صہیونی بندوبست اور عرب تاج و تخت

ایک جانب اردن کا شاہ عبداللہ عرب ممالک کے دبا کے باعث فلسطین کی آزادی کی جنگ میں شرکت پر آمادہ بھی ہوا تو اس شرط پر کہ اسے متحدہ عرب فوج کا سپریم کمانڈر بنایا جائے۔ دوسری جانب خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد تختِ خلافت پر بیٹھنے کے خوابوں میں مست مصر کا شاہ فاروق، فلسطین کے حصوں بخروں کے بعد جنوبی فلسطین پر قبضے کی تیاری کررہا تھا، جبکہ عراق کا مردِ آہن نوری السعید اس تمام زرخیز زمین کو عراق کا نیا صوبہ بنانے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا۔ اسی طرح شام اور لبنان بھی فلسطین کی آزادی کے بجائے اس کے دیگر حصوں پر للچائی ہوئی نظریں ڈال رہے تھے۔ اسی پس منظر کے باعث اقوامِ متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان پر فلسطین میں موجود برطانوی کمانڈر نے یہ تبصرہ کیا تھا: یہودی فوجیں ایک ماہ کی جنگ بندی کو اپنی کمزور پوزیشن کو بہتر بنانے میں، جبکہ عرب فوجیں اس عرصہ کو فلسطین کی لوٹ مار میں اپنے حصے کے لیے جھگڑنے میں ضائع کردیں گی۔
عرب حکمرانوں کی ذاتی ہوس کے باعث بدترین شکست کے نتیجے میں عرب دنیا میں فوجی انقلابات کا سلسلہ شروع ہوا تو نئی انقلابی قوتوں نے عربی قومیت، لادینیت اور اشتراکیت کے نعروں سے عوام کو متحرک تو ضرور کیا لیکن فلسطین کی سرزمین کو عالمی صہیونی پنجوں سے چھڑانے کے لیے درآمد شدہ انقلابی نعروں کے بجائے مقامی و ایمانی عزم و جذبہ درکار تھا۔1967 کی جنگ میں اسرائیل نے فلسطین سے آگے بڑھ کر اردن کے زیر قبضہ بیت المقدس اور مصر و شام کے علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا۔ عرب انقلابیوں نے اس شکست کی ذلت مٹانے اور اپنے علاقے چھڑانے کے لیے 1973 میں آخری کوشش کی۔ ابتدائی فتوحات کے باوجود اسرائیل نے جوابی حربوں کی بدولت نہ صرف بزور چھنے ہوئے علاقے واپس لے لیے بلکہ ایک جانب اس کی فوجیں دمشق سے صرف چالیس اور دوسری جانب قاہرہ سے سو کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئیں۔
1973 کی جنگ نے جہاں ایک بار پھر عربوں کی محکومی و ذلت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی، وہیں عرب شاہوں اور امیروں کے لیے فلسطین کی خاطر قربانیاں دینے کے بجائے برطانیہ، فرانس اور امریکا کی دائمی غلامی کا جواز بھی مہیا کردیا۔ عرب لیگ، اسلامی کانفرنسوں اور دیگر مقامی و عالمی اداروں کے ذریعے زبانی قراردادوں کے باوجود عرب حکمران فلسطین کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کی راہ تلاش کرنے لگے۔ ایران کے انقلاب نے ان کی راہ آسان تر کردی۔ اسلام کے نام پر بپا ہونے والے اس انقلاب نے عالمِ اسلام کی آزادی کا جو نعرہ بلند کیا اس کا سب سے پہلا نشانہ وہ عرب حکمران تھے جن کی حکمرانی ہی عرب اور عالمِ اسلام کی آزادی کی راہ میں پہلی دیوار ہے۔ ایرانی انقلاب نے عرب حکمرانوں کو اس حد تک بدحواس کردیا کہ وہ عرب لیگ جو اپنے وجود کے لیے فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی مرہونِ منت تھی، انقلابِ ایران کے بعد اس کی عمان میں منعقدہ سربراہ کانفرنس میں فلسطین کا ذکر ہی غائب تھا۔ اس کانفرنس کا واحد ایجنڈا عجمی ایران کے خلاف متحدہ عرب محاذ قائم کرنا تھا۔
عرب حکمرانوں کی اس شرمناک اور ذلت آمیز پسپائی نے جہاں ایک جانب فلسطینی عوام کو عرب حکمرانوں کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت سے آشنا کرکے انہیں انتفادہ نام کی پہلی عوامی بغاوت کی راہ دکھائی، تو دوسری جانب فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی قیادت گلے سڑے اور متعفن عرب حکمرانوں کے بجائے انقلابِ ایران کی بے مثال کامیابیوں سے سرشار ایرانی قیادت کو منتقل ہوگئی۔
امام خمینی کی بصیرت نے ایران کی آزادی کے لیے اپنی جدوجہد کا نشانہ شاہِ ایران جیسے فردِ واحد کے بجائے امریکی اور صہیونی قوتوں کے مسلط کردہ نظام کو بنایا ہوا تھا۔ اسی طرح عالمِ عرب کی حقیقی آزادی کے لیے ان کی خارجی جدوجہد کا نشانہ ارضِ اسلام کے قلب میں واقع صہیونی ناسور تھا۔ اس ناسور کو کاٹنے کے لیے انہوں نے انقلابِ ایران کے فوری بعد جن عملی اقدامات کا آغاز کیا اس کے نتیجے میں اسرائیل کی سرحدوں پر ایک جانب حماس، دوسری جانب حزب اللہ اور تیسری جانب شام کے سرگرم اسرائیل دشمن محاذ وجود میں آئے۔ شام میں حافظ الاسد جیسے قصاب کے ہاتھوں ہزاروں، اور اب اس کے بیٹے کے ہاتھوں لاکھوں مسلمانوں کی خونریزی اور دربدری کے باوجود بشارالاسد حماس و حزب اللہ اور ایران کے درمیان عملی پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پل نے بشار حکومت کو ایران کے لیے ایسی مجبوری بنایا ہوا ہے جس کے بغیر اسرائیل کے خلاف واحد متحدہ محاذ کو قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ ایرانی قیادت نے بشارالاسد کے خلاف عوامی تحریک کی ابتدا میں پرامن حل کے لیے جو کوششیں کی تھیں وہ بشار حکومت کے خلاف امریکی، اسرائیلی اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کے کھلے اعلانِ جنگ کی وجہ سے نہ صرف ناکام ہوئیں بلکہ ایران کے لیے بشارالاسد کے مقابلے میں امریکا، اسرائیل اورعرب حکمرانوں کی صف میں کھڑا ہونا ناممکن بنا دیا گیا۔
بشار الاسد کی تمام تر خون آشامی ایک جانب، لیکن اس کے مقابلے میں امریکی، اسرائیلی اور سعودی محاذ کے ذریعے فلسطین کی آزادی کے لیے حماس، حزب اللہ، شام اور ایران کے واحد متحدہ محاذ کی ناکامی ایران کی اس تمام تر جدوجہدکو بے نتیجہ بنا دے گی جس کے لیے ایران اپنے انقلاب کے روزِ اول سے قربانیاں دیتا آ رہا ہے۔ ایران کی انقلابی قیادت نے بیت المقدس کی آزادی کو اپنی خارجہ پالیسی کاجو بنیادی پتھر بنایا ہوا ہے اس میں امریکی اور صہیونی عزائم کی تابعداری کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایران کے لیے بشار الاسد جیسے مقامی شیطانِ خورد سے نجات کے لیے امریکا جیسے عالمی شیطانِ بزرگ کے منصوبوں کا حصہ بننا کسی طور ممکن ہی نہیں۔
اس شیطانِ بزرگ کی شیطانیت کے باعث اسرائیل کی ایک سرحدپر مصری مسلمانوں کے لہو کا دریا بہہ رہا ہے اور دوسری جانب شام پر میزائل گرانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔اس حملے کا مقصد عرب حکمرانوں کو درکار سرپرستی کی ضمانت دیناہے۔ عرب حکمرانوں کو اپنے تاج و تخت بچانے کے لیے امریکی سرپرستی کی ضمانت درکار ہے کہ اس کے بغیر ایران، شام، حزب اللہ اور حماس کے متحدہ اسرائیل دشمن محاذ کو کچلنا ناممکن ہے۔ یہ عرب حکمران اپنے تئیں مصر ی مسلمانوں کے خون کی قیمت پر اسرائیل کی ایک سرحد کو محفوظ کرچکے ہیں۔اب وہ اسرائیل کے اطراف شام، غزہ اور لبنان کی سرحدوں کو محفوظ کرکے اسرائیل کی سلامتی کو چہار جانب سے یقینی بنانا چاہتے ہیں، تاکہ اسرائیل کی سلامتی سے وابستہ مشرقِ وسطی پر مسلط اس صہیونی بندوبست کو مزید مہلت حاصل ہو جائے جس کی بدولت ان کے خاندانی تاج و تخت برقرار ہیں۔

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے