اسرائیلی انتخاب: صہیونی جمہوریت بے نقاب

ڈاکٹر سلیم خان

اپریل (2019)  کے وسط میں اسرائیل کے پارلیمانی انتخابات کا عمل مکمل ہوا۔  اس کے اندر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ  نےاپنے حریفوں پر برتری حاصل کی۔ لیکوڈ   کو  ایوان پارلیمان کی 120 نشستوں میں سے35پر جیت حاصل  ہوئی  اوراس بات کے امکانات روشن ہوگئے کہ  وہ دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے سہارے  پارلیمان میں اکثریت ثابت کردے  گی۔ اس طرح ممکن تھا کہ  آئندہ مخلوط حکومت میں انھیں  کے وزیراعظم کا عہدہ مل جاتا۔ پانچ ماہ قبل اگر یہ  ہوجاتا تو وہ پانچویں مرتبہ  وزیراعظم بن کر  اسرائیل کے سب سے زیادہ عرصہ حکمراں رہنے والے سیاست دان بن جاتے لیکن  وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ  موجودہ انتخابی نتائج کے بعد پھر ایک بار ان کے ہاتھ محرومی لگے اور وہ حکومت سازی کرنے میں ناکام ہوجائیں۔ حزب اختلاف کے رہنما   بینی گنتز   کو وزیر اعظم بننے کا موقع مل سکتا ہے کیونکہ ان کے محاذ  کو ایک نشست کی برتری حاصل ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں جہاں موقع پرست جماعتیں کنگ میکر بنی ہوئی ہیں  کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

ماہِ اپریل کے اندر بدعنوانی کے تین الزامات میں گھرے ہونے کے باوجود  یاہو وزارت عظمیٰ کے لیے  نامزد  ہونے میں کامیاب ہوگئے۔   نیتن یاہو  کو 28 روز میں نئی حکومت تشکیل دے کر اپنی اکثریت ثابت کرنی تھی ۔ وہ اس میں ناکام رہے تو مزید دو ہفتوں  کی اضافی  مدت میں بھی  جوڑ توڑ کے حربے استعمال کرتے رہے۔ اپنی ساری  کوشش  میں وہ ناکام ہوگئے تو پارلیمنٹ تحلیل کروادی۔ اس طرح اسرائیلی نئی حکومت کی کلی بن کھلے مرجھا گئی اور 17 ستمبرکو دوبارہ  انتخابات کا اعلان  ہوگیا۔  یاہو اگر پارلیمان کو تحلیل نہ کرتے تو صدر مملکت حزب اختلاف کو حکومت سازی کا موقع دیتے  لیکن اقتدار کی ہوس  اور بیجا خود اعتمادی نے نتین یاہو سے یہ ناعاقبت اندیش فیصلہ کروایا جس میں دنیا بھر کی بدنامی اور وسائل کو خرچ کا  کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اسرائیل  کی تاریخ میں  پہلی مرتبہ دو ماہ سے بھی کم عرصے میں  نوزائیدہ حکومت نے دم توڑ دیا  لیکن اس کے باوجود  حکومت سازی میں ناکامی کے بعد بڑے طمطراق سے نیتن یاہو نے اعلان کیا  تھا کہ "ہم پوری سرگرمی اور واضح طور پر انتخابی مہم چلائیں گے جو ہماری جیت کو یقینی بنا دے۔ ہم جیتیں گے، ہم جیتیں گے اور عوام جیتیں گے”۔ اس اعلان کے بعد  6 ماہ تک اسرائیل کے عوام نے   بلکہ ساری دنیا نے ایک نہایت شرمناک اور نفرت انگیز انتخابی مہم کے نظارے کیے جس نے اسرائیلی سیاستدانوں کے اخلاقی دیوالیہ پن کو طشت ازبام کردیا۔یاہو نے  احسان فراموشی کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پانچ سالوں تک حکومت کرنے میں مدد کرنے والے اپنے سابق وزیر دفاع ایوگڈور لیبرمین پررائے دہندگان  کو دھوکا دینے اور وعدہ خلافی کرنے کا الزام لگایا  یعنی جب تک کوئی ساتھ دے تو اچھا اور جب انکار کردے تو برا ہوگیا۔

اسرائیلی سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ ان انتخابی نتائج سے سبق سیکھ کر  عدم استحکام کو ختم کرنے کی خاطر آپس میں تال میں میل کرتے  لیکن اقتدار کا لالچ آڑے آگئی اور پارٹیوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا۔ اس چھوٹے سے ملک  میں  الیکشن کے لیے 32جماعتوں نےرجسٹریشن کرایا۔ اس سے بیزار ہوکر اسرائیل الیکشن کمیشن نے جماعتوں کے اندراج  کا سلسلہ  ۲ روز قبل بند کر دیا۔ انتخابی نتائج سے  بے نیاز دائیں بازو کی مذہبی انتہا پسند جماعتیں  آپس میں سر پھٹول کرتی رہیں اور سیاسی اتحاد کی  تشکیل  میں ناکام ہوگئیں۔ اس موقع پر متحدہ دایاں بازو محاذ اور عوٹزما یہودیت نے لیکوڈ پارٹی کو خبردار کیا  تھا کہ اتحاد ٹوٹنے سے مذہبی جماعتوں کا ووٹ بنک متاثر ہوسکتا جس کا فائدہ  بائیں بازو کے سیکولر لیڈر یائیر لبید کو ملے گا۔ حالیہ  نتائج نے اس پیشنگوئی کی تصدیق  کردی۔

اس بار انتخابی مہم کے دوران کئی قابل ذکر واقعات  رونما ہوئے۔ ان میں   زمانی ترتیب کے لحاظ  سے اول   فرقہ وارانہ فسادتھا۔ اسرائیل کے اندر جہاں یوروپ،  روس اور امریکہ سے لاکر یہودیوں کو بسایا گیا وہیںایتھوپیا سے 140000  افراد بھی لائے گئے  جو کل آبادی کا محض ڈیڑھ فیصد ہیں۔ ان لوگوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔تعلیمی پسماندگی کے سبب ان میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ نسل پرست حکومت  ان کا استحصال کر تی ہے اور بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھتی  ہے اس لیے یہ  گھٹن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے اندر غم وغصے کی  جو آگ ہے اس پر تیل ڈالنے کا کام  ایک پولیس آفیسر نے سلیمان ٹکہ نامی نوجوان کو گولی مار کرکے کر دیا۔ اس قتل کے بعد دہائیوں سے نسل پرستی کا شکار سیاہ فام یہودی  بڑی تعداد میں اسرائیلی حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے او ر بات جلاو گھراو تک پہنچ گئی۔  اس احتجاج میں سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا،کئی  پولیس والے زخمی ہوگئے اور ایمبولینسز کو بھی آگ لگا ئی گئی۔ نیتن یاہو کے لیے یہ اچھا شگون نہیں تھا۔

نیتن یاہو نے اپنی انتخابی مہم میں مودی جی کے ائیر اسٹرائیک سے  ترغیب لے کر پہلے تو  لبنان کی سرحد پر اضافی فوج بھجوائی   اور اس کے بعد حزب اللہ کا گڑھ سمجھے جانے والے بیروت کے جنوبی علاقے میں ڈرونز گرائے۔ ان میں سے خالی زمین پر مگر دوسرا میڈیا دفتر کی چھت پر گرا اور وہ  بری طرح متاثر ہوگیا۔ اس کے جواب میں حزب اللہ نے اسرائیل کے شمالی علاقے میں اسرائیلی ملٹری بیس پر ٹینک شکن میزائل فائر کیے۔حزب اللہ نے اپنے میزائل حملوں سے اسرائیلی ٹینک تباہ  کرنے اور اس میں سوار اسرائیلی فوجیوں  کےہلاک ہونے کا دعویٰ کیا۔  اسرائیل نے اس کی  تردید کرتے ہوئے  کہا کہ  اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن اس سے حملوں کی تصدیق تو ہوگئی۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے اسرائیل نے لبنان کے جنوبی علاقے میں بمباری کی اور کئی گولے داغے  لیکن وہاں پر  الیکشن میں اس  حربہ کو  بالا کوٹ جیسی کامیابی نہیں  ملی

اس انتخابی  مہم کے دوران  یاہو کو ایک زبردست جھٹکا اس وقت لگا جب سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ‘فیس بک’ نے عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف  نفرت سے بھرپور مواد پوسٹ کرنےکا الزام لگا کر اس کا ‘فیس بک’ صفحہ  بلاک کردیا۔ کسی ملک کے سربراہ  کا فیس بک صفحہ معطل کردیا جانا اس کے لیے شرم کی بات تھی۔ ساری دنیا سوچ میں پڑ گئی  کہ ایک یہودی سمجھی جانے والی کمپنی کو اپنی ہی برادری کے سیاسی رہنما کے خلاف یہ اقدام کرنے پر کیوں  مجبور ہونا پڑا؟  اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نیتن یاہو کی انتخابی مہم  کس درجہ گری  ہوئی تھی کہ  نام نہاد  حریت پسند اور روشن خیال امریکی سماج بھی اسے ہضم نہیں کرسکا؟

یاہو نے فیس بک پر اپنے پیروکاروں کو بھیجے گئے ایک نجی پیغام میں  پر عرب شہریوں اور رکن پارلیمنٹ ایمن عودہ کے خلاف لکھا  تھاکہ،  "عرب ہمارے وجود کو ختم کرنے کے در پے ہیں۔ جو ہمیں صفحہ ہستی سے مٹادینا چاہتے  ہیں۔ وہ  حکومت کا حصہ بن کر ایران کے لیے جوہری بم بنانے کی راہ ہموار کریں گے۔ اس طرح عرب اور ایران مل کرہمیں تباہ کردیں گے‘‘۔ ہندو اکثریت میں اسی طرح کا خوف پیدا کرکے  بی جے پی  بھی انتخاب میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔یاہواپنےبیٹے یائر سے  عبرت پکڑ کر  اس رسوائی سے بچ سکتے تھے(جس کا  فیس بک اکاونٹ  اسی طرح کی نفرت انگیزی کے سبب  چند دن قبل معطل کردیا گیا تھا) لیکن مغرور حکمرانوں  سے ایسی سمجھداری کی توقع سادہ لوحی   ہے۔

اس اٹھا پٹخ کے بعد بھی  انتخابات میں  اسرائیلی عوام  کی  منقسم رائے سامنے آئی ۔  سابق چیف آف اسٹاف بینی گانتز اور ان کے اتحاد "بلیو اینڈ وائٹ” کے سامنے نتین یاہو پھر سے وہی پرانی  سیاسی بقا کی جنگ لڑ تے ہوئے نظر آئے اور دس برسوں سے جاری ان  کے غلبے پر  خطرے کی ننگی تلوار لٹکنے لگی۔ سابق وزیر دفاع ایوگدور لیبرمین پھر ایک بار وہ کنگ میکر بن گئے۔عالمی سطح پر جب صہیونی ریاست کے اچھے دن آئے تو یہودی  آپس میں دست و گریباں  ہوگئے۔ آج کل مصر نے اسرائیل سے گہرے رشتے استوار کر رکھے ہیں۔ اس کی مدد سے سعودی عرب  اور عرب امارات بھی اسرائیل سے پینگیں بڑھا ر ہے ہیں ۔ ڈونالڈ ٹرمپ  اور نریندر مودی نے نیتن یاہو کو اپنا بہترین دوست قرار دے دیا ہے اس کے باوجود  اسرائیل کے اندرمنعقد  ہونے والے  یکے بعد دیگرےدو انتخابی نتائج نے ثابت کردیاہے کہ دنیا کا سب سے غیر مستحکم سیاسی نظام جمہوریت ہے اور سب سےکم سیاسی شعور کی حامل  قوم یہودی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو کم ازکم دوسرے انتخاب کے بعد کسی پارٹی کو نہ سہی تو محاذ کو ہی واضح اکثریت مل جاتی  اور ایک مستحکم حکومت قائم ہوتی۔

(۰۰۰جاری)

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

24ستمبر2019۰فکروخبر

«
»

تری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

بیماری آزمائش ہےاور تندرستی ہزار نعمت!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے