینے کی کوشش پر بھی ناراضی جتائی ۔ یاہو نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ڈونلڈ ٹرمپ ان کی پیٹھ میں اس طرح چھرا گھونپ دیں گے۔ ٹرمپ نے حماس کے حملے کو اسرائیلی انٹیلی جینس کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ خود کو مضبوط بنائے۔ ویسے یہی بات انٹونی بلنکن نے بھی ذرا مہذب انداز میں کہی مگر ٹرمپ نے یاہو کے ساتھ اسرائیلی وزیرِ دفاع کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ٹرمپ کی اس صاف گوئی پر اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر کو توسانپ سونگھ گیا تاہم وزیرِاطلاعات شولوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ انہوں نے ٹیلی ویژن پر کھلے عام کہا کہ ’’ ایک سابق امریکی صدرکا یہ پروپیگنڈا شرم ناک ہے ۔ وہ ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں جن سے اسرائیل کے سپاہیوں اور شہریوں کی روح زخمی ہو رہی ہے۔‘‘ یہ کون نہیں جانتا کہ جسمانی تکلیف سے کہیں زیادہ درد روحانی اذیت کا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے شولوم کے مطابق ٹرمپ کا وار حماس کے حملے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔
امریکہ کا کوئی ڈیموکریٹ سابق صدر مثلاً براک اوبامہ اگر ایسی بات کہتاتو اسرائیل کو اتنی تکلیف نہیں ہوتی مگر ڈونلڈ ٹرمپ کو نیتن یاہو کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ 2018 میں صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے یروشلم کو دارالحکومت بنانے کے فیصلے کی حمایت کرنے کے بعد امریکہ کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا۔ ٹرمپ کی اس حماقت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اس لیے وہ خواب تار تار ہوگیا تھا۔ ٹرمپ نواز فلسطین کے دشمن ان کے ذریعہ ایرانی جوہری معاہدہ ختم کرنے کے اقدامات کا حوالہ دے کر انہیں امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ اسرائیل نواز صدر کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صدر ٹرمپ ہی کے دور میں امریکہ کی ثالثی سے ’ابراہام اکارڈ‘ ہوا تھا جس کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کیے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اب سعودی عرب بھی صہیونیوں کے ساتھ پینگیں بڑھانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ ویسے حماس کے اس حملے نے یہ بساط الٹ دی ہے۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کایہ بیان موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھانے کی خاطر صدارتی نامزدگی کے ری پبلکن امیدواروں میں ٹرمپ کے مضبوط ترین حریف رون ڈی سینٹس نے ایکس پر لکھا کہ صدارتی دوڑ میں شامل کسی شخص کو ہمارے دوست اور اتحادی اسرائیل پر حملہ کرنا زیب نہیں دیتا ۔انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کو ’ویری اسمارٹ‘ کہنے پر بھی تنقید کی۔ قصر ابیض کے ترجمان نے بھی اس معاملے میں ٹرمپ کو گھیرتے ہوئے لکھا کہ موجودہ حالات میں ایران نواز دہشت گرد تنظیم کو ’اسمارٹ‘ کہنا انتہائی ناگوار مریضانہ بات ہے۔ ان کے بقول ’کوئی امریکی ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟‘ رون نہیں سوچتے یہ ان کا مسئلہ ہے مگر دنیا کی اکثریت یہی سمجھتی ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ صدارتی نامزدگی کے ڈیمو کریٹک امیدواروں کا بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ ایسے وقت میں اسرائیل کو درپیش بحران سے متعلق غلط معلومات پھیلا رہے ہیں جب تمام ممالک کی جانب سے اسرائیلیوں سے اظہار یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔
امریکہ کی گھریلو سیاست میں بات اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ ٹرمپ اور دیگر ری پبلکن امیدوار غزہ سے ہونے والے حالیہ حملے کے لیے صدر بائیڈن کی حکومت کو ذمہ دار قرار دینے لگے ہیں۔ان کا مؤقف ہے کہ بائیڈن حکومت نے ایران کے منجمد چھ ارب ڈالر جاری کردئیے۔ اس کی وجہ سے ایران کو حماس کی معاونت کے لیے مدد ملی۔ یہ بہت ہی سنگین الزام ہے اور اس سے امریکہ کے یہودیوں سمیت ان سے ہمدردی رکھنے والے عیسائیوں کی بڑی تعداد متاثر ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن حکوت نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے اس مفروضے کی تردید میں کہا کہ ایران نے یہ رقم تاحال استعمال نہیں کی ہے۔ اس دباو میں ڈیموکریٹ صدر بائیڈن کو یہود نوازی کے لیے میدان میں آنا پڑا ۔ ویسے تو انہوں نے پہلے ہی سات اکتوبر کے حملے کو یہودیوں کے لیے ہولوکاسٹ کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز دن قرار دے دیا تھا ۔ اب وہ حماس کا وجود مٹانے پر زور دیتے ہوئے بہت جلد اسرائیل کا دورہ کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں تاہم غزہ کا نام و نشان مٹانے والوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئےانہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔ امریکی سیاست کا یہ تذبذب اور تضاد آئندہ صدارتی انتخاب کو بہت بری طرح متاثر کرے گا۔
فلسطین اور اسرائیل تنازع میں امریکہ کی شمولیت سے پریشان ہونے والوں کے لیے حزب اللہ کے میدان میں آجانے سے خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ یہ بلاواسطہ ایران کی مداخلت ہے۔ حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم نے اعلان کیا کہ ان کی تنظیم پراسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعہ میں ، لڑائی سے الگ رہنے کے مطالبات کا کوئی اثرنہیں ہوگا ۔ان کے مطابق ’’حزب اللہ اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہے۔ ہم تیار ہیں، پوری طرح تیار ہیں۔‘‘انہوں نے حال ہی میں متعدد لبنانیوں کی سرحد پار اسرائیل کے ساتھ جھڑپوں کا برملا اعتراف کیا ہے۔ حالیہ جنگ کے دوران سرحد پار سے راکٹ فائر اور گولہ باری ہو چکی ہے ۔قاسم نے مزید کہا کہ ’’ہم اپنے منصوبے کے مطابق لڑائی میں حصہ لیں گے۔۔ اور جب کسی کارروائی کا وقت آئے گا، ہم اسے انجام دیں گے۔‘‘ لبنان کی طاقتورتحریک حزب اللہ کا مشرق وسطیٰ میں لڑی جانے والی گوریلا لڑائیوں میں قریبی تعلق رہا ہے۔ایران کی پشت پناہی میں تنظیم حزب اللہ کا لبنان میں سیاست، فوج اور سماجی سرگرمیوں سے گہرا تعلق ہے اور وہ ایک بڑی سیاسی اور عسکری قوت ہے۔ حزب اللہ ملیشیا لبنان کی فوج سے زیادہ طاقتور ہے اور اس نے خطے میں شام سمیت ایران کے اتحادیوں کی مدد کی ہے۔ اس کا لبنان کی ریاستی پالیسیوں پر بھی وسیع اثر ہے۔
ایرانی صدر کے دفتر کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں صدر رئیسی نے گذشتہ چند دنوں کے دوران فلسطینیوں پر اسرائیل کے حملوں کی شدید مذمت کی اور فلسطینی عوام کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلی کو روکنے پر فرانسیسی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد رئیسی نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ فون پر گفتگو میں کہا کہ اگر صیہونی حکومت ان جرائم کو جاری رکھ کر اپنی شکست کی قیمت چکانا چاہتی ہے تو جنگ میں توسیع ہو گی۔ اس پرفرانسیسی صدر نے اپنی طرف سے غزہ پٹی میں بحران کی شدت پر تشویش کا اظہار کیا اور ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے اپنا بااثر کردار ادا کرے۔ تاہم، مسٹر رئیسی نے کہا کہ ’’احتجاجی گروپ اپنے فیصلے خود لے سکتے ہیں۔‘‘
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان بھی کہہ چکے ہیں کہ خطے میں ایران کے اتحادی ،فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ‘‘جرائم’’کا جواب دیں گے اور اسرائیل کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ یہ اشارہ حزب اللہ کی جانب ہے جن کے ساتھ 2021 میں وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایرانی پاسداران انقلاب کے ساتھ قریبی روابط کا اعتراف کرچکے ہیں ۔ یہی بات امریکی قومی سلامتی کےمشیر نے کہی کہ اسرائیل حماس جنگ، بڑے تنازع میں بدل سکتی ہے، جنگ کے باعث لبنان سرحد پر نیا محاذ کھلنے اور ایران کی شمولیت کا بھی خدشہ ہے۔ ان اندیشوں کے پیش نظر اسرائیل فلسطین تنازع پر عالمی برادری متحرک ہو گئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین تنازع کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اسی ضمن میں انہوں نےفلسطینی صدر محمود عباس سے رابطہ کرکے تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ حماس فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے نہیں لڑرہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو یہ جنگ کس لیے ہورہی ہے؟ بائیڈن کو پتہ ہونا چاہیے کہ فلسطین کا بچہ بچہ ان کی تردید کرتا ہے۔
بڑے طمطراق سے اپنا دورہ شروع کرنے والے انٹونی بلنکن کے ہوش اب ٹھکانے آرہے ہیں۔ اپنا چھ ممالک کا دورہ مکمل کرنے کے بعد اب وہ عرب خطے میں امن وسکون قائم کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں محفوظ علاقے کے قیام پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں سے اجتناب کرےاور بے گناہ فلسطینیوں کو تحفظ دے۔قطر میں وہ بولے کہ ’ ہم نے اسرائیلیوں پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ہر ممکن احتیاط سے کام لیں ‘۔ انہوں نے کہا ، ‘‘ہم تسلیم کرتے ہیں کہ غزہ میں فلسطینی خاندان مصائب میں مبتلا ہیں جس میں خودان کا کوئی قصور نہیں ہے اور یہ کہ کئی فلسطینی شہری اپنی جانیں کھو چکے ہیں ۔’’تاہم بلنکن نے اسے انتقامی کارروائی نہیں بلکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کا دفاع قرار دیا جو احمقانہ دلیل ہے۔ بلنکن نے عمان میں شاہ عبد اللہ ثانی اور صدر محمود عباس سے مشاورت کے بعد کہا کہ غزہ میں امدادی سامان لانے اور صورتحال کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے انسانی ہمدردی کی راہداریاں کھلیں گی ۔ مصر نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل اجتماعی سزا کی پالیسی پر گامزن ہے۔ چین بھی یہی کہہ رہا ہے۔ روس نے حفاظتی کونسل سے رجوع کیا ہے اور یہ خبر بھی آرہی ہےکہ چین کی مدد سے امریکہ تنازع حل کرنے کی سعی کررہا ہے۔ آئندہ انتخاب میں بائیڈن کی کامیابی و ناکامی کا دارومدار اب فلسطین و اسرائیل سے متعلق سفارتکاری پر آکر ٹھہر گیا ہے اور یہ تنازع امریکی سیاست کا دھرم سنکٹ بن گیا ہے۔

بشکریہ : ہفت روزہ دعوت
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے